وجود

... loading ...

وجود

مارچ میں مارچ

اتوار 07 مارچ 2021 مارچ میں مارچ

دوستو،مارچ کے مہینے میں بچپن سے ہی ’’مارچ‘‘ کا بڑا تذکرہ رہتا تھا۔۔بچپن میں تئیس مارچ کو پریڈ مارچ کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور ٹی وی کے سامنے مورچہ لگالیتے تھے۔۔ ہمارے بچپن میں ضیا ء دور چل رہا تھا، اور ضیاء صاحب چونکہ صدر ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کے سربراہ بھی تھے اس لیے پریڈ کا اچھا خاصا انتظام کیاجاتا تھا۔۔ پھر ضیاکے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو حکومتوں کو ہٹانے کے لئے مارچ میں مارچ کی اصطلاح سامنے آئی، اور یہ سلسلہ آج تک بفضل تعالیٰ جاری و ساری ہے۔۔ مگر گزشتہ چند برسوں سے مارچ میں ایک اور مارچ ہوتا ہے، جسے خواتین مارچ کہاجاتا ہے۔۔ یہ مارچ آٹھ مارچ کوکیاجاتا ہے جس میں چند روشن خیال ، آزاد خیال اور مردم بیزار خواتین اپنے ’’حقوق‘‘ کے لئے میدان میں نکلتی ہیں اور ہر سال ایک نیا شوشا سامنے آتا ہے جس سے یہ مارچ موضوع بحث بن جاتا ہے۔۔کل پھر آٹھ مارچ ہے ، پیر کو ہمارے کالم کا ناغہ ہوتا ہے ، اس لئے کل کے حالات پر آج ہی کچھ اوٹ پٹانگ باتیں پیش خدمت ہیں۔۔

ورلڈ اکنا مک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 کے مطابق خواتین کو Empower کرنے میں149 ملکوں میں پاکستان 148 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان صنفی لحاظ سے معاشی ناہمواری میں 146 ویں نمبر، تعلیمی حصول میں 139 ویں نمبر اور صحت کے حقوق کے حوالے سے 145 ویں نمبر پر ہے۔عورتوں کے مسائل تھے، ہیں اور رہیں گے۔ یہ مسائل ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کے مسائل ہوتے ہیں لیکن عورتوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ مرد بھی ہیں۔عورت مارچ کی شرکاء کے چہروں کی طرف دیکھیں تو بے فکری ہی بے فکری نظر آتی ہے۔ ان لوگوں کی طرح جن سے گرمی میں کام نہیں ہوتا۔ سردی میں بستر سے باہر نکلنے کو جی نہیں کرتا اور موسم خوش گوار ہو تو کس کافر کا کام میں دل لگتا ہے۔۔شہر کی مڈل کلاس خواتین، دیہات کی غریب محنت کش خاتون کبھی عورت مارچ کا حصہ نہیں رہیں۔۔ کیوں کہ انہیں فرصت ہی نہیں ملتی اپنی روزمرہ ’’روٹین‘‘ سے۔۔ جن کے پاس راوی چین ہی چین، عیش و آرام لکھتا ہے انہی کو دیگر خواتین کی فکر لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ملک بھر کی خواتین کی آواز بننے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔۔عورتوں کے حقوق کی دعویدار ان خواتین کے گھروں کی صفائی کے لئے ماسیاں ہوتی ہیں۔۔آپ صرف ان ’’ماسیوں‘‘ کا انٹرویو کرلیں تو آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ عورت مارچ میں عورتوں کے حقوق کے لیے گلے پھاڑ کر نعرے لگانے والی خواتین کا اصل چہرہ کیا ہے؟۔۔

گنتی کی ان مردم بیزار خواتین کو علم ہونا چاہیئے کہ مرد صرف ایک مرد نہیں بلکہ باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے اور بیٹا بھی ہے تو دوسری طرف عورت صرف ایک عورت نہیں ہے بلکہ ایک ماں ہے، بہن ہے، بیوی ہے اور بیٹی بھی ہے۔جب ہم ان خوبصورت رشتوں کو پامال کرکے صرف مرد اور عورت بن جاتے ہیں تو ہم دیگر جانوروں کی طرح محض نر و مادہ جانور بن جاتے ہیں۔جس دن مرد زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے دونوں پیروں پر کسی کا سہارا لئے بغیر پہلا قدم بھرتا ہے اسی روز اسے بتایا جاتا ہے کہ عورت بیچاری بڑی مظلوم ہے۔ بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں تو انہیں پریوں اور شہزادیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں چندا راجہ کی لوریاں سنائی جاتی ہیں۔ بیٹوں کو روزِ اوّل سے بس ایک ہی بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ ان کے ابّا نے کیسے ان کی ماں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ ایسی داستانوں میں پھوپھیوں اور دادیوں کا کردار بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن محض اس صورت میں کہ تمہارے ابّا کانوں کے کچیّ ہیں صرف اپنی بہنوں اور ماں کی ہی سنتے ہیں۔۔مانا اس معاشرے میں خواتین پر ظلم بھی ہوتا ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سارے مرد ہی ظالم ہیں؟ ہمارے معاشرے میں آج بھی کوئی عورت بس میں سوار ہو تو اُس کی تکریم میں سیٹ چھوڑ دی جاتی ہے۔ بینک، ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں خواتین کے لیے نہ صرف مردوں کے برابر الگ قطار بنائی جاتی ہے بلکہ اُنہوں مردوں پر ترجیح دیتے ہوئے اُن کا کام پہلے کیا جاتا ہے۔ اسی معاشرے میں اگر کسی عوامی مقام پر یا کسی دفتر میں جب عورت سے کوئی ایک مرد بدتمیزی کی کوشش کرتا ہے تو اُس کے مقابلے میں دس مرد اُس عورت کی عزت بچانے کیلئے مرد کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔
نفسیاتی مریض نے جب یہ کہاکہ ۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی، مجھے سب عورتیں بری لگتی ہیں۔۔تو ڈاکٹر نے اسے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔ شادی کرلو پھر تمہیں صرف ایک ہی عورت بری لگے گی اور باقی سب اچھی لگنے لگیں گی!۔۔روسی کہاوت ہے کہ بیوی خاوند کی دریافت ہوتی ہے اور خاوند بیوی کی ایجاد۔پرتگالی کہتے ہیں کہ کوئی بندہ اپنی بیوی کا ہیرو نہیں ہوتا اور کوئی عورت اپنے ہیرو کی بیوی نہیں ہوتی۔امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرناایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خرید نا شروع کردے۔اٹلی والوں کی رائے ہے کہ جس مرد کی جرابیں پھٹی یا بٹن ٹوٹے ہوئے ہوں تو اسے دو میں سے ایک کام فوراً کر لینا چاہیے شادی کر لے یا طلاق دیدے۔مصری دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی چھوٹے قد کی عورت سے کرنی چاہیے کیونکہ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے۔سندھی کہاوت ہے کہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوتے ہی آدھی شادی شدہ ہوتی ہے۔۔ورنہ باباجی کا تو یہ کہنا ہے کہ ۔۔صرف پانچ فیصد خواتین خوب صورت ہوتی ہیں باقی اپنی محنت سے بنتی ہیں۔۔میک اپ اور خواتین کا ساتھ چولی دامن کا ہوکررہ گیا ہے۔۔اور آسان اس طرح سمجھا دیتے ہیں کہ میک اپ کی مثال گاڑی میں پٹرول کی سی ہے، پٹرول ہوگا تو گاڑی چلے گی، نہیں ہوگا تو نہیں چلے گی۔۔ویسے ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر۔۔ میک اپ ختم ہوگیا تو لڑکیوں کا پتہ کیسے چلے گا کہ کون ہے۔ پہچان کیسے ہوگی؟؟ ویسے دیکھا جائے تو یہی وہ اوزار ہیں جن سے زمینی حقیقت چھپائی جاتی ہے۔۔

آپ کبھی نوٹ کیجئے گا۔۔ کسی دعوت میں ایک حسین عورت کے گرد چند مرد جمع ہو جائیں تو وہ’’پارٹی کی جان‘‘کہلاتی ہے، اور اسی دعوت میں ایک خوبرو مرد کے گرد چند خواتین موجود ہوں تو اسے’’خبیث بڈھا فلرٹ ’‘‘کہا جاتا ہے۔۔یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ اپنے پیچھے آنے والی خاتون کے لیے مرد دروازہ کھول کر نہ رکھے توبدتہذیب ہے اور تھام کر رکھے تو‘‘ٹھرکی’’۔۔کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد وہ ہے جو اپنی بیوی کے خرچ سے زیادہ کماتا ہو اور ایک کامیاب عورت وہ ہے جو ایسا خاوند تلاش کر لے۔۔باباجی کاکہنا ہے کہ ۔۔عورت کو خوش کرنا ہے تو اسے پیار دیا جائے،جینے مرنے کی قسمیں کھائی جائیں،شاپنگ کروائی جائے،باہر کھانا کھلایا جائے اور۔۔مرد کو خوش ہونے کے لیے پاکستان کا کرکٹ میچ جیتنا بہت ضروری ہے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مرد حضرات گھر پردو ہی وجہ سے خوش ہوسکتے ہیں، بیوی نئی ہو یا بیوی نہیں ہو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر