وجود

... loading ...

وجود

سینیٹ انتخابات اورباپ پارٹی کے کمالات

بدھ 24 فروری 2021 سینیٹ انتخابات اورباپ پارٹی کے کمالات

ایوان بالا کے قیام کا مقصد ملک کے تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے ۔لہذا جب کسی صوبے کے فرد کو دوسرے صوبے سے ہارس ٹریڈنگ یا کسی بھی طور طریقے سے سینیٹ کا رکن منتخب کروایا جاتا ہے، تو اس منتخب رکن سے صوبے کی نمائندگی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے ۔بالخصوص بلوچستان جیسا نظر انداز صوبہ دراصل ایوان بالا میں حق نمائندگی سے محروم ہوتا ہے ۔ ماضی میں ملک کی بڑی قومی سطح کی سیاسی جماعتیں بلوچستان میںباہر سے افراد بھیج کر منتخب کروا چکی ہیں ۔ ایسا مسلم لیگ قائداعظم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جیسی کنگ پار ٹیزسے توقع توکی جا سکتی ہے۔ مگر یہ عمل عوامی اور نظریاتی جماعتوں کو زیب نہیں دیتا ۔ یقینا اس قطار میں اب پاکستان تحریک انصاف بھی کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ جس نے پہلے پہل اسلام آباد سے عبدالقادر کو سینیٹ کا ٹکٹ تھما کر کوئٹہ بھیج دیا، فیصلہ کارکنوں کے واویلے پر واپس لینا پڑا ۔ دراصل یہ اقدام محض کارکنوں کے اعتراض اور دبائو کے پیش نظر محض دکھاوے کے طور کیا گیا۔ جبکہ حقیقت میں عبدالقادر اب بھی ان کا منظور نظر ہے۔ جس نے بعد میں کاغذات آ زاد حیثیت سے جمع کر لیے ۔ اوراگلے ہی لمحے بلوچستان عوامی پارٹی نے اسے اپنا امیدوار قبول کر لیا ۔ فوری طوراس ہانکی ہوئی جماعت کو معلوم ہی نہ ہو گاکہ ان کے دو ممبران اسمبلی سکندر عمرانی اور لیلہ ترین ان کی تجویز اور تائید کنندہ بنیں۔ کاغذات جمع کرتے وقت الیکشن کمیشن کے دفتر میں پارٹی کے ریٹائرڈ سینیٹر منظور کاکڑ جو پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی ہیں سے کسی صحافی نے دریافت کیا کہ آ پ کی جماعت کے اراکین نے عبدالقادر کی تائید اور تجویز کر رکھی ہے ۔ تو موصوف نے لاعلمی کا اظہار کر دیا ۔حالاں کہ منظورکاکڑ خود بھی جنرل نشست پر امید وار ہیں۔ان سمیت پارٹی کے دیگر امیدوروں کو عبدالقادر کی کو ئٹہ بر آمدگی پر تشویش بھی لاحق ہے ۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اصول وقانون اور شفافیت کی باتیں تو کرتے ہیں، مگر یہاں عملااس کی پامالی نظر آئی ہے ۔ جام کمال ہی نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ہمیشہ پیسوں کے عوض ٹکٹیں دینے کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ناہی اس بار سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کی بد نامی ہوئی ہے ۔مگر اس بیان کے اگلے لمحے پیرا شوٹرز کو خوش آمدید کہا گیا ۔جب ان پر واضح ہے کہ یہ سب ہانکے ہو ئے ہیں ، سر تسلیم خم کے علاوہ کسی فیصلے پر سرے سے قادر ہی نہیں، تو پھر بڑی بڑی باتوں کی کیا ضرورت ہے !۔ باتیں شفافیت کی کرتے ہیں ،اور ساتھ اپنی جماعت، عوامی نیشنل پارٹی کو دھوکہ دینے والی خیبر پشتونخوا کی ستارہ ایاز اور عبدلقادر کی سینیٹ نشست پر حمایت اور پارٹی میں شمولیت پر تو تو جہیہ و دلیل پیش کرتے ہیں ۔ جام کمال نے پیرا شوٹرز یا ارکان اسمبلی کے ضمیر کے خریدار عبدالقادر بارے دلیل پیش کی ہے کہ ’’ پاکستان کی سیاست میں ایک عجیب لفظ پیرا شوٹر آگیا ہے ‘‘ ۔ کہتے ہیں ’’ سینیٹ ایک مختلف پلیٹ فارم ہے ہر پارٹی اپنی اپنی نمائندگی ایوان میں لاتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ نمائندگی کسی ایک صوبے سے لائیں‘‘ ۔ مزید یہ وضاحت کی ہے کہ ’’ عبدالقادر دو ہزار چار سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ، اور تعلق کوئٹہ سے ہے ۔جسے تحریک انصاف اور باپ پارٹی نے مشترکہ طور امید وار نامزد کر دیا تھا ‘‘ گویا وزیر اعلیٰ جام کمال نے ا س نوع کے جواز پیش کرکے کمال کردیا ہے ۔بات صاف ہے کہ عبدالقادرسرمایہ کی بدولت منظور نظر ٹھہرے ہیں۔ ستارہ ایاز اور اسے اوپر کی رضا حاصل ہے ۔چناں چہ یہ احکامات وہدایات نظر انداز کرنا بلوچستان عوامی پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے باپ پارٹی نے سینیٹ انتخا ب کے لیے چار مختلف کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ کمیٹیوں نے درخواست دہندہ پارٹی وابستگان کے انٹرویو کیے ۔چند سینئر بھی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوئے ۔ان میں عاصم کرد گیلو بھی شامل تھا ۔جو متعدد بار بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ۔پانچ سال صوبے کے وزیر خزانہ رہے ہیں ۔پرعاصم کرد گیلو کو ٹکٹ نہ دیا گیا ۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف خاتون، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ٹیکنیکل ایڈوائزر جویریہ ترین نے بھی درخواست دے رکھی تھی۔ ان سے سینیٹرانوار الحق کاکڑ اور اور پارلیمانی سیکر ٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے انٹر ویو لیا ۔جویریہ ترین کی درخواست اس بنا مسترد کردی گئی کہ ان کا تعلق’’ باپ پارٹی ‘‘سے نہیں ہے۔نیز پتا یہ بھی چلا ہے کہ’’ باپ پارٹی‘‘ کے بعض رہنمائوں نے جویریہ ترین کو افغان باشندہ قرار دیا ۔ اگر واقعی کو ئٹہ و پشین کی ایک معروف خاندان و قبیلے کی فرد کو افغان باشندہ کہا گیا ہے، تو یہ ان افراد کی جانب سے نری نفرت ،جھوٹ اور تعصب کا اظہار ہے، بلکہ قابل گرفت ہے۔ اور اگر شرط پارٹی وابستگی ہی ہے تو عبدالقادر کو پہلے تحریک انصاف نے ٹکٹ دے رکھا تھا۔ پھر وہ باپ پارٹی کا امیدوار کیسے بنا ۔جسے جام کمال نے سینئر سیاستدان ثابت باور کرانے کی کوشش بھی کی ہے ۔

سچ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے بھی سینیٹ انتخابات کے تناظر میں صوبے کی تنظیم کے ساتھ فریب کا معاملہ کیا ہے۔ بلوچستان کی تنظیم کو درخور اعتنا سمجھا ہی نہیں ۔لگتا ایسا بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سات ارکان پارٹی فیصلوں پر کان دھریں گے نہیں، ۔ صوبائی صدرسردار یار محمد رند کے بیٹے سردار خان رند آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے والد بیٹے کی کامیابی کے لئے دو ڑ دھوپ کریں گے ۔سردار یار محمد رند پارٹی فیصلوں کے خلاف محتاط الفاظ میں گویا بھی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق آئین کی رو سے صوبے کی پارلیمانی جماعت سینیٹ ٹکٹیں دینے کا اختیار رکھتی ہے اورٹکٹوں کے حوالے سے سب سے مشورہ کیا جانا چاہیے تھا ۔ سردار رند یہ بھی قرار دے چکے ہیں کہ عبدالقادر کو خصوصی طور پر ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔ اور عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ آئین کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے سینیٹ ٹکٹس کے اجراء کا خیال رکھتے ۔ پی ٹی آئی بلوچستان کے لائق افراد کو سینیٹ ٹکٹوں کا اجراء کرتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر