وجود

... loading ...

وجود

صدر جو بائیڈن کا نیا معاشی ریلیف پیکیج

جمعرات 11 مارچ 2021 صدر جو بائیڈن کا نیا معاشی ریلیف پیکیج

جم ٹینکر سلی
(گزشتہ سے پیوستہ)

سرمایہ کاری میں مسلسل اضافے سے متعلق جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ تو پوری نہ ہو سکیں مگر ماہرینِ معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ جس سال ٹیکسوں میں کٹوتی کا بل پاس ہوا تھا‘ اس میں معیشت اور معاوضوں میں ایک عارضی اضافہ ضرور دیکھنے میں آیا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ زیادہ آمدنی والے افراد اور بڑی بڑی کمپنیاں ایک مرتبہ پھر حکومتی امداد کی طلبگار ہیں۔ مجموعی طور پر کووڈ کے دوران ہونے والی کساد بازاری اور پھر معاشی بحالی کے عمل نے انہیں پہلے سے زیادہ امیر بنا دیا ہے۔ زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے ورکرز اور وہ لوگ جو دفاتر سے دور گھر بیٹھ کر کام کر سکتے ہیں‘ کو ایسے کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ معاشی ریکوری کے دوران انہوں نے بچتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ چونکہ صارفین کی عادات اور لائف ا سٹائل میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہو ئی ہے اس لیے ایمازون جیسی بڑی بڑی کمپنیوں نے مارکیٹ سے اپنے سائز سے زیادہ حصہ وصول کیا ہے۔ مگر اس شرح آمدن کے دوسرے کنارے پر موجود سیاہ فام اور لاطینی نسل کے افراد سمیت لاکھوں امریکی شہری اس کساد بازاری کی وجہ سے شدید اذیت اور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔کووڈ پھیلنے سے پہلے والے معاشی بوم کے مقابلے میں آج مارکیٹ میں ایک کروڑ ملازمتیں کم ہو گئی ہیں۔
تما م نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور رنگدار افراد روزگار کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس وقت سیاہ فام لوگوں میں بیروزگاری کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔سینسس ہائوس ہولڈ پلس کے سروے میں ایک سینئر ریسرچر لینا سمٹ کے ہیومین رائٹس واچ میں غربت اور عدم مساوات پر کیے گئے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران میں ساری توجہ کم آمدنی والے طبقے اور بے روزگار افراد پر ہے۔ رپورٹ کی مذکورہ نصف کے قریب گھریلو آمدنی جو سالانہ 35ہزار ڈالرز تھی‘ گھریلو اخراجات کے مقابلے میں کم رہی جبکہ ایک چوتھائی افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا رہا۔ صدر جو بائیڈن کے اس پلان سے ان تمام گھروں کو سرکاری امداد ملے گی۔

’’ایمپلائے امریکا‘‘ واشنگٹن میں قائم ایک گروپ‘ جو صدر بائیڈن کے اس پلان کی حمایت کرتا ہے‘ کی پالیسی ڈائریکٹر ایلزبتھ پانکوٹی نے کووڈ کے ان سب ممکنہ متاثرین کا تخمینہ لگایا ہے جو اس بل کے تحت سرکاری امداد کے مستحق ہیں۔ ایک تین سالہ بچے کی ملازمت پیشہ ماں جس کی سالانہ آمدنی سولہ ہزار ڈالرز سے کم ہے‘ اس پلان کے ذریعے کم از کم 4775 ڈالرز کا براہِ راست فائدہ اٹھائے گی۔ چار افراد پر مشتمل خاندان‘ جس میں ایک کمانے والا ہو اور وہ بھی چائلڈ کیئر کی وجہ سے بے روزگار ہو‘ اسے 12460 ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ٹیکس پالیسی سنٹر کے اندازے کے مطابق براہِ راست ادائیگی اور ٹیکس کریڈٹ دینے کے بعد امریکا کے ایک کم آمدنی والے خاندان کی ٹیکس ادائیگی کے بعد والی اوسط آمدنی میں اس سال بیس فیصد سے زائد اضافہ ہو گا۔ اس نے پہلے یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کی طرف سے ٹیکس کٹوتیوں کی بدولت پہلے سال میں اسی گروپ کی آمدنی میں ایک فیصد سے کم اضافے کی امید ہے۔ ڈیمو کریٹ سینیٹر مائیکل بینیٹ‘ جو چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کی مدد سے غربت کے خلاف جنگ لڑنے کے پْرجوش حامی ہیں‘ کا کہنا ہے ’’یہ بات رجعت پسندانہ سوچ سے اتنی ہی بعید ہے جتنی یہ سپلائی سائڈ اکنامکس سے دور ہو سکتی ہے۔ یہ ترقی پسندانہ اکنامکس ہے جو دولت کو ورکنگ کلاس کے ہاتھوں میں دیتی ہے جو اس رقم کو خرچ کرتی ہے‘‘۔ سابق معاشی امدادی پیکیج جن میں وہ پیکیج بھی شامل ہے‘ جس پر گزشتہ سال مارچ میں صدر ٹرمپ نے دستخط کیے تھے‘ بے روزگار اور کم آمدنی والے کارکنوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا تھا۔ بحران خواہ کتنا ہی سنگین تھا‘ کئی لوگوں نے اس میں سے بھی بچت کی راہ نکال لی تھی۔جے پی مورگن چیز انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ کم آمدنی والے افراد نے اسی موسم گرما میں زیادہ آمدنی والے لوگوں کے مقابلے میں وہ رقم کہیں تیز ی سے خرچ کر لی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی معاشی بحالی کے عمل میں مزید امدادی رقم خرچ کر سکتے تھے اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ اس رقم کو ملکی معیشت میں بروئے کار لائیں گے۔ اس انسٹیٹیوٹ کی صدر فائیونا گریگ کہتی ہیں ’’میں یہ نہیں جانتی کہ ہمیں واقعی زیادہ آمدنی والے گروپ میں یا ان خاندانوں میں جو مالی طور پر بڑی مشکل میں گرفتار نہیں ہوئے‘ اس مطالبے کو تحریک دینے کی ضرورت ہے‘‘۔

صدر جو بائیڈن کا امدادی پلان خاص طور پر براہِ راست ادائیگیوں سے ان امریکی شہریوں کی مدد ہو گی جنہیں گزشتہ سال کے دوران ملازمت کرنے کے مواقع ہی نہیں مل سکے اور وائٹ ہائوس کے خیال میں یہ بات ناگزیر تھی۔ ریپبلکن پارٹی کے حامی، بزنس گروپس اور بہت سے ماہرین معاشیات نے اس بنا پر شہریوں کو رقوم کی براہ راست ادائیگیوںکو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ریپبلکن پارٹی والوں نے تو یہ وارننگ بھی جاری کی تھی کہ اس سے امریکی عوام میں کام کرنے کی حوصلہ شکنی ہو گی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس کریڈٹس کو روزگار کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا اور انہیں تین سو ڈالرز فی ہفتہ کے بیروزگاری الاوئنسز فراہم کیے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ستمبر کے شروع تک چلے گا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے تحت چونکہ لوگوں کو مالی امداد ملتی رہے گی اس لیے وہ ملازمتیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گھروں پر رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔ یونیورسٹی آف شکاگو اور جے پی مورگن انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ماہرین معاشیات کو اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس چھ سو ڈالر ماہانہ کے بیروزگاری الائونسز کے قانون پر دستخط کیے تھے اس سے بے روزگار افراد نے ملازمت تلاش کرنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دی تھی۔یونیورسٹی آف شکاگو کے اکانومسٹ پیٹر گینانگ‘ جو ان پیپرز کے مصنف بھی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ اگر اکانومی کا تیزی سے آغاز ہوا اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر ملازمتیں دستیاب ہوئیں تو اس سال ملازمتوں کے متلاشی افراد میں یہ حوصلہ شکنی پہلے سے بھی زیادہ ہو گی؛ تاہم ان کے خیال میں معیشت اتنی تیز ی سے رواں نہیں ہوگی جیسی توقع کی جا رہی ہے، خاص طور پر کووڈ کی نئی لہرکے خلاف اگر ویکسین زیادہ موثر ثابت نہ ہوئی تو لوگ یہ اضافی فوائد حاصل کرنے کے لیے گھر وں پر ہی رہیں گے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھایا کریں گے اور معیشت کے صارفین والے انجن کو رواں رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر