... loading ...
’’شدت پسندوں کے گروہ ہر مذہب میں ہوتے ہیں، عیسائیوں میں بھی شدت پسند لوگ کثرت سے موجود ہیں۔اس لیے دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف اسلام کے ساتھ تشدد کا لاحقہ جوڑنا قطعی مناسب طرز ِ عمل نہیں ہے ۔ کیونکہ بنیاد پرست عناصر محدود تعداد میں سہی بہرحال ہر مذہب کی صفوں میں موجود ہوتے ہیں ۔یوںسمجھ لیجئے کہ اگر میں اسلامی شدت پسندی کے بات کروں گا تو پھر مجھے عیسائی شدت پسندوں کے بارے میں بھی بات کرنا ہوگی۔ کیونکہ عیسائی بھی اتنے ہی خطرناک اور مہلک ہوسکتے ہیں ،جتنا کہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد۔جیسا کہ آج کل صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یورپ نوجوانوں کو دہشت گردی کی جانب دھکیل رہاہے ۔میں ہر روز اخبار ات میں دیکھتا ہوں کہ اٹلی میں تشدد کے واقعات والی خبروں سے کس تسلسل سے چھپ رہی ہیں ۔کہ کہیں کسی نے اپنی گرل فرینڈ کو جان سے ماردیا ۔کہیں کسی نے اپنی ساس یا پھر شوہر کو ہی قتل کردیا ۔کہیں کسی نے اپنے دوست اور کاروباری رفیق کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔بدقسمتی سے یہ سب افراد عیسائی مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ۔لہٰذا یورپ کو کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں پر الزام تراشی کرنے سے پہلے اپنا تنقیدی جائزہ بھی ضرور لینا چاہئے ۔کیونکہ دہشت گردی تب ہی جنم لیتی ہے ،جب مظلوم کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ بچا ہو‘‘۔آپ سوچ رہے ہوں کہ ضرور یہ الفاظ کسی مسلم ملک کے سیاسی یا پھر مذہبی رہنما کے ہی ہوں گے ۔ جب ہی تو درج بالا سطروں میں عیسائی حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لیکن حیران کن طور پر یہ خیالات مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے کسی سیاسی و مذہبی شخصیت کے بجائے کیتھولک عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا ’’پوپ فرانسس ‘‘ کے ہیں ۔یاد رہے کہ پوپ فرانسس نے ان خیالات کا اظہار آج سے چار برس قبل پولینڈ کے دورے سے واپسی پر اپنے طیارے میں عالمی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا۔
رومن کیتھولک عیسائیوں کے اسی روحانی پیشوا’’ پوپ فرانسس‘‘ نے رواں ہفتے عراق کا تاریخی دور کرتے ہوئے ،ایک بار پھر سے کھل کر مذہب کے نام پر ہونے والی انتہا پسندی کی مذمت کی ہے۔لیکن پوپ فرنسس کے اس دورے میں اُن کے بیان سے بڑھ کر ایک بہت قابل ذکر بات پوپ فرانسس کی عراق کے سب سے اہم مسلم رہنما آیت اللہ علی السیستانی سے ملاقات بھی تھی۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اِن دونوں رہنماؤں کی ملاقات عراق کے مقدس شہر نجف میں ہوئی۔ جہاں آیت اللہ علی السیستانی نے اپنے گھر پر رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس کاانتہائی سادگی سے استقبال کرتے ہوئے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ ’’ مسیحیوں کو بھی دوسرے عراقیوں کی طرح امن اور سلامتی حاصل ہونی چاہیے اور انہیں اپنے تمام آئینی حقوق حاصل ہونے چاہییں‘‘۔حیران کن طور پر ویٹی کن سٹی کے رہنما پوپ فرانسس کے دورہ عراق کی طرح ،جناب آیت اللہ علی السیستانی کا بیان بھی بڑا معنی خیز اور اسرار سے بھرپور ہے ۔ دراصل اس بیان کو عالمی میڈیا میں عراقی حکومت کے اعتراف کے طور پر بھی لیا جارہاہے اور اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بحث و مباحثے کیے جارہے ہیں کہ ’’کیا واقعی عراق میں کیتھولک عیسائیوں کو آئینی حقوق اور آزادی حاصل نہیں ہے؟‘‘۔
یاد رہے کہ کیتھولک چر چ کے رہنما اور شیعہ عالم دین کے درمیان اس ایک باہمی ملاقات کروانے کے لیے کئی برسوں سے سرتوڑ کوشش کی جارہی تھیں ۔اس کی بنیادی وجہ ہے کہ آیت اللہ السیستانی شاذ و نادر ہی کسی سے ملاقات کرتے ہیں لیکن نجف میں پوپ فرانسس کی وفد کے ساتھ آیت اللہ علی السیستانی سے ملاقات تقریباً 50 منٹ تک جاری رہی۔جس میں دونوں رہنما بغیر ماسک کے وقفہ وقفہ سے گفتگو کرتے رہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا دو اہم ترین عیسائی اور مسلم رہنماؤں کی درمیان ہونے والی ملاقات کے اثرات و مضمرات کے بارے میں زبردست بحث جاری ہے ۔ کوئی اس ملاقات کو عراق کے لیئے ایک یادگار لمحہ قرار دے رہا، کسی کے نزدیک یہ ملاقات عراق میں کیتھولک عیسائیوں کے اثرو نفوذ میں اضافہ کی جانب ایک اہم سنگِ میل ہے۔ جبکہ ایک مکتبہ فکر ایسا بھی جو اس ملاقات کو سخت شک و شبہ سے دیکھنے ہوئے اسے مسلسل ہدفِ تنقید بھی بنا رہا ہے۔
عراقی حکومت کے لیے تو پوپ فرانسس کا دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ تاریخی لحاظ سے پوپ فرانسس کا یہ پہلا دورہ عراق ہے۔لیکن دنیا بھر کے عیسائی اس لیے پوپ فرانسس کے دورہ عراق پر اپنی شدیدحیرانگی کا اظہار کررہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد یہ پوپ کا پہلا بین الاقوامی سفر ہے۔ کووڈ 19 اور سیکیورٹی خدشات نے اسے پوپ فرانسس کے لیے اب تک کا سب سے خطرناک سفر بنا دیا ہے ۔کیونکہ پوپ اس وقت 84 برس کے ہو چکے ہیں ۔ بعض تجزیہ کاروں خیال ہے کہ’’ کورونا وائرس کی وبا کے درمیان 84 برس کے عمررسیدہ پوپ کے دورہ عراق سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ویٹی کن سٹی کے نزدیک عراق کے ایک مسلم رہنما سے ملاقات کرنا کس قدر اہمیت کی حامل ہوگی‘‘۔مگر آخر وہ کون سے ممکنہ سیاسی و مذہبی اہداف ہوسکتے ہیں جن کے لیے پوپ فرانسس کو کورونا وائرس کے خطرات کو بھی پس پشت ڈال کر ہنگامی دورہ عراق کرنا پڑا۔ ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پوپ فرانسس ، عراق کے اہم ترین مذہبی رہنما سے ملاقات عراق میں بسنے والے عیسائیوں کے لیے مختلف طرح کی سیاسی و معاشی مراعات کا حصول یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے ۔ مگر اس ملاقات پر اعتراض کرنے والوں کے نزدیک حقیقت وہ نہیں ہے جو بتائی جارہی ہے کیونکہ عراق کی مسیحی آبادی تو پہلے ہی یہاں کی مسلم آبادی سے زیادہ بہتر صورت حال میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں عراق میں بسنے والے عیسائیوں کی تعداد 14 لاکھ سے کم ہو کر ڈھائی لاکھ کی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ جن میں سے اکثریت معاشی طور پر کافی خوش حال ہے۔لہٰذا عراقی عیسائیوں کو پو پ فرانسس کے دوہ عراق سے ایک گوناگوں جذباتی وابستگی اور خوشی تو ضرور حاصل ہوئی ہو گی ۔مگر یہ کہنا کہ وہ پوپ کے دورہ سے معاشی و سیاسی مفادات وابستہ کرنا چاہیں گے۔ یہ بات کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں لگتی۔
سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ پوپ فرانسس مسیحیوں ،یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان مفاہمت کے خالص سیاسی مشن پر نکلے ہوئے ہیں اور اس مشن کی کامیابی کو مستقبل قریب میں اُبھرتے ہوئے چین کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔اس موقف کے حامل تجزیہ کار استدلال یہ دے رہے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں پوپ فرانسس نے مصر ،مراکش متحدہ عرب امارات ،ترکی ،بوسنیا ہیرزیگوینا ،اُردن ،آذربائی جان حتی کے فلسطینی علاقوں میں پے درپے اور ہنگامی دورے کیے ہیں ۔ جبکہ ویٹی کن سٹی کا ماضی بھی یہ چغلی کھاتا ہے کہ کیتھولک سربراہ شاز و ناد ر ہی کبھی کسی دوسرے مذہب کے ملک میں قدم رکھتا ہے ۔ تاریخی روایات کے یکسر برعکس پوپ فرانسس کی جانب سے مسلم ممالک کے دورے کر کے اہم ترین مسلم رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ باور کروانا ہے کہ عیسائی اور مسلمانوں کے مفادات ایک جیسے ہیں ۔لہٰذا انہیں مل جل کر آنے والے چیلنجزکا مقابلہ کرنا ہوگا اور یقینا اہلِ مغرب کے نزدیک وہ چیلنج چین ہی ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کیتھولک چرچ کی جانب سے ایسی ایک کوشش ماضی میں بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان کامیابی کے ساتھ انجام دی جاچکی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب خلافتِ عثمانیہ کے خلاف اہم ترین مسلم سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو عہدہ و اقتدار کا لالچ دے کر اکٹھا کیا گیا تھا اور اس سازشی ہدف کے حصول میں کلیدی کردار کیتھولک چرچ سے منسلک عیسائی رہنماؤں نے ہی ادا کیا تھا۔اَب وہ الگ بات کہ خلافِ عثمانیہ کی شکست و ریخت کے بعد کیتھولک رہنماؤں کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا جاسکابلکہ اُلٹا اصل دشمن جرمن نازیوں کے ساتھ مضبوط اور مستحکم سفارتی و دفاعی تعلقات قائم کرکے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی۔
لیکن شاید اَب اہل مغرب کو شدت کے ساتھ احساس ہورہا کہ مستقبل میں اُن کا اصل حریف اسلام نہیں بلکہ کمیونسٹ ملک چین ہوگا۔ جبکہ مغرب کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ صرف معاشی و عسکری قوت سے چین کے مغرب کی جانب بڑھتے ہوئے قدم نہیں روکے جاسکتے ۔ شاید اسی لیئے آنے والے وقت میں چین کے خلاف مذہب کو بطور طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے دوسری جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیئے کیتھولک چرچ نے روس اور چین کو اپنے ساتھ ملالیا تھا۔اس بار حکمت عملی یہ ہے کہ اُبھرتے ہوئے روس اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیئے اسلامی ممالک اور مذہبی رہنماؤں کی جتنی ممکنہ حمایت حاصل کی جاسکتی ہے کرلی جائے۔ اس لیے غالب گمان یہ ہی ہے کہ پوپ فرانسس کے قدم صرف عراق تک ہی نہیں محدود رہے گے بلکہ جلد ہی آپ کیتھولک چرچ کے عظیم سربراہ پوپ فرانسس کو دیگر مسلم ممالک میں بھی اَمن ،بھائی چارہ اور مل جل کر آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا درس دیتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں گے۔ ایک موہوم سا امکان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والے ایام میں پوپ فرانسس کا ممکنہ دورہ پاکستان اور بھارت کا بھی ہوسکتاہے ۔یا د رہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے پوپ فرانس کے مسلم ممالک اور مسلم رہنماؤں سے ملاقاتوں کو مینار اور گھنٹیوں کے برادرانہ ملاپ سے تعبیر کیا جارہاہے۔بظاہر مینار اور گھنٹیوں کے درمیان باہمی اتحاد کا قیام ایک اچھی بات ہے لیکن صرف اُس صورت جب کیتھولک چرچ کی گھنٹیوں کی نیت چین اور روس میں گھنٹا بجانے کی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔