... loading ...
یاجوج و ماجوج کے متعلق بڑی عجیب و غریب کہانیاں مشہورہیں جسے سن کر بچے سہم سہم جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ انتہائی وحشی اور خوفناک سمجھے جاتے ہیں ان کی وحشت کی کئی کہانیاں ہرمذہب کے لوگوںمیں مشہور ہیں ،ان کا تذکرہ آخری الہامی کتاب(قرآن مجید) میں بھی موجود ہے لیکن تاریخی اعتبار سے یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ انسانی نسل کے دو بڑے وحشی قبیلے گزر چکے ہیں جو اپنے اِرد گرد رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیاں تک تاراج کر دیتے تھے۔ قر آن مجید کی آیات، توریت کے مطابق اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شمال مشرقی ایشیا ء میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں ایشیا کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں مصیبت برپا کرتے تھے۔بعض تاریخ دانوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اورسیک کے آس پاس بتلایا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج کے شہر تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کے لیے ذوالقرنین نے پہاڑوں کے مابین اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر فرمائی۔ذوالقرنین اور سدِ ذوالقرنین کا ذکر قر آن کریم کی سورۃ الکہف میں موجود ہے۔جس ذوالقرنین کا قر آن میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت اور سدِ ذوالقرنین سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر بعض اس کا انکار کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر ذوالقرنین کو قدیم ایرانی بادشاہ سائرس اعظم (کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بے حد مال و اسباب و وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ قر آن کریم کی سورۃ کہف میں بحوالہ یاجوج ماجوج ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب وہ اپنی شمالی مہم کے دوران سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان ناقابل فہم تھی تاہم جب ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں لہٰذا آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد (دیوار) تعمیر کر دیں۔ کچھ لوگوںکی دانست میں یہ ایک خیالی دیوارہے کچھ اس دیوارکو دیوار ِ چین سمجھتے ہیں جو چاند سے بھی نظر آنے والی زمین کی واحد چیزہے ، سب مذہبی اسکالزو رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالقرنین نے اْس قوم کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کے لیے دیوار بنائی اور جو دیوار بنائی گئی وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیںبلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی تھی جس سے وقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔ جب یہ دیوار تعمیر ہو گئی تو ذوالقرنین نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالاآخر فنا ہونے والی ہے اور جب میرے رب کے وعدے کا وقت قریب آ ئیگا تو وہ اس کو پیوندخاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ رہی یہ بات کہ سدِ ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟ تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہو چکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملوں سے بچائو کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے اور اب تک موجود ہے لیکن واضح رہے کہ دیوارِ چین لوہے اور تابنے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کوہستانی درّے میں ہے ، وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے۔ بعض مفسرین اور مذوبی رہنمائوں کا اصرار ہے کہ یہ وہی دیوار ’’مارب’’ ہے کہ جو یمن میں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ دیوارِ مارب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کے لیے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے جبکہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ’’قفقاز’’ میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اس میں ایک دیوار کی طرح کا درّہ بھی موجود ہے جو مشہور درّہ ’’داریال’’ ہے۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر آتی ہے، اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے۔ اگرچہ سدِ ذوالقرنین بڑی مضبوط بنا ئی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا اِدھر آنا ممکن نہیں لیکن جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث شریف میں حضور نبی کریم ﷺنے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یعنی انسانوں کو بھی کھانے سے گریز نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو طور کی طرف جمع کرلیں کیونکہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کسی کے بس میں نہ ہوگا۔حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھی اس وقت ایسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں غذا کی سخت قلت ہوگی پھر لوگوں کی درخواست پر حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کے لیے بددعا فرمائیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں اور کانوں میں کیڑا پیدا کر دے گا جو بعد میں پھوڑا بن جائے گاجس کے پھٹنے سے یہ ہلاک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ سب کے سب مر جائیں گے ، ان کی لاشوں سے ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہوگی اور ہر طرف ان کی لاشوں کی گندی بو پھیل جائے گی ، پھر عیسیٰ ابن مریم دعا کریں گے تو اللہ جل و شانہ اونٹ کی گردن برابر پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جانے کہاں پھینک دینگے ، پھر ایک بارش ہوگی جس سے کل زمین صاف شفاف ہو جائے گی اور ہر طرف ہریالی و خوشحالی ہوگی۔صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان مفسرین کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ یا منگول ترک جن میں سے چنگیز بھی تھا یا روسی اور چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں، کیونکہ یاجوج و ماجوج کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت ملے گی ، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے یہ بھی کہا یہ جاتاہے کہ یاجوج و ماجوج جب غالب آجائیں گے تو وہ ہر چیزکو تباہ وبربادکرکے رکھ دیں گے پھر عیسی ؑکی بددعا سے وہ ہلاک ہوجائیں گے اس کے بعدقیامت بپا ہونے کی پیش گوئیاں بھی ملتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔