... loading ...
(مہمان کالم)
راڈ نارڈ لینڈ
مجھے لوگوں کے سامنے آنسو بہانے کی عادت نہیں ہے مگر 16 جنوری کو ہفتے کا دن کچھ مختلف تھا۔ ایسا اس وقت ہوا جب میں کوئینز میں کووڈ کی ویکسین لگوا رہا تھا۔ ایک فزیشن‘ جنہوں نے اپنا تعارف ڈاکٹر برک کہہ کرکرایا تھا‘ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں خیریت سے ہوں؟ میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت میں جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ آج یہاں بہت سے لوگ رو رہے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے پچاس سالوں میں زیادہ عرصہ جنگی نامہ نگار کے طور پر گزارا ہے مگر جب دنیا میں کووڈ پھیلا تو میں نے کورونا کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دنیا بھر کے ممالک ایک میدانِ جنگ میں بدل گئے تھے۔ میرے بہت سے جاننے والے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں نے کمبوڈیا کی جنگ سے لے کرآج تک جتنی بھی جنگیں کور کی ہیں‘ کورونا کے خلاف جنگ ان سب سے مختلف تھی۔
دوسری جنگوں میں مَیں کوریج کے لیے جاتا تھا اور جب چاہے گھر واپس آ جاتا تھا مگر کووڈ کی کوریج میں یہ آپشن نہیں ہے۔ وائرس کے خلاف فرنٹ لائنز پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہم ہر جگہ موجود ہیں۔ تو یہ کہنا چاہئے کہ مجھے گھر نہیں چھوڑنا پڑا۔ میں کسی جنگ کی کوریج کے دوران گھر کے لیے اتنا اداس نہیں ہوا تھا جتنا کہ میں اس وقت محسوس کر رہا ہوں۔ ایک رپورٹر جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دور دراز ساحلوں پرگزارا ہو مگر مجھے پچھلا سال بہت سخت اور تکلیف دہ محسوس ہوا۔ میں گھر رہ کر بھی بیرونِ ملک تھا اور مجھے پہلے کبھی اتنی تنہائی اور بیگانگی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میری آزمائشوں کی کہانی بڑی جانی پہچانی ہے، کئی ہفتوں کا قرنطینہ، کئی شادیوں اور جنازے‘ جن میں شرکت نہ کر سکا، لیبر ڈے پر فیملی باربی کیو نہ ہو سکا۔ گریجویشن کی تقریبات اور سالگرہ پارٹیاں‘ سب بھول گئیں، میں اپنے تین بچوں سے نہ مل سکا جو یورپ میں رہتے ہیں۔ منسوخ ہونے والے کرسمس پر مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ ہمارے فیملی ایونٹ کا انتظام میری بہن کیا کرتی تھی۔ اس سال مجھے دعوت نہیں دی گئی تھی جس پر میں بڑا شکستہ دل تھا مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے مدعو کیا بھی جاتا تو میں اس میں نہ جا سکتا۔ اس کے خاندان کے چھ لوگوں نے اس کے ساتھ زوم یا فیس ٹائم پر رابطہ کیا۔ اگر ہم افسردہ ہوئے تو ہم محفوظ بھی تو رہے۔بلامعاوضہ خدمات انجام دینے والے رضاکاروں کو ویکسین سائٹ پر بھاگ دوڑکرتے دیکھنا ایک دل کو چھو لینے والا منظر تھا جہاں میری پہلی ویکسین ڈوز لگنا تھی‘ رضاکاروں نے ڈے گلو کی واسکٹس پہن رکھی تھیں۔ ہر ایک پر لکھا تھا ’’میں سپینش بولتا ہوں۔ میں چینی بولتا ہوں، میں اردو بولتا ہوں‘‘۔ زبانوں کی یہ فہرست بڑی طویل تھی، آخر ہم کوئینز میں رہتے ہیں اور نیویارک میں کئی طرح کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس وائرس کی کوئی سرحدیں نہیں ہیں اور اس نے کسی کمیونٹی کو نہیں بخشا۔ رضاکار پختہ عزم تھے۔
آمد سے لے کر مجھے ویکسین لگنے میں صرف پندرہ منٹ لگے تھے۔ جب ویکسین لگوانے والوں کی اہلیت کو 65 سال تک بڑھایا گیا تو میں بھی سب سے پہلے ویکسین لگوانے والے نیو یارکرز میں شامل ہو گیا۔ شہریوں کو ویکسین اس قدر تیزی سے فراہم کی جا رہی ہے کہ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو کو یہ وارننگ دینا پڑی کہ مجھے ڈر ہے کہ ویکسین ڈوزز کا پہلا بیچ جلد ختم ہو جائے گا۔ میرے ویکسینیٹر ڈینس ماہن نے بتایا ’’بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ پہلے دن تو میلے جیسا ماحول تھا۔ لوگ بہت خوش تھے۔ سائنس کا کارنامہ حیران کن ہے‘‘۔ مس ماہن ویسے تو ایک ا سکول نرس ہیں‘ جو بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، روزانہ تیرہ گھنٹے تک بزرگ شہریوں کو ویکسین لگانا ان کی ڈیوٹی نہیں ہے۔
ویکسین لگانے کے بعد مجھے ملحقہ جگہ منتقل کر دیا گیا جو نارمل حالات میں ایک ا سکول کا کیفے ٹیریا تھا۔ مجھے وہاں پندرہ منٹ گزارنا تھے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مجھے کوئی الرجی یا کوئی اور مسئلہ تو نہیں ہوا۔ شاید ہی کسی شخص کو کوئی شکایت ہوئی ہو۔ جب میں انتظار کر رہا تھا تو میری ایک دوست نے نیویارک ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر میرے لیے ویکسین کی دوسری ڈوز کی بکنگ کرا لی۔ اس نے دیکھا کہ ویلنٹائنز ڈے پر گنجائش موجود تھی۔ یہ فیملی کے لیے ایک اچھا دن تھا کہ اس دن چھٹی تھی اور ہم زبردست طریقے سے جشن منا سکتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ میں پہلے ہی کرسمس اپنی فیملی اور اپنے بچوں کے ہمراہ اپنی بہن کے گھر منانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ جس دن ویلنٹائنز ڈے آیا تو میں اپنی دوسری ڈوز کے لیے گیا اور مجھے ایک سکون کا احساس ہوا مگر اس مرتبہ میری آنکھیں خشک تھیں۔
اس دن کو نیویارک سٹی کی ایک انیس سال ٹیچر کے نام کر دیا گیا تھا۔ وہ جیکسن ہائٹس کی رہنے والی یسینا گارشیا تھی۔ اس کا علاقہ کووڈ سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔ جب کووڈ پھیلنا شروع ہوا تو مس گارشیا جو پڑھاتی ہیں‘ نے فاصلاتی ٹیچنگ شروع کر دی۔ وہ انگلش بطور سیکنڈ لینگویج پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھا کیونکہ حکومت نے سکولوں کو بند کرنے میں تاخیر کر دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب میں اپنے بوڑھے والدین سے مل سکتی ہوں جن کی عمریں اسّی سال کے لگ بھگ ہیں اور اب ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مس گارشیا نے کہا کہ جب ویکسین آئی تو میں سائنس کی بڑی شکر گزار تھی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ سائنس ہی ایسی چیز ہے جس کا جشن منایا جانا چاہئے اور اسے ہمارے سابق صدر ٹرمپ اور ان جیسے اقتدار کے دوسرے حریصوں سے بچایا جا نا چاہئے جو آج بھی اپنے فائدے کے لیے اسے مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ویکسین لگوانے کے بعد وہاں سے روانہ ہونا ایسے ہی تھا جیسے کوئی گھر وں میں لڑی جانے والی ایک بڑی جنگ میں فتح اور کامرانی سے سرفراز ہو کر جا رہا ہو۔ یہ ایک فتح کا دن تھا جس کی میں بطور رپورٹر کوریج بھی کر رہا تھا اور اس کا ایک مرکزی کردار بھی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔