وجود

... loading ...

وجود

آج پھرتصویریں سونے نہیں دیتیں

جمعرات 11 مارچ 2021 آج پھرتصویریں سونے نہیں دیتیں

آج دل پھرسے مضطرب ہے۔ بے قراری،بے سکونی حواس پر طاری ہے ،میرے چاروںاطراف فضا میں خون کی بو رچی ہوئی محسوس ہورہی ہے جیسے سانس لینا بھی دوبھرہوگیاہو،۔ میرے ارد گرد آہوں،سسکیوں اور بین کرتی آوازیں حا وی ہوتی جارہی ہیں ،میں خوفزدہ ہوں ذرا سی آہٹ پر بھی سہم سہم جاتاہوں کبھی بچوں کی چیخیں،۔کبھی نوجوان لڑکیوں کی آہ و بکا،۔کبھی مردوں کی بے بسی کی ان کہی کہانیاں ، کبھی عورتوںکا شور ،خوف ڈر اوردرد میں ڈوبی آوازیں اور کبھی حملہ آوروںکے قہقہے،۔۔نفرت میں ڈوبے تحقیر آمیز جملے سماعتوںپر ٹکرارہے ہیںایک حشر بپاہے میں جس طرف بھی نظردوڑاتاہوں تصویریں ہی تصویریں دکھائی دیتی ہیں خون میں رنگین،دردمیں ڈوبی،چیختی چلاتی تصویریں۔۔ احساس یوںہورہا ہے جیسے ان کے دردکی کسک میرے سینے سے اٹھ رہی ہو۔۔۔جیسے ان کے خون کے چھینٹوںسے میرا وجود لہو لہوہے،۔کئی تصویریں میری آنکھوںمیں جیسے پیوست ہوکررہ گئی ہیںمیں گھبراکر کسی اور جانب دیکھنا چاہتاہوں لیکن چندتصویریں ماحول پرغالب آچکی ہیں ،ایک تصویر میں انسانی ہڈیوںکا ڈھیر لگاہواہے غالباً ایسے ہی انسانی کھوپڑیوں کے مینارہلاکو خان نے بغدادمیں لگائے تھے ،یہ بھی کبھی گوشت پوست کے انسان تھے لیکن اب انسانی ہڈیوںکا ڈھیرہے۔۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا جرم محض یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں،۔۔اپنے نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان ہے،۔ایک اور تصویرمیں ایک شخص کوپٹرول چھڑک کر زندہ جلادیاگیاہے جان بچانے کی فطری خواہش میں وہ چیختا چلاتا بھاگتا پھررہاہے اور اس کا تعاقب ایک فوجی گن اٹھائے کررہاہے،۔ایک تصویر بھلائے نہیں بھولتی ایک نوجوان کے ٹکڑے ٹکڑے لاش کو اس کے لواحقین جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ہاتھ،بازو،ٹانگیں اور جسم کے ان گنت ٹکڑے دیکھ دیکھ کر بے رحم کو بھی رحم آجائے لیکن برما کے سفاک قاتلوںکو ذرا بھی ترس نہیں آتا۔

ایک تصویرپر برما کے غریب مسلمانوںکا ’’جرم‘‘ لکھا دیکھا۔ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کے ملک برما میں مسلمانوںکی تعداد صرف7لاکھ ہے یعنی اس ملک میں مسلمان 10%سے بھی کم ہیں1962ء میں جب فوج نے اقتدارپرقبضہ کیا تو انہوںنے برما کے مسلمانوںکو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیئے برماکے صوبے اراکان میں مسلمانوںکی اکثریت ہے فوجی حکومت کی جانب سے ان کو موبائل فون استعمال کی بھی اجازت نہیں ہے 3 جون کوبرما کے دارالحکومت رنگون میں11 مسلمانوں کو بسوںسے اتار کر بے دردی سے قتل کردیا گیا جس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران فوج اور بدھ مت کے انتہا پسندوںکی فائرنگ سے 3000سے زائد مسلمان شہیداور سینکڑوں زخمی ہوگئے ،نوجوان لڑکیوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں ،صوبہ اراکان کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے برما کے مسلمانوں نے پناہ کے لیے ادھرکا رخ کیا تو بنگلہ دیشی حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دینے سے انکارکردیا بلکہ قافلوںمیں لوٹ مارکی گئی جوان لڑکیوںکو اغواء کرلیا گیا ،اب تلک ایک لاکھ سے زائد مسلمانوںکو برمی فوج اور بدھ انتہا پسندوں نے قتل کردیاہے6000مسلم بستیوں کو نذر ِ آتش کردیا گیاہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں ،اب روہنگیا کے مسلمانوںپر عرصہ ٔ حیات تنگ ہے مساجدکو مسمارکیا جارہاہے کئی آبادیاں جلادی گئیں، اپنی جان بچاکر پڑوسی ممالک جانے والی برماکی دوشیزائوںکی عصمت دری کی جارہی ہے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ برما کے مسلمانوں یہ ظلم بربریت بدھ کے پیروکارکررہے ہیں بدھ مت جو امن کی علامت سمجھا جاتاہے جو امن کا پرچارکرتے ہیں مغربی میانمار میں مسلم کش واقعات میں ہزاروں افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا گیاہے ،برماکی فوجی حکومت نے مسلمانوںکے لیے بیرونی امداد اور اقوام متحدہ کی طرف سے امدادپر پابندی لگادی ہے۔۔لیکن میرے آس پاس بکھری دردمیں ڈوبی،چیختی چلاتی تصویریں حقیقت کی نقاب کشائی کررہی ہیں ایک تصویرمیں ڈھانچے ہی ڈھانچے دیکھ کر کئی کہی ان کہی کہانیاں تصور میں ابھر آتی ہیں۔۔اللہ معاف کرے ایک تصویردیکھ کررونگٹے کھڑے ہوگئے سینکڑوں مسلمانوںکوزندہ جلادینے کی خوفناک تصویر قطار درقطار جلی کوئلہ بنی لاشیں۔ جیسے لاتعدادبدھ کے مجسمے پڑے ہوں۔یااللہ یہ کیسے سفاک قاتل ہیں جنہوںنے ہنستے بولتے انسانوںکو آگ کی بھینٹ چڑھاڈالا۔۔۔ایک تصویرمیں نوجوان لڑکی خون کی آنسورورہی ہے جس کے خاندان کے سات افرادکو بدھ دہشت گردوںنے شہید کردیا ایک اور تصویرنے دل دہلادیا انسان کی سربریدہ،پابریدہ اوربازو بریدہ ٹکڑے جیسے آرے سے کسی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہو ۔۔یہ تصویر دیکھ کر کوئی خیال کرسکتاہے کہ آج کے انتہائی تہذیب یافتہ دورمیں کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتاہے۔۔۔ایک اور تصویر بھلائے نہیں بھولتی دو معصوم سے بچے پھانسی پر جھول رہے ہیں ان کے چہروںپر فرشتوںکا سا تقدس ہے برما کے انتہا پسندوںنے ان بچوںکو جیتے جی گلے میں رسیاں ڈال کر انہی کے گھروںکو پھانسی گھاٹ بنادیا۔۔۔ایک اور تصویر حواس پر چھائی ہوئی ہے سکول یونیفارم میں ملبوس ننھے منے طالبعلموںکی لاشیں بے گورو کفن شہرکے چوراہے میں پڑے ہوئی ہیں۔تصویریں ان گنت تصویریں کسی میں مسلمان بستی میں آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں کسی میں بدھ بلوائی مسلمانوںپر حملے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔کسی تصویرمیں نوجوانوںکو پیٹ کے بل لٹاکر ان کے ہاتھ اور پائوںکو اجتماعی طور پرباندھ رکھاہے بے بسی کی انتہا ان کے چہروںپر عیاں ہے ۔

میرے آس پاس پھیلی تصویریں غم کا نوحہ ہیں۔۔ مسلمانوںکی بے حسی کا نمونہ ۔۔۔ یہ تصویریں انسانوں کے لیے عبرت بھی ہیں لیکن انہیں دیکھ انسانی حقوق کی تنظیموں،بڑے بڑے عالمی رہنمائوں اور مسلم حکمرانوں کے ضمیرکاامتحان بھی ہیں جن کا فرض بنتاہے کہ وہ برما کے مسلمانوںپرہونے والے ظلم کو روکیں اس کے خلاف آواز بلندکریں پاکستانی میڈیا بھی اس سلسلہ میںمجرمانہ غفلت کا مرتکب ہورہاہے جوفلمیں خبروںکو دلفریب انداز میں دکھاتاہے لیکن برما کے مسلمانوںپرہونے والے مظالم سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔یہ برماکے مسلمانوںکی حالت ِ زارکا نوحہ ہے یامیرے بندلبوںکی چیخیں میںنہیں جانتا لیکن ظلم کے خلاف آوازبلندکرنے کی کوشش کی ہے شاید عالمی ضمیر جاگ اٹھیںیہ سوچتے سوچتے میں سونا چاہتاہوں نیند آنکھوںسے کوسوں دورہے ،میری سماعتوںپر شور بڑھتاہی جارہاتھاجیسے بہت سے جلاد تعاقب میںہوں اسی اثناء میںتیزہوا سے بہت سی تصویریں اڑکر میرے دامن میں آگریں جیسے کوئی پناہ گزیں ہونا چاہے یا جائے اماں ڈھونڈرہاہو۔۔۔ پھر عجیب بات ہوئی ساری کی ساری تصویریں مجسم ہوگئیں میرے چاروں اطراف بچے، نوجوان،لڑکے، بوڑھے،عورتیں ،لڑکیاں آکھڑی ہوئیں وہ چیخ رہی تھیں چلارہی تھیں ان کی آنکھوںمیں بلا کا درد،کرب ہی کرب تھامعصوم سی بچیاں اورپیارے سے ننھے فرشتے جنہیں دیکھ کر بے اختیار پیارآجائے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرنے لگے ہمیں ظالموںسے بچالو۔۔ بے رحم قاتلوںسے بچا لو۔۔ ایک باوقار خاتون بولی سوچ کیا رہے ہو۔۔۔ دوسری بولی ہماری جان پر بنی ہوئی ہے یہ سورہے ہیں۔

ایک پیاری سی بچی نے میرادامن تھام لیا ایک فرشتے کی صورت والے بچے نے میرے کندھے کو جھنجوڑکر کہاہم ایک ہی نبی ﷺ کے امتی ہیں۔۔۔ ان میں کوئی تمہارا کلمہ گو بھائی ہے ۔۔کوئی بہن کوئی بیٹے جیسا۔۔کیا ہماری مدد نہ کرو گے۔۔اسی دوران ایک عورت چیختی ہوئی بولی ہماری مددنہ کی تو قیامت کے روز اپنے نبی ﷺ کا سامنا کیسے کرو گے۔۔یہ باتیں ۔۔۔آہ وبکا سن کر میرا جسم لرزنے لگا پورا وجود پسینے میں شرابورہوگیا پھر ماحول میں بارودکی بو پھیلتی چلی گئی درودیوار خون کے چھینٹوںسے لت پت ہوگئے۔۔چیخیں ۔۔ہائے۔

بھگڈر۔مرگئے۔۔شور۔ہمیں ظالموںسے بچالو۔ بے رحم قاتلوںسے بچا لو ۔۔کی کربناک آوازیںسن کرجیسے آنکھ کھل گئی ہو ۔۔ڈرتے ڈرتے اپنے آس پاس دیکھا تو لاشوںکے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔کئی زخمیوںکے لبوںپر کلمے کا وردجاری تھا اپنی بے بسی ۔ امت مسلمہ کی بے کسی اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر میں پھوٹ پھوٹ کررونے لگاہوں۔۔۔شاید یہ رونا مسلمانوںکا مقدر بن گیا ہے ۔۔دل سے ایک ہوک اٹھی خداکرے مسلمان خواب ِ غفلت سے جاگ جائیں توشاید پھر کسی کے شعور،لاشعورمیں تصویریں نہ در آئیں ایسی تصویریں جنہیں دیکھ کروحشت ہوتی ہے۔۔رونا آتاہے۔۔قرار لٹ جاتاہے میرے جیسے کسی شخص کو یہ کہنے کا یارا نہ رہے کہ مجھے یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں۔۔لیکن میں سوچ سوچ کر تھک گیاہوں میرے پاس کسی دکھ کا مداوا نہیں جی چاہتاہے اپنا گریبان چاک کرکے دور کہیں دور چلا جائوںجہاں میرے خوابوںمیرے۔۔ خیالوں میں بھی یہ تصویریں نہ آسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر