... loading ...
(مہمان کالم)
جینیفر فینی بوائلن
میں نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں تاکہ مجھے کچھ نظر نہ آئے۔ نرس نے بڑی شائستگی سے پوچھا ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ میں نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا کہ تھوڑی الجھن محسوس ہو رہی ہے۔ اس پر نرس بولی کہ بعض اوقات اچھا کام کرتے ہوئے بھی خوف سا محسوس ہوتا ہے۔ میں سٹریچر پر لیٹی تھی اور میرا خون ایک بیگ میں جمع ہو رہا تھا۔ ہم ایک کمیونٹی سنٹر پر موجود تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم نومبر میں ایک چھوٹے سے قصبے میں ووٹ ڈالنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ مجھے یہاں کی دو رسمیں یاد ہیں؛ ووٹ ڈالنا اور خون کا عطیہ دینا۔ یہ دونوں باتیں یہاں کس قدر عام ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت آپ جانتے ہیں کہ آپ کس کو ووٹ دے رہے ہیں؟ مگر خون کا عطیہ دیتے وقت میں یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ میں یہ کسی اجنبی کے لیے کر رہی ہوں۔ ایک ایسے انسان کے لیے جس کا انجام میرے لیے ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا۔ سوائے ایک دفعہ کے! میں شاید اسے سکول میں ملی تھی‘ جب ہم گریڈ گیارہ میں تھے۔ ایک پارٹی میں کسی نے مجھے بہت سخت بات کہہ دی تھی اور میں افسردہ دل سے باہر نکل گئی اور ایک جگہ تاریکی میں بیٹھ گئی جہاں مجھے گھر کے اندر گونجنے والے قہقہے صاف سنائی دے رہے تھے۔ اندھیرا اتنا تھاکہ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ لان میں کوئی اور بھی بیٹھا تھا۔ ہم نے باتیں شروع کر دیں۔ اس نے بتایا کہ میرا نک نیم سیسی ہے۔ میں اس لیے باہر نہیں آئی تھی کہ میں ایک ٹرانس جینڈر تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس سے کہا تھا کہ ’’کاش میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہوتی‘‘۔ سیسی بولی کہ میں بھی ٹرانس جینڈر ہوں! اس نے بتایا کہ وہ ہر وقت تھکی تھکی محسوس کرتی تھی‘ ڈاکٹروں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ کیا خرابی ہے۔ یہ خزاںکا موسم تھا۔ موسم بہار آیا تو میں ایک ہسپتال میں بیڈ پر لیٹی تھی‘ وہاں کچھ ایسے لوگ بھی جمع تھے جنہوں نے مجھے اس پارٹی میں تنگ کیا تھا۔ پھر ہمیں اس ترتیب سے بٹھا دیا گیا کہ ہمارے پائوں ایک دوسرے کو چھو رہے تھے۔ ہم سب سیسی کے لیے خون کا عطیہ دے رہے تھے جسے اپلاسٹک انیمیا ہو گیا تھا۔ اس بیماری میں انسانی خون نئے خلیے بنانا چھوڑ دیتا ہے۔ اسے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی مگر جب تک کسی کا خون مریض کے خون سے اچھی طرح میچ نہ کر جائے اس وقت تک ڈاکٹر مریض کا علاج اس طرح کرتے ہیں کہ ڈونر کے خون سے مطلوبہ خلیے لینے کے لیے اسے ایک سنٹری فیوج مشین میں گھمایا جاتا ہے۔ پھر باقی خون بازو میں لگی ٹیوب کے ذریعے آپ کے جسم میں واپس چلا جاتا ہے۔ جب ڈاکٹر آپ کے جسم سے خون کے وہ خلیے لے رہے ہوتے ہیں تو وہ ایک نالی کے ذریعے ا؎ٓپ کے جسم میں مخصوص سلوشن بھی ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہ سلوشن جب آپ کے جسم میں داخل ہونے کے بعد دل کے قریب پہنچتا ہے تو بڑی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ جب میں بیڈ پر لیٹی اسی ٹھنڈک کو اپنے جسم میں محسوس کر رہی تھی تومیرے ساتھ والے بیڈ پر لیٹے ایک اور ڈونر نے میرے کریکٹر کے حوالے سے کچھ طنزیہ باتیں کہہ دیں جس پر سب قہقہے لگانے لگے۔ وہاں لیٹے ایک طرف میراخ ون بیگ میں جا رہا تھا تو دوسری طرف میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مجھے پریشان دیکھ کر نرس بولی: کیا آپ کودرد ہو رہا ہے؟ اس نے پھر پوچھا تو میں نے بتایا کہ نہیں! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ دو مہینے بعد ایک اخبار کے ذریعے مجھے سیسی کی موت کا علم ہوا۔ میری طرح وہ بھی ٹین ایجر تھی، محض ایک بچی! میری والدہ نے پوچھا: کیا وہ تمہاری دوست تھی تو میں نے بتایا کہ نہیں! میں بس اسے جانتی تھی۔
گزشتہ ہفتے ریاست مین کے ایک قصبے میں خون عطیہ کرنے کی ایک مہم چلی تو یہیں میری سیسی کے چھوٹے بھائی جم سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آج سے پینتالیس سال پہلے جب اس کی بہن سیسی کی جان بچانے کی مہم چلائی گئی تھی تو اس کے جذبات کیا تھے؟ وہ اسے آج بھی بہت یاد کرتا ہے مگر جس طرح لوگ اس کی بہن کی جان بچانے کے لیے جوق در جوق آئے تھے‘ اس سے اس نے یہ ضرور سیکھا کہ کمیونٹی اور سوسائٹی کیا ہوتی ہے اور کسی کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ا س نے مجھے ای میل میں لکھا کہ ’’یاد کرو کہ ڈرامہ ’’It’s a Wonderful Life‘‘ کے آخر میں کیا ہوا تھا جب جارج بیلے ایک روحانی تجربے سے گزر کر اپنے محافظ فرشتے کے ہمراہ گھر واپس آیا تو وہ کس قدر بدل چکا تھا کیونکہ لوگوں نے اس کا جس طرح خیال رکھا تھا‘ وہ ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ میرا احساس بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا تھا۔ جم نے بتایا کہ اگرچہ میری بہن کی زندگی نہ بچ سکی مگر جس طرح کمیونٹی نے آگے بڑھ کر اس کی جان بچانے کی کوشش کی‘ وہ آج بھی میری یادوںکا قیمتی اثاثہ ہے۔ جس لڑکی کو میں بمشکل جانتی تھی اس کی جان بچانے کے لیے میں نے جتنی بھی کوشش کی تھی‘ میں اس پر اپنے خدا کی شکر گزار ہوں۔ میں نے اس مشکل تجربے سے ایک اچھا سبق سیکھا تھا۔
جب میں سوچتی ہوں کہ میں اپنے خون سے ان لوگوںکی زندگی بھی بچا سکتی ہوں جو مجھے سخت ناپسند کرتے ہیں تو مجھے عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے ان لوگوں کا خیال آتا ہے جنہوں نے میر ی زندگی کو مشکل تر بنا نے کی ہر ممکن کوشش کی مگر میرے اندر بھی جینی بوائلن کا خون ہے۔ میر ی ماں مجھے کہا کرتی تھی کہ ’’عقل مند انسا ن ہمیشہ محبت سے اپنا انتقام لیتا ہے‘‘۔ نسل پرستی، ہوموفوبیا اور ٹرانس جینڈر فوبیا کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے جو امریکا میں خون کا عطیہ دینے کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ریڈ کراس نے 1950ء کے بعد نسلی بنیاد پر بلڈ ڈونیشن کو الگ الگ کرنے کا سلسلہ ترک کر دیا تھا۔ ایچ آئی وی، ہیپا ٹائٹس اور خون سے متعلق دیگر بیماریوں کی وجہ سے کچھ خصوصی افراد کے عطیہ کردہ خون کا خصوصی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس پالیسی پر عمل جاری تھا کہ کووڈ کی وجہ سے خون کی قلت پیدا ہو گئی۔کووڈ نے لوگوں کو مزید محتاط کر دیا کہ وہ خون دینے کے لیے نہ صرف باہر نکلنے سے گریز کرنے لگے بلکہ بلڈ ڈونیشن کی کئی تحریکیں منسوخ کرنا پڑیں کیونکہ تمام ا سکول اور کمیونٹی سنٹرز بند تھے۔ دسمبر میں نیویارک بلڈ سنٹر نے ڈونرز کی حوصلہ افزائی کے لیے جیٹس کے ٹکٹ یا سال بھر کے لیے کرسپی کریم کی سپلائی کی آفرز بھی دیں مگر ڈونٹس کے مقابلے میں دوسروں کو خون کا عطیہ دینے کے زیادہ فائدے ہیں۔
نرس ٹھیک کہتی ہے کہ کئی دفعہ ایک اچھا کام کرتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔کیا کوئی اور طریقہ ہے کہ آپ ایک گھنٹے میں کسی دوسرے انسان کی جان بچا سکتے ہوں؟ یقینا میرا کچھ خون تو کم ہو گیا ہے مگر اس کے بدلے میں مجھے خون سے بھی نایاب چیز ملی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔