وجود

... loading ...

وجود

بکنے والے گھوڑے ۔۔۔ خریدنے والے گدھے

جمعرات 18 فروری 2021 بکنے والے گھوڑے ۔۔۔ خریدنے والے گدھے

مارچ کی 3 تاریخ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں عوام کی دلچسپی کے لیئے فقط تین ہی باتیں ہیں ۔اوّ ل یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کھلے عام ہوتے یا پھر نقد دام کے کاروباری اُصول کے تحت ؟۔ دوم ،سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد کسے پرائز ملتاہے اور کون ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سرپرائز ہوتاہے؟اور سوم یہ کہ ہارس ٹریڈنگ میں ٹاپ ٹرینڈ پر کون کون سے ’’سیاسی گھوڑے‘‘ رہتے ہیں ؟۔گویا سینیٹ انتخابات نہ ہوئے ایک’’سیاسی تماشا‘‘ ہوا ،اور تماشا بھی ایسا ،جسے سیاست کے رہنما قواعد و ضوابط کے بجائے کاروباری انداز میں کھیلنے کی کوشش کی جائے گی۔شاید اسی لیے ہمارے سینیٹ انتخابات کے دوران جس لفظ کا تذکرہ باربار سننے میں آتا ہے ،وہ لفظ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ ہے ۔ ویسے تو انگریزی زبان میںاس لفظ کے معنی ’’گھوڑوں کی خرید و فروخت ‘‘ کے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال ماضی میں واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہی ہوتا تھا۔تاریخی دستاویز کے مطابق 1820 کے آس پاس تاجر حضرات اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لیے’’کاروباری چالاکی‘‘ کا استعمال کرتے تھے۔ تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا جس میں چالاکی،سازش، پیسے اور آپسی تعلقات کے بل بوتے پر عمدہ اور اچھی نسل کے گھوڑوں کو سستے نرخوں پر خریدنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی تھی۔
مگر پھر رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ گھوڑوں کی افادیت ،اہمیت اور ضرورت ختم ہوئی تو اُن کی تجارت یعنی ہارس ٹریڈنگ بھی ختم ہوگئی ۔یعنی گھوڑے پس منظر میں چلے گئے اور اُن کی جگہ لینے کے لیے’’سیاسی گھوڑے‘‘ پیش منظر پر آگئے اور ماضی میں گھوڑوں کی تجارت کے لیے خاص سمجھی جانے والی معروف اصطلاح سیاست میں ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘ کے نام سے مقبول عام حاصل کرگئی۔سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا لفظ اُس وقت بولا جاتاہے ،جب کوئی سیاسی جماعت اپنی مخالف سیاسی جماعت کے ارکان کو لالچ، عہدے، پیسے، شہرت یا کسی دیگر قسم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے تو ارکان اسمبلی یا ارکان پارلیمنٹ کی اس قسم کی خرید و فروخت کو’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘قرار دے دیا جاتاہے۔ یاد رہے کہ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ اس خاص سیاسی صورت حال میں کی جاتی ہے جب کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لئے اکثریت ملنے کی اُمید بالکل بھی نہ ہو اور اسے اپنی اقلیت کو اکثریت بدلنے کے لیے باہر سے سیاسی حمایت کی ضرورت درپیش ہو ۔پھر وہ سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح سے مخالف، آزاد یا دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ارکان انہیں حمایت دے دیں اور ان کی حکومت بن جائے۔ اس کے لیے ہر طرح کے حربے کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کیا جاتا ہے اور سیاست میں چالاکی، پیسہ، عہدہ کا استعمال ہی’’ ہارس ٹریڈنگ‘‘ یعنی ’’سیاسی گھوڑوں ‘‘کی خریداری کہلاتی ہے۔

سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ’’سیاسی گھوڑوں ‘‘ کی منڈی سجتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے عید قرباں پر ملک بھر میں شہر شہر ،قریہ قریہ بکرا منڈیاں سجائی جاتی ہے۔بس اِ ن دونوں منڈیوں میں فرق اور تفاوت صرف اتنا سا ہے کہ بکرا منڈی میں جانور فروخت کے لیے دور دراز علاقوں سے ہانک کر لائے جاتے ہیں جبکہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر ہونے والی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے لیے ’’سیاسی گھوڑے ‘‘ اپنی مرضی سے بکنے کے لیے سیاسی منڈی میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں ۔پاکستان میں سینیٹ انتخابات کی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے یہ سیاسی گھوڑے انتہائی زیرک اور چالاک واقع ہوئے ہیں ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کس طرح اپنے دام بڑھانے ہیں؟اور کس طرح خریدار کو اس حد تک بلیک میل کرنا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ بولی لگانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اگر بکنے والے ’’سیاسی گھوڑے ‘‘ہیں تو پھر یقینا خریدنے والوں کو’’سیاسی گدھے ‘‘ہی کہا جاسکتاہے۔

اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈ نگ کے جو فائدے ’’سیاسی گھوڑوں ‘‘ کے حصے میں آتے ہیں ،اُس کے عشر عشیر فوائد بھی کبھی ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ’’سیاسی گدھے‘‘حاصل نہیں کرپائے ہیں ۔ مثال کے طور پر سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بھی ہارس ٹریڈنگ کے نام پر ’’سیاسی گھوڑوں‘‘ کی زبردست خرید و فروخت ہوئی تھی ۔ لیکن ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں نے سینیٹ کے اسپیکر جناب صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم پیش کی تو ’’سیاسی گھوڑوں ‘‘ نے اپنے مالکان کے ہی خلاف ووٹ دے کر ثابت کردیا تھا کہ وہ واقعی زیرک،چالاک اورموقع پرست ’’سیاسی گھوڑے ‘‘ ہیں جبکہ اُنہیں خریدنے والے ’’سیاسی گدھے‘‘۔مگر سب سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے دوران فروخت ہونے والے ’’سیاسی گھوڑے‘‘ اپنے دغا بازی اور بے اعتباری کے لیئے غیرمعمولی شہرت رکھتے ہیں لیکن اُس کے باوجود بھی ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘ سے باز نہیں آتیں۔

اس لیے ہمارا تو ماننا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان حالیہ سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ ڈالنے کے حق میں کوئی فیصلہ جاری کردیتی ہے تو اس عدالتی فیصلہ کا سب سے زیادہ نقصان ’’سیاسی گھوڑوں ‘‘ کو ہوگا اور پھر پاکستانی سیاست میں ان کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریک ہوجائے گا ۔نیز ایوان ِ بالا میں اُن کی سیاسی ناقدری بھی دیکھنے والی ہوگی ۔لیکن اگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے کا پرانا طریق کار برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ’’سیاسی گدھوں ‘‘ کو پہنچے گا۔مگر مصیبت تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ،ہارس ٹریڈنگ کے مضر اثرات کا نشانہ بننے والے اور ہارس ٹریڈنگ کو صبح و شام بُرا بھلاکہنے، اور صلواتیں سنانے والے بھی دل سے یہ ہی چاہتے ہیں کسی طرح ملکی سیاست سے ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ نہ ہو۔اس سیاسی رویے کی وجہ فقط ایک ہے کہ گھوڑے آخر گھوڑے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ ’’سیاسی گھوڑے ‘‘ ہی کیوں نہ ہوں۔بقول سہیل ثانی
صد ا کافی نہیں ہے کوچواں کی
یہ گھوڑے، تازیانہ چاہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر