... loading ...
(مہمان کالم)
اینڈریوکوریبکو
گزشتہ چند سال سے پاکستان اور روس تیزی سے قریب آ رہے ہیں یہاں تک کہ کثیر جہتی پارٹنرشپ ا سٹریٹجک ا سٹیٹس کو چھوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس پیش رفت کا اہم محرک افغانستان کی امریکی جنگ اور غیر ریاستی عناصر سے جڑے خطرات ہیں۔ دوطرفہ تعلقات میں تیزی کی وجہ 2015ء کی رپورٹ بھی ہے جس کے مطابق داعش افغانستان میں سر اٹھا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام واقعات اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک روس پارٹنرشپ سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
افغانستان جو کہ پاک روس تعاون کا اہم محرک ہے، وہاں دونوں بڑی نیوکلیئر طاقتیں سرد جنگ کے دور کی مخاصمت فراموش کر کے افغان امن عمل کی کوششوں میں ہیں۔روس اور پاکستان کی طرف سے بھرپور کوششوں اور لاجسٹک سپورٹ کے باعث طالبان امریکا دوحہ معاہدہ ہوا، جس کے تحت امریکا نے اپنی افواج کی ایک بڑی تعداد افغانستان سے نکال لی ہے۔ اب جوبائیڈن انتظامیہ نے اگرچہ اس معاہدے کی کچھ شقوں پر اعتراض کیا اور ان کا ازسر نو جائزہ لینے کا کہا ہے اس کے باوجود اب تک کی پراگریس کو بڑی حد تک مثبت اور حوصلہ افزا قرار دیا جا سکتا ہے۔ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے جڑے خطرات چونکہ دونوں کے لیے تشویشناک ہیں، اسی وجہ سے 2016ء میں دونوں ملکوں کی فوج نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی مشقیں کیں۔ پھر اگلے سال یہ مشقیں روس میں شمالی کوہ قاف کے علاقے میں ہوئیں؛ اس کے بعد یہ فیصلہ ہو ا کہ یہ مشقیں ہر سال کی جائینگی۔ یہ پیش رفت پاک روس تعلقات میں ایک سنگ میل اور گزشتہ کچھ سال کے دوران دونوں ملکوں کی بڑھتی قربت کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور روسی افواج نومبر 2020 میں جنگی مشقیں کر کے آپسی تعلقات مستحکم کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ اگرچہ 2016سے اب تک متعدد مرتبہ نئی دہلی نے اس سلسلہ میں سخت تحفظات کا اظہار کر چکا ہے بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا کہ بھارت نے اپنے قومی میڈیا پر یہ جھوٹی مہم چلائی کہ روس نے فوجی مشقوں کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے۔ روس کا بھارتی دباؤ نظر انداز کر کے انسداد دہشت گردی کی مشقیں کرنا ایک غیر معمولی اقدام ہے، اس سے 21ویں صدی میں یورو ایشیائی خطے میں توازن پیدا کرنے والی ایک بڑی قوت بننے کی ماسکو کی خواہش کی عکاسی ہوتی ہے۔
پاک روس روایتی فوجی روابط کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے؛ تاہم اس کا جائزہ مفاہمت کے مثبت پہلوووں اور بھارت کے اچانک امریکا کی طرف جھکاؤ کو مدنظر رکھ کر لینے کی ضرورت ہے۔ روسی اور پاکستانی سفارت کاروں کی دوطرفہ پارٹنرشپ کے لیے کوششوں کے ثمرات سے جلد ہر کوئی مستفید ہو گا۔ پاکستان کو روسی ہتھیاروں کی فراہمی کا حجم ہمیشہ سے بہت کم رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑی دفاعی سپلائی چار ہیلی کاپٹر تھی جو کہ انسداد دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئے۔ یہ علامتی سودا دونوں کے درمیان بڑھتے اعتماد کی توثیق اور بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان خاموشی سے روس کے ساتھ روایتی ملٹری ڈائیلاگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ کی پاکستان کے لیے فوجی امداد کی معطلی غیر دانستہ طور پر پاک روس فوجی تعلقات میں اہم پیش رفت کا باعث بنی، اسلام آباد کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ماسکو ہتھیاروں کی سپلائی میں غیر معمولی اضافہ کر سکتا ہے۔ اس طرح روس وہ نقصان بھی پورا کر سکے گا جو کہ بھارت میں امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی وجہ سے پہنچنے کا امکان ہے۔
دوطرفہ تعلقات کا سب سے بڑا فائدہ جو کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو پہنچا سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دونوں اپنے تاریخی پارٹنر یعنی بھارت اور چین کے ساتھ روابط میں توازن لانے کے لیے ایک دوسرے کی معاونت کر سکتے ہیں۔ آج ہر ملک کے دوطرفہ تعلقات کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہے، جن کا اندازہ صفات کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔ پاک روس تعلقات کی قدر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اسلام آباد اور ماسکو بالترتیب نئی دہلی اور بیجنگ پر اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر سکتے ہیں؛ وجوہات بھلے مختلف کیوں نہ ہوں۔ ماسکو اپنے سٹریٹجک نقصانات کم کرنا چاہتا ہے جو کہ بھارت کے امریکی جانب سے جھکاؤ کی وجہ سے ہوئے، جبکہ پاکستان اپنے نئے تعلقات کو جنوبی ایشیا میں توازن کی بحالی کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس سے تعلقات کو پاکستان چین سے بہتر معاشی معاہدوں کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اگر سلک روڈ کے معاہدے پاکستانی خواہشات پر پورے نہیں اترتے تب وہ بیجنگ پر واضح کر سکتا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کے پاس ایک اور پارٹنر کی آپشن موجود ہے۔ روس اور چین دونوں پہلے سے ا سٹریٹجک پارٹنر ہیں، اس لیے پاکستان کے معاملے میں برابری کی بنیاد پر مسابقت سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ پاک امریکا فوجی تعلقات کی معطلی روس کے لیے ایس 400میزائل ڈیفنس سسٹم کی فروخت کا موقع بن سکتی ہے، جس سے اسلام آباد کے ساتھ روایتی فوجی تعلقات میں مزید پیش رفت ہو گی۔ نئی دہلی کیلئے یہ صورتحال قبول کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا۔
پاکستان اور روس کو سماجی، معاشی اور ثقافتی شعبوں پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دونوں ملکوں کے شہریوں کو قریب لایا جا سکے۔ ایک دوسرے کے ساتھ طویل نوعیت کے ان شخصی اور تجارتی روابط کی خامیاں ثقافتی و علمی وفود کے تبادلوں، ویزہ فری سفر کی سہولتوں اور تجارتی روابط کو فروغ دے کر دور کی جا سکتی ہیں۔ شمال مغربی گیس پائپ لائن اور مجوزہ ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن منصوبہ جو کہ روس کی مدد سے جنوبی ایشیا کے خطے میں پچھائی جانی ہیں، تجارتی روابط کا شاندار نقطہ آغاز بن سکتے ہیں۔ تاہم بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں کو اپنا نجی شعبہ بھی فعال کرنا ہو گا جو سی پیک کے روٹس کا فائدہ اٹھا کر وسطی ایشیا اور سائبیریا تک تجارتی رابطے بڑھا سکتا ہے۔
سماجی، معاشی اور ثقافتی کے شعبوں میں تعلقات کے فروغ کے لیے دونوں ملکوں کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ شعبے ہیں جن کے ذریعے پاکستانیوں اور روسیوں کے درمیان تعلقات مضبوط تر بنا کر یورو ایشین جیو پالیٹکس کو نئی شکل دیتے ہوئے حتمی ا سٹریٹجک نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔