... loading ...
اگرکوئی بیمار شخص یہ کہے کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے لیکن وہ اپنی بیماری کا علاج نہ کروائے یا اسے بھوک لگے تو وہ یہ کہتاپھرے اللہ خود مجھے کھلائے پلائے ورنہ میں کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا یا وہ کپڑے کا تھان ہاتھ میں لیے پھرے کہ میرا لباس خود بخود سل جائے اور میں پھر زیب تن کروں گا ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتاہے ،درویش نے خلائوںمیں کہیں گھورتے ہوئے کہا یقینا اللہ پربھروسہ کرنا ہی دانائی ہے لیکن اللہ تبارک تعالیٰ کے سسٹم کو فالوکیے بغیر کوئی فلاح نہیں پا سکتا یہ بنیادی شرط ہے جس طرح ایک صحابی ٔ رسول کو سرکار دوعالم ﷺنے ہدایت فرمائی کہ پہلے اپنے جانورکو رسی سے باندھو پھر اللہ پر تکیہ کرو کہ میں نے اس جانورکو اللہ تعالیٰ کے سپردکیا کہ وہ اس کی حفاظت فرمائے اب نکتے کی بات یہ ہے حفاظت کے لیے جانور کو رسی سے باندھنا شرط ہے، اسی طرح تندرستی وصحت کے لیے بیمار کامعالج سے علاج کروانا شرط ہے یا کوئی چیز خریدنے کے لیے کسی متعلقہ دکان پر جانا ضروری ہے اس شرط کو ہم وسیلہ کہتے ہیں اور جو وسیلے کے قائل نہیں وہ اپنی اس اداپر غورکریں تو معاملہ ان کی سمجھ میں آسکتاہے ۔
درویش نے کہا اللہ بھی وسیلے کے ذریعے عطا کرتا ہے دنیا میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے جو انسانیت کی رشد و ہدایت کا وسیلہ ہیں اللہ تو قادر ِ مطلق ہے ہر چیز پر نگہبان ہرکام پرقادر۔ فعال المایرید وہ چاہے تو کن کہہ کر یہ پوری کائنات بناڈالے ہمارے لیے سوچنے ،سمجھنے اور غورکرنے کے لیے یہ کافی نہیں کہ اتنی قدرت رکھنے کے باوجود اس نے اپنے خدا ہونے کااعلان خودکیوں نہیں کیا؟ نبی، پیغمبراور رسول کیوں بھیجے ؟ اس نے ایک سسٹم بنایا ایک نظام دیا یہ پوری کائنات چاند،سورج ستارے الغرض ہر ہر چیزکو باقاعدہ خودکار نظام بنا کراس کے تابع کردیا ،ماہرین ِ فلکیات کا یہ کہناہے کہ ہمارا نظام ِ شمسی اتنا پرفکیٹ ہے کہ ہمیں حیرانی ہوتی ہے دور نہ جائیں اپنے جسم اس کے اجزائے ترکیبی ، جسم کے ہرہر عضو کے فنگشنز کیس جوں جوں ریسرچ کی جارہی ہے اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے معترف ہوئے بغیرکوئی چارہ نہیں ،سورج توانائی کا سب سے بڑا مرکزو محور ہے اگر سورج نہ ہوتا تو اس کائنات کا نظام چل ہی نہیں سکتا تھا، مطلب یہ ہے کہ سورج اس دنیا میں توانائی کا ایک وسیلہ ہے اور جو وسیلے کے قائل نہیں وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ڈائریکٹ روشنی سورج کے بغیر ہم تک کیوں نہیں پہنچتی ،ڈائریکٹ تو اللہ نماز بھی نہیں فرض کرتا۔اس کے لیے بھی رسول اللہ ﷺ کو وسیلہ بنادیاگیا۔ ڈائریکٹ تو اللہ وحی بھی نہیں اتار تا اس کے لیے بھی جبرائیل کی ڈیوٹی لگائی ،ڈایریکٹ تو اللہ بارش بھی نہیںبرساتا اس کے لیے بھی میکائل کو مامورکیا گیا، ڈائریکٹ تو اللہ ایمان لانا بھی قبول نہیں کرتا اس کے لیے بھی اس کے رسول پر ایمان لانا ضروری قراردیا ۔ ڈائریکٹ تو اللہ تعالیٰ نے معراج شریف پر حضور پرنور ﷺ کو بھی نہیں بلایا سواری کے لیے براق کاانتخاب کیا۔
جوں جوں غورکرتے جائیں آپ وسیلے کے قائل ہوتے چلے جائیں گے ڈائریکٹ تو اللہ نے زمین اور آسمان بھی نہیں بنایا قرآن میں واضح ہے اس کی تخلیق کے لیے 6 دن اور راتیں لگیں جبکہ وہ تو کن فا یاکون کا مظہر ہے۔ درویش نے مسکراتے ہوئے کہا ڈائریکٹ تو اللہ نے قرآن کا نزول بھی نہیں کیا اس کو بھی 23 سال میں آسان طریقے سے انسانوں تک پہچایا۔ ڈائریکٹ تو اللہ نے انسان کوبھی نہیں بنایا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لیے فرشتوں نے معاونت کی ڈائریکٹ تو دن بھی نہیں بنایا اس کو بھی رات سے کھینچا۔اور ڈائریکٹ اللہ نے موسی علیہ السلام سے بھی کبھی کلام نہیں کیا۔ کبھی کوہ ِ طورپر بلایا کبھی درخت سے آواز آئی موسٰی من ربکَ کبھی آگ سے آواز آئی موسٰی من ربکَ۔۔ ڈائریکٹ تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی توبہ بھی قبول نہیں کی آدم کو بھی لفظ سکھایا توبہ قبول کرونے کے۔۔اسی لیے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے وہ دعاء کی جو دو درودوں کے درمیان ہوگی وہی قبول ہوگی۔ جو لوگ قران مجید کو سمجھ کر اور تدبر سے پڑھتے ہیں وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن پاک میں ایک پوری سورت صرف اور صرف ابو لہب اور اس کی بیوی کو جواب دینے کے لیے نازل کی لوگوں کی حیرت اس بات پر اور بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ سورت میں باقاعدہ ابو لہب کا نام لیکر اسے وعید سنائی گئی ہے۔ جبکہ ایسے کفار جنہوں نے سرکار ِ دوعالم ﷺ کوتنگ کیا، ان کا جینا دوبھرکرنے کی جسارت کی حتیٓ کہ دندان مبارک شہید کرنے والے بھی درجنوں تھے لیکن قرآن پاک نے ان لوگوں کو اشارتاً تو کچھ کہا ہے مگر کسی کو باقاعدہ اس کا نام لیکر کچھ نہیں کہا گیا کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ آخری الہامی کتاب میں اللہ تبارک تعالیٰ نے ابو لہب اور اس کی بیوی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سورت کی کل پانچ آیتوں میں دو آیات (40 فیصد سورت) اسی کے بارے میں ہیں۔ سورت کا نام المسد “مونج کی رسی” رکھا گیا ہے جو ابو لہب کی بیوی سے متعلق ہے۔ ابو لہب اور اس کی بیوی کی تاریخ اسلام میں جو ذکر ملتاہے اس کی مسلمانوں اور خود آقا کریم ﷺکے ساتھ کوئی لڑائی یا تشدد ہرگز نہیں تھا نہ انہوں نے کسی پر تلوار سونتی، نہ کسی کو بھالا،پرچھی نیزا دے مارا نہ کسی کو قتل کیا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو اغواء کیا یا زخمی کیا۔ تو پھر ایسا کیا ہے کہ اس شخص پر اور اس کی بیوی پر لعن طعن اور عذاب اور بربادی کی وعیدیں؟ سنائی گئی ہیں کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ در اصل یہ شخص اور اس کی بیوی بھی: اپنے زمانے کے ذرائع ابلاغ کے مصادر (Media Giants) نبی پاک ﷺ کے بارے میں، زہریلے تبصرے کرتے تھے اور بھڑکانے والی خبریں پھیلانے والے تھے نبی ٔ مکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے ان کا یہ طرزِ عمل اللہ کو پسند نہ آیا تو قرآن نے خود ان کی وعیدکا اعلان کردیا ۔
درویش نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا لوگو سنو، غور کرو اور خوب جان لو کہ یہ کائنات کی تخلیق بھی نبی پاک ﷺ کے وسیلہ جلیلہ کی مرہون منت ہے ہم تو ہر نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یا رب العالمین ہمیں ان لوگوںکے راستہ پر چلا جن پر تونے اپنا فضل و کرم کیا اب یہ راستہ جسے صراط ِ مستقیم کہا گیاہے یہ بھی ایک وسیلہ ہے اللہ یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ لوگومیرے راستے پر چلو لیکن ہمیں یہ دعا مانگنے کا حکم ہے کہ یا رب العالمین ہمیں ان لوگوںکے راستہ پر چلا جن پر تونے اپنا فضل و کرم کیایعنی اللہ کے پسندیدہ لوگوںکا راستہ اللہ کا راستہ قرارپایا وسیلے کے منکر اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے اولیاء کرام کے بارے میں جو کچھ کہتے اور کرتے پھرتے ہیں ان کا یہ طرز ِ عمل بھی گراں گذرتاہے اس تناظرمیں جو لوگ وسیلے کو شرک اور بدعت قراردیتے ہیں وہ کہاں کھڑے ہیں یہ انہیں ضرور سوچنا ہوگا کیونکہ وسیلہ نہ ہوتو دنیا کا نظام تلپٹ ہوکررہ جائے وسیلہ تووسائل کادفترہے کوئی سبزی والے سے سبزی،فارمیسی سے ادویات، سٹوروںسے اشیائے خورونوش الغرض کہ کسی کو کسی سے سروکارنہ رہے اب یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ڈائریکٹ کھیتوں سے سبزی،فارماسوٹیکل کمپنیوں سے ادویات یا اشیائے خوردونوش خریدکرلے آئے ہرکوئی اپنے اپنے دائرہ میں ایک دوسرے کا وسیلہ بناہواہے یہی قدرت کا نظام اور فطرت کا قانون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔