... loading ...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار کی مدت اور نوعیت پر اُٹھائے گئے سوال سے واضح ہے کہ وہ بھی طویل مدتی اقتدار کی خواہش میں مبتلا ہوچکے۔ عام طور پر یہ آرزو نظام سے زیادہ فرد کی ناگزیریت کی نفسیات سے آلودہ ہوتی ہے۔اسی نفسیات کی تہ داریوں سے انگریزی محاورے نے مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے پھر یہ الفاظ اپنائے:
The graveyards are full of indispensable men
(قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں)۔
برصغیر کی عمومی نفسیات یہی ہے۔ یہاں بت پرستی کے غلبے نے تمام مذاہب کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اسلام کے نام لیوا بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس نفسیات نے یہاں مقابر پرستی اور اکابر پرستی کے امرض بوئے۔ توحید ورسالت کا جگمگاتا پیغام بھی تقلید کی تحویل میں چلا گیا۔ اچھے بھلے لوگ نظمِ مذہب کے بجائے افراد کی قید میں دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست میں بھی یہ مرض اپنی پوری خباشتوں، رکاکتوں اور حقارتوں کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ یہاں رہنما دیوتا بن گئے۔ سیاسی جماعتیں مختلف خاندانوں کا نجی کاروبار بن گئیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم ایسے ہوتی ہے جیسے منڈی میں اشیاء کی فروخت۔ سینیٹ کے تازہ انتخاب میں یہ مکروہ منظر پوری طرح آشکار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود پر حد سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سیاست کو خاندانوں کی قید سے آزاد دیکھنے کے خواہش مندعمران خان کے متاثرین کو اُن کے دورِ حکومت میں کوئی تسلی، تشفی نہ مل سکی۔ اب عمران خان یہ فرما رہے ہیں کہ ملک کا مستقبل پانچ سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا۔ اگر عمران خان اپنی ناکامی کو مدت کے مسئلے سے جوڑتے ہیں تو بالواسطہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے مستقل خاندانی کردار پر مہر تصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ ایک طرف عمران خان زرداروں اور شریفوں کے باری باری، باری لینے کے خلاف کھڑے ہوئے اور اُنہیں مستقل اقتدار کی سیاست میں مبتلا ہونے پر نشانہئ تنقید بناتے رہے، جبکہ دوسری طرف وہ ترقی کے نام پر اپنا یہی کردار چینی طرزِ حکمرانی کے ماڈل پر طلب کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو یاد کرنا چاہئے کہ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے اس حوالے سے کیا ارشاد فرماتے تھے۔ وہ تب تبدیلی کے لیے سو دن ہی کافی قرار دیتے تھے۔ پھر اُنہوں نے یہ مدت چھ ماہ تک بڑھائی۔ عمران خان نے سریر آرائے اقتدار ہونے کے بعد انتہائی گرمجوشی سے وزراء کی کارکردگی جانچنے کے لیے مدت کا تعین بھی کردیا۔ عوام کو یہ بھی خوشخبری دی کہ ہر ماہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ جو وزراء کارکردگی نہ دکھا سکے، اُنہیں مناصب سے علیحدہ کردیا جائے گا۔ اب خود وزیراعظم کو بھی یاد نہیں رہا کہ وہ اس حوالے سے کیا فرمایا کرتے تھے۔ وزیراعظم کا مدینہ کی ریاست کا بیانیہ بھی عملی طورپر آبرو مند نہیں ہوسکا۔ اُنہوں نے طرزِ حکومت کے حوالے سے اب چینی ماڈل کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ اقتدار کے تحفظ کی بے پناہ شدید خواہش کا نتیجہ ہے۔ درحقیقت عمران خان نے جتنی جلدی اپنے خیالات سے نجات پائی ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ مدینہ کی ریاست کے بجائے میکاؤلی کے تصور ِ حکومت پر عمل پیرا ہے۔ میکاؤلی نے اپنے حکمرانوں کو سمجھایا کہ وعدہ اگر آپ کو نقصان پہنچائے تو اُسے کبھی نہ پورا کرو۔لوگوں کو خود سے مبتلائے محبت رکھنے کے بجائے اُنہیں ڈر سے باندھو۔ کبھی اُصولوں یا قدروں کی پروا نہ کرو۔ حالات کے ساتھ خود بھی بدلتے چلے جاؤ کہ قسمت ایک طوفانی دریا ہے۔ کیا وزیراعظم نے اب تک ایسا ہی نہیں کیا؟وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی سے تبدیل کرنے سے لے کر گورنر ہاؤسز بند کرنے تک اُنہوں نے یوٹرن لینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اور یہی میکاؤلی سیاست کی ”روحانیت“ ہے۔
عمران خان جس طویل مدتی اقتدار اور چینی نمونے پر طرزِ حکمرانی کے حیلے ڈھونڈ رہے ہیں وہ بھی ناقص تصورات ہیں۔ دنیا میں اکثر ممالک نے طویل مدتی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں، مگر اس سے کسی ملک کی قسمت نہیں بدلی۔ یہاں تک کہ خود چینی ماڈل بھی افراد پر انحصار نہیں کرتا، نظام پر کرتا ہے۔ عمران خان اس حوالے سے جیف ملگن (GEOFF MULGAN) کی کتاب ”گڈ اینڈ بیڈ پاؤر“ کا مطالعہ فرمائیں تو اُن پر طویل مدتی اقتدار کے نقائص واضح ہوجائیں گے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں پاکستان بھی اُن آٹھ ممالک میں شامل تھا، جہاں سیاسی قیادت طوالت کے اعتبار سے زیادہ محفوظ تھی۔ مگر کانگو، عراق، میانمار، سوڈان، انڈونیشیا، شام، برونڈی اور پاکستان کرپٹ ممالک میں سرفہرست آتے رہے۔ سیاسی قیادت کی طوالت نے ان ملکوں کو کرپٹ ممالک سے نہیں نکالا، نہ اِ نہیں طویل مدتی منصوبوں میں کامیاب ممالک کی فہرست میں یادگار بنایا۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں دنیا کے جو وسیع خطے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ استحکام و تسلسل کے جس اقتدار کو دیکھ رہے تھے وہ عوام کے لیے باعث ابتلاء سمجھے گئے۔ عمران خان کا یہ موقف نہایت ناقص ہے اور خود پاکستان کی اپنی تاریخ سے بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔ عمران خان اور کچھ بھی نہ کرپاتے، مگر اپنے عمل سے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے کہ وہ تبدیلی کے موقف پر دل سے کاربند ہے، تو عوام میں اُن کی پزیرائی کم نہ ہوتی۔ اس کے لیے اُنہیں طویل مدتی منصوبوں کی ضرور ت نہیں تھی۔ بہت چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بھی وہ یہ یقین دلاسکتے تھے۔ وزیراعظم اور کچھ نہ کرتے اپنے اعلان کے مطابق گورنر ہاؤسز عوام کے لیے کھول دیتے۔ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیتے۔ یہ اعلانات درست تھے یا غلط، اس بحث کو جانے دیجیے مگر یہ وزیراعظم کی زبان کے اعتبار کو تو بڑھاتے۔وہ اور کچھ نہ کرتے، اپنی کابینہ کے انتخاب سے اپنے ایجنڈے کی کامیابی کا یقین دلاتے۔ کیا چند وزراء کا انتخاب بھی ملک کے مستقبل کے طویل مدتی منصوبوں سے جڑا ہے؟ آخر کون سی مجبوری اُنہیں فیصل واوڈا اور علی زیدی ایسے لوگوں کے انتخاب پر مجبور رکھتی ہے۔ اُنہیں فواد چودھری سے بہتر کوئی متبادل کیوں نہیں ملتا؟اُن کی کابینہ میں کوئی ایک نام بھی ایسا پیش کیا جائے جو قابلِ دفاع ہو۔ کیا اس کے لیے بھی چینی طرزِ حکمرانی نافذ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
وزیراعظم کے جن ذاتی اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ کارریاست میں معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر تاریخ کے سینے میں اتر کر حکمرانوں کے ذاتی اوصاف اور ان کی کامیابیوں کے درمیان کوئی تناسب یا ربط قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو مغربی جمہوریتوں کے تجربات میں ایک ناکامی کا سامنا ہوگا۔سابق امریکی سیکریٹری خارجہ جارج شلز کی سرگزشت میں یہ جملہ ہمیں چونکاتا ہے کہ ”یہ بات کبھی میرے پلے نہیں پڑی کہ صدر ریگن اتنی کم علمی کے باوجود اس قدر زیادہ کامیابی کیونکر حاصل کرپائے“۔ ایک کامیاب مصنف اور ذہین وفطین نکسن بمشکل ہی خود کو امریکا میں مواخذے کی کارروائی سے بچا پائے تھے۔ اُنہیں عہدہئ صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔عمران خان کے لیے اسٹیبشلمنٹ کی مستقل حمایت کوئی جادوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکے گی۔
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ زرداروں اور شریفوں کے خلاف نفرت اُن کی حمایت کا مستقل اثاثہ کبھی نہیں رہ سکتی۔ یہ ”اثاثہ“ ایک حکمت سے خرچ کیا جانا چاہئے تھا۔ مگر عمران خان نے اپنا پورا زورِ حکومت اسی کو خرچ کرنے پر صرف کیا۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا تھا: جس کی حکمت نہیں چلتی اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی“۔ عمران خان کی حکومت نہیں چل رہی۔ حکمت قوتِ بازو کا متبادل ہوتی ہے۔ افلاطون نے اسے خدائی عطیات میں سب سے بڑھ کر قرار دیا تھا۔ حکمت کا پہلا اظہار زبان سے ہوتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے یونانی ماہر فلکیات بطلیموس (Ptolemy)نے اس مضمون پر عجیب بات کہہ رکھی ہے: حکمت کا درخت دل سے اُگتا ہے، اور زبان سے پھل دیتا ہے“۔عمران خان کی زبان کے پھل سے سب ہی آشنا ہے، اور دل کے تو کیا ہی کہنے!!اگر عمران خان اس سے آگاہ ہوتے تو اس قدر مہنگائی اور ناکام حکومت کے تجربے کے بعد کم ازکم طویل مدتی اقتدار کی پھلجڑی چھوڑنے کے لیے یہ وقت منتخب نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭