وجود

... loading ...

وجود

لاس اینجلس میں کووڈ کی تباہ کاریاں

جمعه 19 فروری 2021 لاس اینجلس میں کووڈ کی تباہ کاریاں

ایرن آبری کیپلان

کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے بعد گزشتہ مارچ میں لگنے والے پہلے لاک ڈائون پر میں نے اپنے ہاتھ سے سے لان کے لیے ایک سائن بورڈ بنایا تھا جس پر لکھا تھا ’’ہم اسے شکست دے سکتے ہیں‘‘۔ نیلے بیک گرائونڈ میں سیاہ حروف سے لکھے ہوئے اس سائن بورڈ نے اس بحران پر جرات مندانہ رد عمل دکھایا جو متواتر بڑھتا جا رہا تھا مگر مجھے پور ی امید تھی کہ یہ سنگین شکل اختیار کرنے کے بعد بالآخر ایک شدید زلزلے کی طرح ختم ہو جائے گا۔ یہ سائن بورڈ اپنی جگہ قائم رہا اور میں کورونا وائرس میں اضافے کے باوجود اسے ایک نیک شگون سمجھتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہو چکی تھی کہ یہ بحران اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا۔ موسم خزاں آنے تک یہ سائن بورڈ اپنی جگہ برقرار رہا لیکن پھر یہ میری توجہ سے محروم ہو گیا؛ تاہم یہ میری ایک چھٹی کی یادگار ضرور محسوس ہوتا تھا۔ بالکل ایسے جس طرح 25 دسمبر گزرنے کے بعد بھی کرسمس لائٹس روشن رہتی ہیں مگر گزشتہ ہفتے یہ بورڈ پھٹ گیا۔ اس کا شوخ نیلا کارڈ بورڈ اکھڑ گیا اور اس پر لکھا ہوا میسج بھی دھندلا پڑ گیا۔

سچی بات یہ ہے کہ لاس اینجلس وہ شہر ہے جہاں کووڈ کی سب سے زیادہ تباہ کاریاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق لاس اینجلس کائونٹی میں گیارہ لاکھ سے زائد مصدقہ کووڈ کیسز دیکھنے کو ملے جن میں سے صرف لاس اینجلس شہر میں چا رلاکھ چونسٹھ ہزار کیسز منظر عام پر آئے۔ یہاںویکسین لگانے کی صورت حال بھی سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ ہم نے جلد یہاں ایک اچھی مثال قائم کر دی۔ کیلیفورنیا پہلی ریاست تھی جہاں شٹ ڈائون ہوا تھا۔ ہمارے ہیرو جیسے گورنر گیون نیوسم ہمیں کووڈ کے بارے میں روزانہ اپ ڈیٹس دیتے رہے مگر ہالی ووڈ مووی جیسا اختتام یہاں کبھی دیکھنے کو نہ مل سکا۔ کیلیفورنیا اور لاس اینجلس کائونٹی میں خاص طور پر شٹ ڈائون کا ایک سلسلہ چل پڑا جہاں پہلے تو کووڈ سے اموا ت کی شرح کم رہی مگر پھر اس میں اضافہ ہونے لگا۔ (ہم نے اب گھروں سے باہر کھانا کھانا شروع کیا ہے۔ صرف اکٹھے رہنے والے لو گ ہی مل کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ کسی بار میں ٹی وی رکھنے کی اجازت نہیں ہے)
میرے خیال میں لاس اینجلس کے شہری تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود مسلسل یہ استثنا رکھتے ہیں کہ ہم اس تباہی سے بچ نکلے ہیں۔ مگر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ لا س اینجلس کو ایسا کوئی استثنا حاصل نہیں ہے کیونکہ کووڈ کا انجام کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی پابندیاں‘ جنہوں نے شرح اموات کو کم رکھا تھا‘ جیسے ہی ان میں قدرے نرمی کی گئی تو انفیکشن کیسز اور شرح اموات میں اضافہ ہونے لگا۔ یہاں پائی جانے والی نسلی اور معاشی ناہمواری‘ جو باہر سے آنے والوں کو نظر نہیں آتی مگر پچھلے ایک سال میں اچانک بڑی نمایاں ہو کرسامنے آئی ہے۔ ہمارے مہنگے ترین گھر جو صرف دو یا تین افراد کے رہنے کے لیے ہوتے ہیں مگر سیاہ فام اور لاطینی نسل کے چھ سے زائد افراد کا اکٹھے مل کر رہنا عام سی بات ہے۔ اس طرح کی پْرہجوم رہائش اس بات کی بڑی وجہ ہے کہ کون وائرس سے متاثر ہوتا ہے اور کہاں سے ہوتا ہے۔

کووڈ نے صرف لاس اینجلس کی گپ شپ کی روایت کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ ہماری بے ساختگی بھی وہ نہیں رہی جو ہماری بڑی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ جب کووڈ شروع ہوا تو میں پہلے سے ہی گھر پر رہ کر کام کر رہی تھی۔ مگر ایک ایسا شہر جہاں ہر روز ایک نئی بات دیکھنے کو ملتی ہو‘ اب گھر ہی تمام باتوں کا مرکز بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے میں یہ فیصلہ کرتی تھی کہ میں نے آج شام میں کسی سے ملاقات کرنی ہے، کوریا ٹائون کے قریب اپنی بہن کے ساتھ ڈنر کرنا ہے یا اس ’’قریبی‘‘ ریستوران سے اپنا پسندیدہ پیزا آرڈر کرنا ہے جو حقیقت میں میرے قریب واقع نہیں ہوتا۔ ممکن ہے میری یہ تمام باتیں ایک گھٹیا سی شکوہ شکایت لگیں مگر اب یہ سب کچھ ہنسی مذاق باقی نہیں بچا۔ گزشتہ مارچ میں لگنے والا لاک ڈائون بہت تھرلنگ تھا۔ ہمارا شہر اچانک ہالی ووڈ فلموں جیسی تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ حکام بالا کی طرف سے جاری ہونے والے حکم نامے کے بعد فیس ماسک ہمارے کاسٹیوم کا حصہ بن گیا تھا۔ اس ہدایت نامے کے بعد ایک دوسرے سے اور پبلک مقامات سے دور رہنا اور لاس اینجلس کے شہری کے طور پر زندگی گزارنا اکثر ہمیں اداکاری کی طرح محسوس ہونے لگا۔

مگر اداکاری کا وہ سنسنی خیز دور اب گزر گیا ہے۔ اب ہم ایک ایسے وقفے سے گزر رہے ہیں جو کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ سے کئی باتوں کا سحر دم توڑ چکا ہے۔ میرا ایک قریبی دوست جو پیشے کے اعتبار سے ا سکرین رائٹر ہے‘ کہتا ہے کہ لاس اینجلس اپنے طور پر ایک ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ کورونا جیسا شدید بحران بھی لاس اینجلس کے شہریو ں کو ایک دوسرے کے قریب نہ لا سکا تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ’’ہم اسے شکست دے سکتے ہیں‘‘۔ اب کہانی مایوسی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میری ایک دوست تو اس قدر مایوس ہے کہ شہر چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ مگر میں ان چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتی۔ میرے خیال میں ہمارا دھیما پن ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ ہمیں شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ ہمارے پاس ہارنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ مگر میری دوست کی بات بھی ٹھیک ہے۔ ہمار ا تھوڑا بہت باہمی رابطہ جو ہمیں اب تک جوڑے ہوئے ہے کووڈ کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ جب ہم سب کو یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا کوئی شخص کووڈ انفیکشن کا شکار ہے تو یہ جاننے کی سب وجوہات دم توڑ دیتی ہیں۔ یہ بات اجنبیوں کے لیے زیادہ پْراسرار نہیں رہی کہ ہمارے درمیان پایا جانے والا مسلسل تجسس ہی باقی بچا ہے جو ہمیں اب تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔

میں اپنے اردگرد موجود رہنے والے کئی لوگوں کو غائب پاتی ہوں مثلاً میری ہمسائی کرسٹینا‘ جس کی عمر چالیس سال ہے‘ وہ بنیادی طور پر رہوڈز ا?ئی لینڈ کی رہنے والی ہے مگر اب پوری طرح لاس اینجلس کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ کسی ٹیک کمپنی میں کام کرتی ہے، فارغ وقت میں لکھتی ہے اور ایک امیدوں سے بھرپور خاتون ہے۔ اسے اکتوبر میں کورونا ہو گیا تھا۔ حال ہی میں ا س نے مجھے ڈرائیو وے میں بارہ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر بتایا کہ مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی اور اب تو میں اپنا سیل فون بھی اپنے ہاتھ میں نہیں تھام سکتی۔ اب اس کی صحت پہلے سے کافی بہتر ہو گئی ہے مگر ابھی سو فیصد درست نہیں ہوئی۔ اس نے بڑے سکون مگر قدرے مایوسی سے مجھے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ اب میں پہلے کی طرح صحت مند ہو سکوں گی۔ اس شہر کی طرح اس کا بھی ایک اپنا مزاج ہے مگر اب تو وہ محض ایک سایہ سا بن کر رہ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر