... loading ...
سینیٹ ایوانِ بالا ہے کسی حوالے سے اِس کی اہمیت قومی اسمبلی سے کم نہیں اگر مالیاتی بل پیش کرنے کا مجازفورم قومی اسمبلی ہے توسینیٹ سے بالامالیاتی بلوں کی منظور ی ممکن نہیں قومی اسمبلی کی نشستیں آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہیں مگر سینٹ کی نشستوں کی تقسیم آبادی یا رقبے کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ تمام ملکی اکائیوں کی برابر نشستیں ہوتی ہیں جس کی بنا پر کسی ایک صوبے کو حاصل آبادی کی بنیادپر فوقیت سینیٹ میں غیر اہم ہوجاتی ہے یکساں نشستوں سے چھوٹے صوبوں کے لیے اپنے حقوق کا تحفظ آسان رہتا ہے اور کسی صوبے کو آبادی کی بنیاد پر من مانی کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتالیکن ہمارے یہاں تو سینیٹ جیسے آئینی اِدارے کے انتخاب کے نام پرکئی دہائیوں سے مزاق ہورہا ہے سینیٹ کے رائے دہندگان بھاری رقوم اور دیگر مفادات کے عوض بکتے ہیں اِ س خریدوفروخت کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے خرابیاں روکنے میں جماعتوں کے مفادات آڑے آجاتے ہیں جس سے انتخابی مزاق کی روایت مستحکم ہورہی ہے۔
حال ہی میں جاری ہونیوالی ایک ویڈیو سے2018کے سینیٹ الیکشن بارے ممبرانِ سمبلی کی خریدوفروخت صاف دیکھی جا سکتی ہے حکمران جماعت نے بیس کے لگ بھگ اراکین پر چمک کا الزام لگا کر پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا جن میں سے کچھ نکالے گئے ممبران اسمبلی نے پارٹی چیئرمین کے خلاف ہرجانے کے کیس بھی دائر کیے جن کا چاہے تاحال فیصلہ نہیں ہو سکالیکن خرابیوں کا اندیشہ بھی بددستورہے حکومتی جماعت کو ایسے ذیادہ خدشات ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی بجائے حکومتی جماعت کو اپنے ممبران اسمبلی بارے ذیادہ شبہات ہیں کہ پہلے کی طرح خیبر پختونخواہ وغیرہ سے مزید نقصان نہ پہنچادیں ویڈیو کے اجراکی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ پہلے ہی احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں خفیہ بیلٹ کی بجائے اوپن بیلٹ کا طریقہ اپنانے کی تجویز سوچ کی کڑی ہے پہلے بھی چمک کا شکارہونے والوں کی اکثریت بلوچستان اور کے پی کے سے رہی ہے اب تو قبائلی علاقہ فاٹا بھی کے پی کے میں ضم ہو چکا ہے اِس لیے چمک کاشکار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ٹکٹ جاری کرتے ہوئے سبھی جماعتوں نے کارکنوں کی کارکردگی کی بجائے صاحبِ ثروت کو ترجیح دی ہے اسی لیے ٹکٹ تبدیل ہونے کے امکانات ہیں۔
پی ٹی آئی کی پوری کوشش ہے کہ سینیٹ لیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں مگر کسی کی خواہش سے حالات تبدیل نہیں ہوتے یہاں تو الیکشن ایکٹ ہے جس میں تبدیلی کا باقاعدہ طریقہ کار ہے لیکن بات یہ ہے کہ افہام وتفہیم تو ایک طرف حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں میں سلسلہ جنبانی کی بھی توقع عبث ہے تبھی ترمیم کے لیے ایوانوں میں جانے سے پہلو تہی ہو رہی ہے پہلے حکومت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے ریفرنس دائر کیا جس کی سماعت جاری ہے مگر فیصلے کا انتظار نہ کیا جاسکا اور صدرِ مملکت سے اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کا آرڈیننس جاری کر ایاگیا آرڈیننس حکومت کا حق ہے لیکن حالیہ جلد بازی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کو سینیٹ کی ایک آدھ نشست چھن جانے کا یقین ہے علاوہ ازیں جمہوریت میں فیصلے قانون ساز اِداروں سے لیے جاتے ہیں آرڈیننس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کو سینیٹ یا قومی اسمبلی کی بجائے صدارتی آرڈیننس جاری کراناذیادہ سہل محسوس ہوتا ہے لیکن اِس طرح اِداروں کی بے توقیری ہوتی ہے حکومت اقتدار کی نصف مدت کے دوران تیس سے زائد صدارتی آرڈیننس کا اجرا کراچکی ہے قانون میں ترمیم کے عمومی طریقہ کار سے ہٹ کر چلنا اور اِداروں سے بالا بالا فیصلے کراناکسی جمہوریت پسند کو زیبا نہیں۔
صدارتی آرڈیننس کے بارے آئینی ماہر کہتے ہیں کہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں جماعت کے سربراہ کومزید اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اراکین اسمبلی کے ووٹ دیکھنے کی درخواست دینے کا اہل ہو جائے گا لیکن ایسا ہوتا ہے تو یہ آزادانہ مرضی اور ماحول میں ووٹ کاسٹ کرنے کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہوگا بلکہ خدشہ ہے کہ چمک کا جو فائدہ چند ایک اراکین اسمبلی حاصل کرتے ہیں وہ فائدہ جماعت کا سربراہ اُٹھانے لگے گا جس سے محدودخرابی ذیادہ وسعت اختیار کر سکتی ہے ابھی تو سینیٹ کے نادہندگان کے پاس خفیہ بیلٹ کی بنا پر اختیار ہے کہ وہ جسے بہت سمجھیں اُسے ووٹ دے سکتے ہیں اگر اوپن بیلٹ سے انتخاب ہوتا ہے تو اِس بات کی کون گارنٹی دے گا کہ جماعت کا سربراہ صرف انھی کو ووٹ دینے کا کہے گا جو ملک وقوم کے لیے بہتر ہوں بلکہ ممکن ہے اِس طرح اہلیت و صلاحیت کی بجائے چاپلوس وخوشامدی ٹکٹ لیکر زاتی منفعت کی روش پر چل نکلیںآئین کے ماہرین ابھی سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے سے پُرامید ہیں کہ خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار بحال رہ سکتا ہے۔
حالات و واقعات کے مطابق قوانین میں ردوبدل اچھنبے کی بات نہیں اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو مزید اختیارات تفویض کیے گئے جسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنا کارنامہ قراردیتی ہیں لیکن دونوں جماعتوں نے اقتدار کے دوران سینیٹ کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے سے صرفِ نظر کیا حالانکہ دونوں جماعتیں میثاقِ جمہوریت میں اوپن بیلٹ پر اتفاق کر چکی ہیں 2008 سے لیکر 2018تک بارباراقتدار میں آنے کے باوجود اِس طرف شاید اِس لیے دھیان نہیں دیا مبادا کسی وقت فائدہ اٹھانے کی نوبت آجائے تو حالات کی بندشیں قدم اُٹھانے سے روک نہ سکیں اسی لیے1974سے لیکر تاحال سینٹ انتخاب خفیہ رائے دہی سے ہوتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخاب میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے لیکن تبدیلی اخلاص پر مبنی ہونی چاہیے رائے عامہ سے تجاویز لینے کے ساتھ آئینی ماہرین کی آرا لی جائیں عرصہ ہوا قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے امیدوار نامزد کرتے ہوئے یا توقریبی حلقہ احباب سے باہر نہیں دیکھا جاتا اگر دیکھا جاتا ہے تو پارٹی کے لیے فنڈنگ کرنے والے ایسے مالدار لوگوں پر نوازش کی جاتی ہے جو بیس پچیس کروڑ لگا کر ووٹ لینے کی پوزیشن میں ہوں لیکن اِس سوچ کا نتیجہ ہے کہ راتوں رات سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں ا نہونی ہو جاتی ہے اور اہم ملکی جماعتیں ششدر ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں ایک سینٹر بننے کے لیے کروڑوں کا اخراجات ہوتے ہیں قومی اسمبلی کی طرح سینٹر کو بھی براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب کرانے سے خرابیاں کم ہو سکتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ایسے ہاتھوں میں ہے جنھیں عوام کو بااختیار بنانے کی بجائے جماعتوں پر گرفت مضبوط کرنے سے غرض ہے اگر جماعتوں میں جمہوری طریقہ کار رائج ہو اور پارٹی عہدیداروں کا انتخاب بھی جماعتی الیکشن کے ذریعے ہو تو کارکنوں کو صلاحتیں دکھانے کا بہتر موقع ملتا ہے اور اِس طرح جماعتوں میں آمریت کی حوصلہ شکنی ہو گی انڈیامیں پارلیمانی بورڈٹکٹ جاری کرتے وقت یونین کونسل میں امیدوار کی مقبولیت پیشِ نظر رکھتا ہے جبکہ امریکا میں صدارتی امیدوار کو یونین کونسل سے لیکر اوپر تک مقبولیت ثابت کرنے کے لیے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تب جاکر جماعت صدارتی امیدوار کا فیصلہ کرتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی جمہوری قدریں مضبوط کی جائیں پیسے دینے اور اکٹھے کرنے والی چہرے نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔