وجود

... loading ...

وجود

کووڈ کے بعد ایک نیا بحران؟

پیر 01 مارچ 2021 کووڈ کے بعد ایک نیا بحران؟

(مہمان کالم)

وین فریڈرک

کورونا وائرس کی عالمی وبا کاخاتمہ ہونا تو ابھی باقی ہے مگر ہم نے ابھی سے اس کے آفٹر شاکس محسوس کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس وقت‘ جب ہزاروں امریکی کووڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں‘ عوام کی بڑی تعداد ان بیماریوں کا سامنا کر رہی ہے جن کا اس وائرس سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ہیلتھ کیئر کا سسٹم شدید بدنظمی کا شکار ہو چکا ہے‘ امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد علاج کے لیے ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کے کلینکس پر جانے سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے ایک نئی وبا سر پر منڈلا رہی ہے کیونکہ مارچ 2020ء کے بعد سے بہت سی بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج نہیں ہو سکا۔

جرنل آف دی نیشنل میڈیکل ایسوسی ایشن کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک ا سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ کے بعد 43 فیصد امریکی شہریوں کی اپنے ڈاکٹرز سے اپائنٹمنٹس منسوخ ہو چکی ہیں۔ لاک ڈائون لگنے کے تین مہینے بعد ایپک ہیلتھ ریسرچ سنٹر نے انکشاف کیا ہے کہ بریسٹ، کولون اور سروائیکل کینسر کے دو تہائی مریضوں کو علاج سے انکار کر دیا گیا ہے۔ جب کووڈ کا آغاز ہوا تو ہیلتھ کیئر کے پرائمری اور پریونٹیو آپریشنز کے لیے مختص تمام وسائل کا رخ اس وائرس کے علاج کی طرف موڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم ان منسوخ شدہ اپائنٹمنٹس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اسی ہفتے سنٹر فار ڈیزیزز کنٹرول نے بتایا ہے کہ 2020ء کے پہلے چھ مہینوں میں امریکی عوام کی اوسط عمریں ایک سال کم ہو گئی ہیں۔ سی ڈی سی کا اندازہ ہے کہ امریکا کے شرح اموات کے اعداد وشمار سے اب تک پانچ لاکھ بارہ ہزار زیادہ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان اضافی اموات کی تعداد شامل کر کے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا میں زیادہ لوگ دوسری بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں اور اس میں رنگدار لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سی ڈی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سفید فام لوگوں میں 14.7 فیصد لاطینی نسل کے امریکیوں میں 44.9 فیصد اور سیاہ فام لوگوں میں 28.1 فیصد زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں۔

کووڈ نے رنگدار لوگوں کو زیادہ متاثر کیا ہے اور نیا خفیہ بحران بھی انہی اقلیتی کمیونٹیز کو اپنا نشانہ بنائے گا جن میں بلند فشار خون اورذیابیطس جیسی بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی ہیلتھ کیئر سسٹم تک رسائی بھی کم ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی ہسپتال ایک ایسا ادارہ ہے جو زیادہ تر رنگدار لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ میں پہلے ہی یہاں لوگوں کی تکلیف دیکھ چکا ہوں۔ جنوری میں مَیں نے ایک مریض کا آپریشن کیا تھا جسے لبلبے کا کینسر تھا اور اسے شدید درجے کا یرقان بھی تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں پہلے اپنا علاج اس لیے نہیں کروا سکا کیونکہ مجھے کووڈ کے دوران ہسپتال آنے سے خوف محسوس ہوتا تھا؛ چنانچہ اس کی حالت بگڑتی گئی اور اسے مزید کئی دن ہسپتال میں گزارنا پڑے۔ اگر ہم نے اِس و قت کوئی اقدام نہ کیا تو ہمیں کووڈ کے خاتمے کے بعد ایسی بیماریوں کی وجہ سے بھی بہت زیادہ اموات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا علاج ممکن ہے۔ صحت کے حوالے سے احتیاطی اقدامات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی مدد سے بیماریوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اور ہیلتھ کیئر لاگت میں کمی لا سکتے ہیں مگر کووڈ سے پہلے ان تمام بیماریوں کو مناسب ترجیحات میں رکھنے کی ذمہ داری ہیلتھ کیئر انڈسٹری کی تھی۔

پرائمری اور پریونٹیو کیئر کے حوالے سے اقداما ت کو فوری طور پر توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مزید ایسے ہیلتھ پروفیشنلز کو تربیت دینے کی ضرورت ہے جو مریضوں کے ساتھ ہیلتھ کیئر کے سلسلے میں باقاعدہ براہِ راست رابطے میں ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ ہمیں کسی ڈینٹسٹ کے پاس یا کسی فارمیسی پر جانا ہو اور وہاں سے اپنے دانتو ں کو صاف کرنے یا کسی دوائی کا نسخہ لینے کے علاوہ میموگرام یا ذیابیطس کی اسکریننگ کرانی ہو‘ اگر وہاں زیادہ تربیت یافتہ پروفیشنلز اپنے مریضوں کے منتظر ہوں تو ہم ان کے لیے کوئی ہنگامی مسئلہ بننے کے بجائے ان مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ ہیلتھ کیئر انڈسٹری کو خود آگے بڑھ کر مریضوں پر، کمیونیکیشن اور تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ مریضوں سے یہ تقاضا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنے ہیلتھ کیئر رسکس کو سمجھیں اور ہیلتھ کیئر سسٹم کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہ خود مارے مارے پھرتے رہیں اور نہ ہی انہیں اس کے لیے کوئی دور دراز کے سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی سہولتوں کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کہ وہ اپنی ہیلتھ کیئر تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی ملازمت چھوڑ کر یا ٹرانسپورٹیشن نہ لے سکنے کی وجہ سے ہیلتھ کیئر سہولت تک نہ جا سکیں۔ ہمیں ٹیلی میڈیسن کی سہولت میں توسیع کرنی چاہئے‘ جس تک آج بھی انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی گروپوں کی رسائی نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ کم آمدنی والے گروپس کے لیے موبائل ہیلتھ کیئر سروس کا بندوبست کیا جائے جس طرح ہم نے کووڈ کی ٹیسٹنگ اور کورونا ویکسین کے لیے پورے ملک میں سائٹس قائم کی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک مکمل اور جامع تبدیلی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم جب بھی ان اقدامات میں بہتری لانے کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد انڈسٹری لیول کے مسائل اور ان کا حل ہوتا ہے۔ ہمیں مزید ڈاکٹروں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے‘ ہمیں ہیلتھ انشورنس میں بھی ریفارمز لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کووڈ سے ہونے والی اموات میں بھی کمی لانا ہے۔

بلاشبہ یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے مگر ہم انفرادی مریضوں کی ضروریات کی بات بالکل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کووڈ‘ جس نے ہماری ساری توجہ ہیلتھ کیئر پر مبذول کرا رکھی ہے‘ کے باوجود جن لوگوں کو اجتماعی ہیلتھ کیئر کی ضرورت ہے وہ اس سہولت سے محروم ہو رہے ہیں اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اکثر سیاہ فام اور رنگدار مریض ان سہولتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کووڈ کے ابتدائی دنوں میں جب ہم کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنے ہیلتھ کیئر سسٹم کی استعداد کا جائزہ لے رہے تھے ہم ان بہت سے لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے جو ان ہیلتھ کیئر اداروں، گروسری سٹورز، پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم اور گوشت کے پلانٹس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ہم نے اس نگران سٹاف کو بھی نظر انداز کر دیا جو ہمارے بزنس، میڈیکل آفسز کو چلا رہے تھے اور ان کی صفائی ستھرائی کا بندو بست کر رہے تھے۔جب ہم نے یہ اپائنٹمنٹس اور سکریننگ کی تاریخیں منسوخ کیں تو ہم ان تمام افراد کو فراموش کر گئے جو زندگی کو خطرات لاحق ہونے کے باوجود اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب ایک بار پھر اپنی توجہ مریضوں پر مرکوز کرنے کے بعد ہم مزید اموات کو روک سکتے ہیں اور ان رنگدار کمیونٹیز کو تحفظ دے سکتے ہیں جنہوں نے اس قومی تباہی میں اپنے حصے سے زیادہ قربانی دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر