... loading ...
(مہمان کالم)
وین فریڈرک
کورونا وائرس کی عالمی وبا کاخاتمہ ہونا تو ابھی باقی ہے مگر ہم نے ابھی سے اس کے آفٹر شاکس محسوس کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس وقت‘ جب ہزاروں امریکی کووڈ کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں‘ عوام کی بڑی تعداد ان بیماریوں کا سامنا کر رہی ہے جن کا اس وائرس سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ہیلتھ کیئر کا سسٹم شدید بدنظمی کا شکار ہو چکا ہے‘ امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد علاج کے لیے ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کے کلینکس پر جانے سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے ایک نئی وبا سر پر منڈلا رہی ہے کیونکہ مارچ 2020ء کے بعد سے بہت سی بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج نہیں ہو سکا۔
جرنل آف دی نیشنل میڈیکل ایسوسی ایشن کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک ا سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ کے بعد 43 فیصد امریکی شہریوں کی اپنے ڈاکٹرز سے اپائنٹمنٹس منسوخ ہو چکی ہیں۔ لاک ڈائون لگنے کے تین مہینے بعد ایپک ہیلتھ ریسرچ سنٹر نے انکشاف کیا ہے کہ بریسٹ، کولون اور سروائیکل کینسر کے دو تہائی مریضوں کو علاج سے انکار کر دیا گیا ہے۔ جب کووڈ کا آغاز ہوا تو ہیلتھ کیئر کے پرائمری اور پریونٹیو آپریشنز کے لیے مختص تمام وسائل کا رخ اس وائرس کے علاج کی طرف موڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم ان منسوخ شدہ اپائنٹمنٹس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اسی ہفتے سنٹر فار ڈیزیزز کنٹرول نے بتایا ہے کہ 2020ء کے پہلے چھ مہینوں میں امریکی عوام کی اوسط عمریں ایک سال کم ہو گئی ہیں۔ سی ڈی سی کا اندازہ ہے کہ امریکا کے شرح اموات کے اعداد وشمار سے اب تک پانچ لاکھ بارہ ہزار زیادہ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان اضافی اموات کی تعداد شامل کر کے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا میں زیادہ لوگ دوسری بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں اور اس میں رنگدار لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سی ڈی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سفید فام لوگوں میں 14.7 فیصد لاطینی نسل کے امریکیوں میں 44.9 فیصد اور سیاہ فام لوگوں میں 28.1 فیصد زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں۔
کووڈ نے رنگدار لوگوں کو زیادہ متاثر کیا ہے اور نیا خفیہ بحران بھی انہی اقلیتی کمیونٹیز کو اپنا نشانہ بنائے گا جن میں بلند فشار خون اورذیابیطس جیسی بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی ہیلتھ کیئر سسٹم تک رسائی بھی کم ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی ہسپتال ایک ایسا ادارہ ہے جو زیادہ تر رنگدار لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ میں پہلے ہی یہاں لوگوں کی تکلیف دیکھ چکا ہوں۔ جنوری میں مَیں نے ایک مریض کا آپریشن کیا تھا جسے لبلبے کا کینسر تھا اور اسے شدید درجے کا یرقان بھی تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں پہلے اپنا علاج اس لیے نہیں کروا سکا کیونکہ مجھے کووڈ کے دوران ہسپتال آنے سے خوف محسوس ہوتا تھا؛ چنانچہ اس کی حالت بگڑتی گئی اور اسے مزید کئی دن ہسپتال میں گزارنا پڑے۔ اگر ہم نے اِس و قت کوئی اقدام نہ کیا تو ہمیں کووڈ کے خاتمے کے بعد ایسی بیماریوں کی وجہ سے بھی بہت زیادہ اموات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا علاج ممکن ہے۔ صحت کے حوالے سے احتیاطی اقدامات سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی مدد سے بیماریوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اور ہیلتھ کیئر لاگت میں کمی لا سکتے ہیں مگر کووڈ سے پہلے ان تمام بیماریوں کو مناسب ترجیحات میں رکھنے کی ذمہ داری ہیلتھ کیئر انڈسٹری کی تھی۔
پرائمری اور پریونٹیو کیئر کے حوالے سے اقداما ت کو فوری طور پر توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مزید ایسے ہیلتھ پروفیشنلز کو تربیت دینے کی ضرورت ہے جو مریضوں کے ساتھ ہیلتھ کیئر کے سلسلے میں باقاعدہ براہِ راست رابطے میں ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ ہمیں کسی ڈینٹسٹ کے پاس یا کسی فارمیسی پر جانا ہو اور وہاں سے اپنے دانتو ں کو صاف کرنے یا کسی دوائی کا نسخہ لینے کے علاوہ میموگرام یا ذیابیطس کی اسکریننگ کرانی ہو‘ اگر وہاں زیادہ تربیت یافتہ پروفیشنلز اپنے مریضوں کے منتظر ہوں تو ہم ان کے لیے کوئی ہنگامی مسئلہ بننے کے بجائے ان مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ ہیلتھ کیئر انڈسٹری کو خود آگے بڑھ کر مریضوں پر، کمیونیکیشن اور تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ مریضوں سے یہ تقاضا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنے ہیلتھ کیئر رسکس کو سمجھیں اور ہیلتھ کیئر سسٹم کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہ خود مارے مارے پھرتے رہیں اور نہ ہی انہیں اس کے لیے کوئی دور دراز کے سفر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی سہولتوں کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کہ وہ اپنی ہیلتھ کیئر تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی ملازمت چھوڑ کر یا ٹرانسپورٹیشن نہ لے سکنے کی وجہ سے ہیلتھ کیئر سہولت تک نہ جا سکیں۔ ہمیں ٹیلی میڈیسن کی سہولت میں توسیع کرنی چاہئے‘ جس تک آج بھی انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی گروپوں کی رسائی نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ کم آمدنی والے گروپس کے لیے موبائل ہیلتھ کیئر سروس کا بندوبست کیا جائے جس طرح ہم نے کووڈ کی ٹیسٹنگ اور کورونا ویکسین کے لیے پورے ملک میں سائٹس قائم کی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک مکمل اور جامع تبدیلی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم جب بھی ان اقدامات میں بہتری لانے کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد انڈسٹری لیول کے مسائل اور ان کا حل ہوتا ہے۔ ہمیں مزید ڈاکٹروں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے‘ ہمیں ہیلتھ انشورنس میں بھی ریفارمز لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کووڈ سے ہونے والی اموات میں بھی کمی لانا ہے۔
بلاشبہ یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے مگر ہم انفرادی مریضوں کی ضروریات کی بات بالکل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کووڈ‘ جس نے ہماری ساری توجہ ہیلتھ کیئر پر مبذول کرا رکھی ہے‘ کے باوجود جن لوگوں کو اجتماعی ہیلتھ کیئر کی ضرورت ہے وہ اس سہولت سے محروم ہو رہے ہیں اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اکثر سیاہ فام اور رنگدار مریض ان سہولتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کووڈ کے ابتدائی دنوں میں جب ہم کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنے ہیلتھ کیئر سسٹم کی استعداد کا جائزہ لے رہے تھے ہم ان بہت سے لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے جو ان ہیلتھ کیئر اداروں، گروسری سٹورز، پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم اور گوشت کے پلانٹس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ہم نے اس نگران سٹاف کو بھی نظر انداز کر دیا جو ہمارے بزنس، میڈیکل آفسز کو چلا رہے تھے اور ان کی صفائی ستھرائی کا بندو بست کر رہے تھے۔جب ہم نے یہ اپائنٹمنٹس اور سکریننگ کی تاریخیں منسوخ کیں تو ہم ان تمام افراد کو فراموش کر گئے جو زندگی کو خطرات لاحق ہونے کے باوجود اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اب ایک بار پھر اپنی توجہ مریضوں پر مرکوز کرنے کے بعد ہم مزید اموات کو روک سکتے ہیں اور ان رنگدار کمیونٹیز کو تحفظ دے سکتے ہیں جنہوں نے اس قومی تباہی میں اپنے حصے سے زیادہ قربانی دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔