... loading ...
ہر پاکستانی اپنے وطن کو مضبوط ،خوشحال اور ترقیافتہ دیکھنا چاہتا ہے مگرمحض خواب دیکھنے سے منزلیں نہیں ملتیں بلکہ محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے لیکن ہمارے ماہرین اِس طرف دھیان نہیں دیتے انتخابی کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والے حضرات نے ہمیشہ یہی خوشخبری سنائی کہ ہم ملک کومعاشی لحاظ سے خوشحال اور مضبوط بنائیں گے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہورہا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالت مزید خراب ہورہی ہے اب تو حالات اِس نہج پر آچکے ہیں کہ قرض دینے والے ممالک یا اِدارے ہمیں رقوم دینے سے پس و پیش سے کام لینے لگے ہیں جس کا حل اثاثے گروی رکھ کر قرض لینے کی صورت میں تلاش کر لیا ہے لیکن ادائیگی کی سکت بھی ہے یا نہیں شایداِس پہلو پرتوجہ نہیں دی جا رہی ابھی حال ہی میں ا سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا مجموعی قرضہ 365 کھرب 37ارب روپے ہوگیا ہے اگر ملکی معیشت کی طرف نگاہ دوڑائیں تو اِتنے بڑے قرض کے پہاڑ کی ادائیگی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن محسوس ہونے لگی ہے حالات یہاں تک دگرگوں ہو چکے ہیں کہ تجارت میں برآمدات کا حصہ کم جبکہ درآمدات کا بڑھ رہا ہے یہ تفاوت مستقبل قریب میں کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا سے محبت ہے ۔
زرِ مبادلہ کے حصول کے ذرائع برآمدات،ترسیلاتِ زر،سرمایہ کاری اور قرض ہیں اگر ملکی برآمدات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو صورتحال اچھی نظر نہیںآتی گزشتہ کئی برس سے جمود طاری ہے پاکستان بیوروآف شماریات کے مطابق رواں برس جنوری میں دوارب چارکروڑ نوے لاکھ سے کم ہوکر فروری میں دوارب چودہ کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں مطلب برآمدات میں کمی 4.52 ہے اوردرآمدات میں کمی کے باوجود تجارتی خسارہ 10.64فیصدہوگیاہے بہتری کے امکانات بھی کم ہیں پاکستان کی کم ہوتی برآمدات میں بہتری کے لیے زرعی وصنعتی پیدوار بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن دعوئوں کے باوجود ابھی تک اِس حوالے سے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے صرف کپاس کی پیداوار دیکھ لیںماہرین کی عدم توجہی سے تیس برسوں میں ملکی کاٹن کی پیدوار سب سے کم ہوئی ہے لیے حالانکہ کپڑے ودھاگے کا روئی پر انحصار ہے پھربھی قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کپاس کی پیدوار میں مسلسل کمی خطرے کا الارام ہے باجود اِس کے ہنوز کسی نے توجہ مرکوز نہیں کی جبکہ بھارت دنیا کی پچیس فیصد کاٹن پیداکرنے والا دنیاکا سب سے بڑاملک بن گیا ہے چین 23 فیصد کے ساتھ دوسرے،امریکاپندرہ فیصد کے ساتھ تیسرے جبکہ برازیل دس فیصد پیدا وار کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر ہے اگر چاروں ممالک کی کاٹن پیدوار یکجا کریں تو یہ دنیا کی کل کاٹن کا تہتر فیصد بنتا ہے چاروں ممالک نے یہ منزل معیاری بیج اور سہولیات دے کر حاصل کی ہے اگر وطنِ عزیز کی طرف دیکھیں تو صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے یہ زوال 1982سے جاری ہے اگر کسانوں کودرپیش غیر معیاری بیج اور مہنگی ادویات جیسے مسائل حل کردیے جائیں تو پیدوارمیں بہتری ممکن ہے ویسے بھی پانی کی کمی کے شکار ملک کے کسانوں کا گنے و دیگر فصلوں کی طرف مائل ہونا پانی کے کم ہوتے زخائر کے لیے بہتر نہیں۔
ترسیلاتِ زر ماہانہ دوارب ڈالر سے ضرور بڑھ گئی ہیں اور پاکستان کا شمار ترسیلاتِ زروصول کرنے والے دنیا کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں ہونے لگا ہے جس سے زرِ مبادلہ کے زخائر مستحکم رکھنے میں مدد مل رہی ہے یہ بہتری عارضی سہارہ ہے اور اِسے کسی تبدیلی سے نتھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بھارت ،چین اور فلپائن جہاں حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں بلکہ پُرانا سیٹ اَپ ہی ہے پھر بھی مزکورہ تینوں ممالک پاکستان سے ذیادہ ترسیلاتِ زروصول کر رہے ہیں ہمارے تارکینِ وطن سالانہ اکیس ارب ڈالرپاکستان بھیجتے ہیںجس کی وجہ سے پاکستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے لیکن بھارت78.6 کے ساتھ اول نمبر پر ہے جبکہ چین 67.4کے ساتھ دوسرے اور فلپائن 33.8ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے بھارت اور چین کی تو آبادی پاکستان سے ذیادہ ہے لیکن فلپائن کی آبادی توہم سے بھی نصف یعنی محض گیارہ کروڑ ہے پھربھی اُس کا ترسیلاتِ زر میں ہم سے ذیادہ حصہ ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ کسی ماہر کی مہارت کامرہونِ منت نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی محنت اور اپنے خاندانوں سے محبت ہے وہ دن رات کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی وطن ارسال کر تے ہیںذراسی توجہ دیکر ہُنر مند افرادی قوت تیار کی جائے اورجو جس ملک جانا چاہتا ہے اُسے اُسی ملک کی زبان سکھانے پر کام کیا جائے تو بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم میں مزید اضافہ ہو سکتاہے مگر ہمارے ماہرین خراب معاشی حالت کے باوجود عملی طور پر کچھ کرنے کو آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان جیساکمزور معیشت کا حامل زرعی ملک چینی ،گندم ،چائے سمیت دیگر اجناس درآمد کرکے زرِ مبادلہ کے مستحکم نہیں رکھ سکتا اِس لیے معاشی ماہرین کو منصوبہ بندی سے کام لینا ہوگا ملکی ضروریات کے لحاظ سے اجناس کی پیدوار پر توجہ دینا ہوگی تبھی مضبوط ،خوشحال اور ترقیافتہ پاکستان کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔
سرمایہ کاری کی طرف نگاہ دوڑائیں تو بھی صورتحال اچھی نظر نہیں آتی کیونکہ گزشتہ برس جولائی سے رواں برس جنوری تک سرمایہ کاری 755 ملین ڈالر تک سمٹ آئی ہے حالانکہ گزشتہ بر س کے اِسی دورانیے کا جائزہ لیں تو سرمایہ کاری کا حجم تین ارب چوالیس کروڑ ڈالر نظر آتا ہے بیرونی سرمایہ کاری میں اٹھہتر فیصد کمی کا زمہ دار کِسے ٹھہرائیں کیونکہ جواب میں ترسیلاتِ زر میں اضافے کو کارکردگی بتانا شروع کر دی جاتی ہے البتہ عالمی اِداروں سے قرض کے حصول کے لیے نارواشرائط تسلیم کرنے اور ملک میں بجلی ،تیل ،گیس مہنگی کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے حالانکہ منصوبہ بندی سے معاشی بہتری لانے کی بجائے قرض جیسے سہل طریقے پر انحصار ناکامی کا اعتراف ہے حالانکہ روزگار کے مواقع بڑھانے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر آپریشنل نہیں کیا اور زرعی پیدوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی جاتی تو بے روزگاری ،مہنگائی اور بھوک افلاس میں اضافہ ہوگا جس کے سیاسی مضمرات ناخوشگوار ہوسکتے ہیں۔
ملک میں وسائل کی کمی نہیں نہ ہی ہُہنر مندوں کا فقدان ہے عسکری قیادت نے ملک کی حساسیت کا ادراک کیا اسی بنا پر قلیل وسائل کے باجود پاکستان دنیا کی دسویں بڑی عسکری قوت بن چکا ہے وائے افسوس کہ معاشی طاقت نہیں بن سکا اگر عسکری قیادت شب وروز کی محنت سے ملک کو نا قابلِ تسخیر بنا سکتی ہے تو سیاسی قیادت ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ اُسے کیا مجبوریاں درپیش ہیں بدعنوانی اور سہل کوشی ترک نہیں کی جاتی تو ملک واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی سکت کھودے گا ابھی قرض تین سو پینسٹھ کھرب سینتیس ارب ہے جس کی اقساط کی ادائیگی اور سودکے لیے مزید قرض لیا جارہا ہے جس سے قرض میں سالانہ گیارہ فیصدسے ذیادہ اضافہ ہوتاجارہا ہے اب اگر ادائیگی دشوار ہے تو کل کیسے سہل ہو سکتی ہے اغیار سے مستعار لیے معاشی ماہرین توحالات کی خرابی پر اپنے پسندید ہ ملک چلے جائیں گے اصل مسئلہ تو ملک کے باسیوں کو درپیش ہو گا جنھیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا پڑے گی اگر معاشی ماہرین محنت و لگن سے نتیجہ خیز پالیسیاں بنا کر عملدرآمد کرنے سے نہ صرف نیک نامی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ مضبوط،خوشحال اور ترقیافتہ پاکستان کے خواب کو بھی تعبیر مل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔