... loading ...
جم ٹینکر سلی
(گزشتہ سے پیوستہ)
سرمایہ کاری میں مسلسل اضافے سے متعلق جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ تو پوری نہ ہو سکیں مگر ماہرینِ معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ جس سال ٹیکسوں میں کٹوتی کا بل پاس ہوا تھا‘ اس میں معیشت اور معاوضوں میں ایک عارضی اضافہ ضرور دیکھنے میں آیا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ زیادہ آمدنی والے افراد اور بڑی بڑی کمپنیاں ایک مرتبہ پھر حکومتی امداد کی طلبگار ہیں۔ مجموعی طور پر کووڈ کے دوران ہونے والی کساد بازاری اور پھر معاشی بحالی کے عمل نے انہیں پہلے سے زیادہ امیر بنا دیا ہے۔ زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے ورکرز اور وہ لوگ جو دفاتر سے دور گھر بیٹھ کر کام کر سکتے ہیں‘ کو ایسے کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ معاشی ریکوری کے دوران انہوں نے بچتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ چونکہ صارفین کی عادات اور لائف ا سٹائل میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہو ئی ہے اس لیے ایمازون جیسی بڑی بڑی کمپنیوں نے مارکیٹ سے اپنے سائز سے زیادہ حصہ وصول کیا ہے۔ مگر اس شرح آمدن کے دوسرے کنارے پر موجود سیاہ فام اور لاطینی نسل کے افراد سمیت لاکھوں امریکی شہری اس کساد بازاری کی وجہ سے شدید اذیت اور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔کووڈ پھیلنے سے پہلے والے معاشی بوم کے مقابلے میں آج مارکیٹ میں ایک کروڑ ملازمتیں کم ہو گئی ہیں۔
تما م نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور رنگدار افراد روزگار کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس وقت سیاہ فام لوگوں میں بیروزگاری کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔سینسس ہائوس ہولڈ پلس کے سروے میں ایک سینئر ریسرچر لینا سمٹ کے ہیومین رائٹس واچ میں غربت اور عدم مساوات پر کیے گئے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران میں ساری توجہ کم آمدنی والے طبقے اور بے روزگار افراد پر ہے۔ رپورٹ کی مذکورہ نصف کے قریب گھریلو آمدنی جو سالانہ 35ہزار ڈالرز تھی‘ گھریلو اخراجات کے مقابلے میں کم رہی جبکہ ایک چوتھائی افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا رہا۔ صدر جو بائیڈن کے اس پلان سے ان تمام گھروں کو سرکاری امداد ملے گی۔
’’ایمپلائے امریکا‘‘ واشنگٹن میں قائم ایک گروپ‘ جو صدر بائیڈن کے اس پلان کی حمایت کرتا ہے‘ کی پالیسی ڈائریکٹر ایلزبتھ پانکوٹی نے کووڈ کے ان سب ممکنہ متاثرین کا تخمینہ لگایا ہے جو اس بل کے تحت سرکاری امداد کے مستحق ہیں۔ ایک تین سالہ بچے کی ملازمت پیشہ ماں جس کی سالانہ آمدنی سولہ ہزار ڈالرز سے کم ہے‘ اس پلان کے ذریعے کم از کم 4775 ڈالرز کا براہِ راست فائدہ اٹھائے گی۔ چار افراد پر مشتمل خاندان‘ جس میں ایک کمانے والا ہو اور وہ بھی چائلڈ کیئر کی وجہ سے بے روزگار ہو‘ اسے 12460 ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ٹیکس پالیسی سنٹر کے اندازے کے مطابق براہِ راست ادائیگی اور ٹیکس کریڈٹ دینے کے بعد امریکا کے ایک کم آمدنی والے خاندان کی ٹیکس ادائیگی کے بعد والی اوسط آمدنی میں اس سال بیس فیصد سے زائد اضافہ ہو گا۔ اس نے پہلے یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کی طرف سے ٹیکس کٹوتیوں کی بدولت پہلے سال میں اسی گروپ کی آمدنی میں ایک فیصد سے کم اضافے کی امید ہے۔ ڈیمو کریٹ سینیٹر مائیکل بینیٹ‘ جو چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کی مدد سے غربت کے خلاف جنگ لڑنے کے پْرجوش حامی ہیں‘ کا کہنا ہے ’’یہ بات رجعت پسندانہ سوچ سے اتنی ہی بعید ہے جتنی یہ سپلائی سائڈ اکنامکس سے دور ہو سکتی ہے۔ یہ ترقی پسندانہ اکنامکس ہے جو دولت کو ورکنگ کلاس کے ہاتھوں میں دیتی ہے جو اس رقم کو خرچ کرتی ہے‘‘۔ سابق معاشی امدادی پیکیج جن میں وہ پیکیج بھی شامل ہے‘ جس پر گزشتہ سال مارچ میں صدر ٹرمپ نے دستخط کیے تھے‘ بے روزگار اور کم آمدنی والے کارکنوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا تھا۔ بحران خواہ کتنا ہی سنگین تھا‘ کئی لوگوں نے اس میں سے بھی بچت کی راہ نکال لی تھی۔جے پی مورگن چیز انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ کم آمدنی والے افراد نے اسی موسم گرما میں زیادہ آمدنی والے لوگوں کے مقابلے میں وہ رقم کہیں تیز ی سے خرچ کر لی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی معاشی بحالی کے عمل میں مزید امدادی رقم خرچ کر سکتے تھے اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ اس رقم کو ملکی معیشت میں بروئے کار لائیں گے۔ اس انسٹیٹیوٹ کی صدر فائیونا گریگ کہتی ہیں ’’میں یہ نہیں جانتی کہ ہمیں واقعی زیادہ آمدنی والے گروپ میں یا ان خاندانوں میں جو مالی طور پر بڑی مشکل میں گرفتار نہیں ہوئے‘ اس مطالبے کو تحریک دینے کی ضرورت ہے‘‘۔
صدر جو بائیڈن کا امدادی پلان خاص طور پر براہِ راست ادائیگیوں سے ان امریکی شہریوں کی مدد ہو گی جنہیں گزشتہ سال کے دوران ملازمت کرنے کے مواقع ہی نہیں مل سکے اور وائٹ ہائوس کے خیال میں یہ بات ناگزیر تھی۔ ریپبلکن پارٹی کے حامی، بزنس گروپس اور بہت سے ماہرین معاشیات نے اس بنا پر شہریوں کو رقوم کی براہ راست ادائیگیوںکو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ریپبلکن پارٹی والوں نے تو یہ وارننگ بھی جاری کی تھی کہ اس سے امریکی عوام میں کام کرنے کی حوصلہ شکنی ہو گی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس کریڈٹس کو روزگار کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا اور انہیں تین سو ڈالرز فی ہفتہ کے بیروزگاری الاوئنسز فراہم کیے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ستمبر کے شروع تک چلے گا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے تحت چونکہ لوگوں کو مالی امداد ملتی رہے گی اس لیے وہ ملازمتیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گھروں پر رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔ یونیورسٹی آف شکاگو اور جے پی مورگن انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ماہرین معاشیات کو اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس چھ سو ڈالر ماہانہ کے بیروزگاری الائونسز کے قانون پر دستخط کیے تھے اس سے بے روزگار افراد نے ملازمت تلاش کرنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دی تھی۔یونیورسٹی آف شکاگو کے اکانومسٹ پیٹر گینانگ‘ جو ان پیپرز کے مصنف بھی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ اگر اکانومی کا تیزی سے آغاز ہوا اور لوگوں کو بڑے پیمانے پر ملازمتیں دستیاب ہوئیں تو اس سال ملازمتوں کے متلاشی افراد میں یہ حوصلہ شکنی پہلے سے بھی زیادہ ہو گی؛ تاہم ان کے خیال میں معیشت اتنی تیز ی سے رواں نہیں ہوگی جیسی توقع کی جا رہی ہے، خاص طور پر کووڈ کی نئی لہرکے خلاف اگر ویکسین زیادہ موثر ثابت نہ ہوئی تو لوگ یہ اضافی فوائد حاصل کرنے کے لیے گھر وں پر ہی رہیں گے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھایا کریں گے اور معیشت کے صارفین والے انجن کو رواں رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔