... loading ...
(مہمان کالم)
مائیکل کرولے
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی ٹیم کا ایک سیشن منعقد کرایا تھا جس میں انہیں کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وزارتِ خارجہ اور دفاع کے محکموں کے سربراہوں اور انٹیلی جنس کی اہم پوسٹوں کو پْر کرنے کے لیے انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور نہ ہی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے کوئی خاص مخالفت دیکھنے میں آئی تھی مگر جیسے ہی جو بائیڈن حکومت نے گزشتہ ماہ ایران کے لیے رابرٹ میلے کو اپنا نمائندہ مقرر کرنے ا اعلان کیا تو اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ رابرٹ میلے جو تنازعات کے حل کے لیے بہترین سفارت کار کی شہرت رکھتے ہیں‘ کے انتخاب نے واشنگٹن میں ایران کے بارے میں 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے پر بھرپور بحث چھیڑ دی جسے ٹرمپ حکومت نے یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے اس معاہدے کو پھرسے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تقرری نے اسرائیل کی حساس سیاست کے حوالے سے بھی ایک ایسا ہنگامہ برپا کر دیا جس نے بائیڈن حکومت کی فارن پالیسی ٹیم میں ترقی پسندوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں اسے ایک ٹیسٹ کیس بنا دیا ہے۔ صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت میں قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر بینجمن روڈز نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’رابرٹ میلے تو ہر چیز کی پراکسی ہے‘‘۔
اگرچہ حالیہ دنوںمیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ستاون سالہ رابرٹ میلے پر مشرق وسطیٰ کے بارے میں انتہائی خطرناک خیالات رکھنے جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں مگر اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی کشیدگی یا تنازعے کا باعث بنیں۔ وہ ایک نرم خو روڈزا سکالر ہیں جن کے پاس ہارورڈ سے قانون کی ڈگری بھی ہے اور وہ سابق صدور بل کلنٹن اور بارک اوباما کے دورِ حکومت میں وائٹ ہائوس میں ایک محنتی مشیر کے طور پر کئی سال گزار چکے ہیں، جہاں انہیں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر کے طور پر خوب پذیرائی حاصل تھی۔ وہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ایک غیر معمولی انڈر اسٹینڈنگ رکھنے کے علاوہ اس تنازعے کے اہم ترین فریقوں کے ساتھ گہرے تعلقات بھی رکھتے تھے؛ تاہم رابرٹ میلے جو ایک عرب نڑاد یہودی کے بیٹے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ملوث تمام گروپوں اور حکومتوں کے معروف ایڈووکیٹ سمجھے جاتے ہیں‘ سال ہا سال سے حزب اللہ، حماس اور شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ایک تعلق رکھتے ہیں جنہیں عام طور پر امریکا اور اسرائیل کا حریف سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اخلاقی طور پر ان کے ان دوستانہ تعلقات کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔
ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ رابرٹ میلے امریکا کی طاقت اور ہیبت کے حوالے سے کسی شک و شبہ میں مبتلا ہیں جبکہ وہ ایران اور فلسطین سمیت ان غیر ملکی ایکٹرز کے ساتھ غیر ضروری ہمدردی رکھتے ہیں جن کے مغربی ممالک کے ساتھ گہرے تنازعات چل رہے ہیں۔ ایران کے لیے جوبائیڈن کے نمائندے کے طور پر رابرٹ میلے کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں توسیع دینے سے باز رکھیں مگر ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ وہ مصالحت کے نام پر ایران کو ایک ایسا نیا جوہری معاہدہ کرنے پر مجبور کریں گے جو وہاں کے مذہبی حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ قابل قبول ہو گا۔ جب ایران سے مذاکرات کے نمائندے کے طور پر ان کا نام پہلی مرتبہ سامنے آیا تو آرکنساس سے ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے اس تقرری پر ان الفاظ میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ’’رابرٹ میلے جیسے انقلابی‘ جو ایرانی حکومت کے ساتھ ہمدردی اور اسرائیل کے ساتھ دشمنی کا ایک طویل ریکارڈ رکھتے ہیں‘‘۔
ایران کے ساتھ مذاکرات کے دیگر مخالفین نے ان کے نام کے اعلان کے بعد قدرے نرم الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو جائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا۔ فائونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیمو کریسیز کے چیف ایگزیکٹو مارک ڈبووٹز‘ جو اس معاہدے کے بڑے مخالف سمجھے جاتے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’رابرٹ میلے کی تقرری شاید اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جوبائیڈن حکومت کی ترجیح ایران پر امریکی طاقت کا دبائو ڈال کر ایک جامع معاہدہ کرنے کے بجائے اسی سابقہ معاہدے کی بحالی کی کوشش کرنا ہے جسے جائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کہا جاتا ہے کیونکہ رابرٹ میلے امریکی طاقت پر زیادہ یقین نہیں رکھتے‘‘۔ رابرٹ میلے کے ان حامیوں جنہیں سینیٹ سے اپنی تقرری کی توثیق کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کا کہنا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے عناصر کے لیے تنقیدکا ایک آسان ہدف ہیں اور وہ بائیڈن حکومت کو یہ وارننگ دینا چاہتے ہیں کہ 2015ء کے معاہدے کی طرح ایران کے ساتھ ویسا ہی ایک اور جوہری معاہدہ کرنے کی زیادہ کوشش نہ کی جائے جو صدر بارک اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سنگین کشیدگی کا باعث بن گیا تھا۔
ایرون ڈیوڈ ملر‘ جو کئی امریکی صدور کے ادوار میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مذاکرات کار کے طور خدمات انجام دے چکے ہیں اور رابر ٹ میلے کے ساتھ بھی کئی سال تک کام کر چکے ہیں اور جن کا شمار ان کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ رابرٹ میلے کی تقرری پر اپنا ردعمل دینے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اس گروہ سے ہے جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے اور ان کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ انہیں امریکا کے قومی مفادات کا زیادہ ادراک نہیں ہے۔ دائیں بازو پر زیادہ تر گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ رابرٹ میلے جو بھی سیاسی سمجھ بوجھ اور فہم وفراست رکھتے ہیں وہ انہیں اپنے یہودی باپ سے ورثے میں ملی ہو جو مصر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ تھے اور عرب قوم پرست کے طور پر پکے سیکولر اور صہیونیت کے سخت مخالف تھے۔ رابرٹ میلے نے 2008ء میں خود ہی اپنے ایک لیکچر میں بتایا تھا ’’یہ میرے والد تھے جنہوں نے میرے اندر اس ریجن کے بارے میں دلچسپی اور آگہی پیدا کی جہاں سے ان کا اپنا تعلق تھا‘‘۔ رابرٹ میلے نے اپنے والد کے بارے میں مزید بتایا تھا کہ ’’ سینئر رابرٹ میلے نے نو ممالک کی شہریت حاصل کی تھی جن میں ایک فلسطین کی اعزازی شہریت بھی شامل تھی اور وہ چھ مختلف میگزین کے بانی بھی تھے۔ وہ راسخ عقائد اور یقین کامل رکھنے والے انسان تھے اور نازک معاملات کا سامنا کرتے وقت ہمیشہ ایک مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے‘‘۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔