... loading ...
اگرآپ کا کسی ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہو ،جہاں کہیں قرب و جوار میں ہی لذت ِ کام و دہن کے لیے انواع و اقسام کے پکوان تیار کیے جا رہے ہوں ،دیگیں پکائی جارہی ہوں ، تو ایسی صورت حال میں اگر دیگیں پکانے والا باورچی کھانے تیار ہوجانے کا اعلان نہ بھی کرے تب بھی پکوان کی خوشبو سے آپ کو معلوم ہو ہی جائے گا کہ دیگیں پک کر تیار ہو چکی ہیں ۔ دراصل کھانا پکنے کی مسحور کن اور مزیدار خوشبو سے ہی تو باورچی کو بھی کھانا پک کر تیار ہوجانے کی اطلاع ملتی ہے۔ اس لیے کہا جاتاہے کہ’’ پکنے والا کھانا اپنی خوشبو کے ذریعے خود ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کتنا مزے دار ہوگا‘‘۔ بالکل اسی مصداق ایٹم بم کی بھی ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے ۔ جسے سونگھنے والے محسوس کرکے باآسانی بتا سکتے ہیں کہ آیا ایٹم بم تیار ہوچکا ہے یا ابھی تیاری کے پہلے،دوسرے، یا آخری مرحلے میں ہے۔سونگھنے والوں کو یہ ہی حس خبر دے رہی ہے کہ ایران ایٹم بم تیار کرچکا ہے یا ایرانی ایٹم بم تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ ہماری اس خبر کی تصدیق حال ہی میں امریکی وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے والے’’ انتونی بلنکن‘‘ کے اُس بیان سے بھی ملتی ہے ۔جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایران ممکنہ طور پر چند مہینوں یا ہفتوں میں ایٹم بم تیار کرلے گا۔کیونکہ ایران بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کی ایک نئی ایٹمی قوت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ اس وقت اپنے ہدف کے اس قدر نزدیک پہنچ گیا ہے کہ اگر بروقت کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا تو ایران کے لیے ایٹم بم بنانا چند ہفتوں کا کھیل ہوگا‘‘۔یاد رہے کہ یہ امریکی وزیر خارجہ کو محسوس ہونے والی ایرانی ایٹم کی تیاری کی خوشبو کا تذکرہ تھا۔ جبکہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی بڑھتی ہوئی بے چینی اشارہ کررہی ہے کہ ایران کا ایٹم بم تیاری کے آخری مراحل میں نہیں بلکہ ایران اپنا ایٹم بم تیار بھی کرچکا ہے۔ اس لیے اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیات کو ناکارہ بنانے کے لیے فضائی حملے کی بھرپور انداز میں تیاری کررہاہے۔ مگر اسرائیل کی ایران پر جارحیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ عالمی دنیا ،خاص طور پر چین کا متوقع ردعمل ہے ۔
دوسری جانب نو منتخب امریکی صدر بائیڈن نے برسر اقتدار آنے کے بعد سابقہ معاہدے کی پابندی کی شرط پر ایران سے دوبارہ مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ جو بائیڈن کے اس پالیسی پر اپنا موقف دیتے ہوئے ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے واضح کردیا ہے کہ’’ امریکا کے ساتھ بات چیت 2015 کی صورت حال جیسی نہیں ہوگی اور اب صرف دست خط کردینے سے پرانی شرائط بحال نہیں کی جاسکتیں‘‘۔واضح رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پیش رو صدر اوباما کے دور میں ایران سے ہونے والے جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کا معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کردیا تھا اور دباؤ بڑھانے کے لیے ایران پر 2018 میں سخت ترین پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں ۔لیکن امریکی صدر جوبائیڈن ایران کے ساتھ اسی معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں، جسے ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں ختم کردیا تھا۔ جبکہ ایران یہ چاہتا ہے کہ معاہدہ ازسر اور بالکل نئی شرائط پر کیا جائے ۔
تاہم وائٹ ہاؤس میں موجود اسرائیلی لابی یہ سمجھتی ہے کہ ایران امریکا کے ساتھ نئے سرے سے معاہدہ کے لیے مذاکرات شروع کرکے فقط کچھ وقت مزید حاصل کرنا چاہتاہے ۔تاکہ اس دوران اگر ایٹم بم کی تیاری میں کوئی کمی بیشی رہ چکی ہے تو اُسے پورا کر لیا جائے ۔ لہٰذا اسرائیلی لابی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ امریکا کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کے لیے آمادہ کرلیا جائے ۔ تاکہ جب اسرائیل اور امریکا ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مل کرتباہ کریں گے تو عالمی برادری کی جانب سے آنے والا ہر قسم کا ردعمل قابل برداشت ہوگا۔لیکن امریکا کے داخلی سیاسی حالات اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتے کہ صدر جوبائیڈن ایران پر فضائی حملے کا فوری فیصلہ کرگزریں ۔اس لیے عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ ’’صدر جو بائیڈن کے لیے ایران کے لیے ایک ایسی پالیسی بنانا جس پر اسرائیل بھی مطمئن ہو،جسے دنیا بھی قبول کرلے اور ایران کو ایٹم بم تیار کرنے سے بھی روک لیا جائے سخت ترین چیلنج ہوگا۔ خاص طور پر اگر تمام پابندیوں کے باوجود بھی ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کام یاب رہتا ہے تو صرف خطے اور دنیا کی صورت حال ہی نہیں بدلے گی بلکہ عالمی سطح پر امریکی مفادات اور ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔لہٰذاجو بائیڈن انتظامیہ کی اولیںکوشش یہ ہونی چاہئے کہ جلد از جلد ایران کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا جائے‘‘۔
اَب یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ایران واقعی ایٹم بم تیار کرچکاہے تو پھر کیا ایران کے ساتھ مذاکرات کرنا سوُد مند ہوگا؟۔ اسرائیل کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب یہ ہی دیا جاسکتاہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کا وقت گزر چکا ہے کیونکہ اسرائیل اور امریکا نے مل کر ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے بے مقصد مذاکرات کی جن بھول بھلیوں میں اُلجھایا تھا۔ اُن کی افادیت اَب مکمل طور پر بے اثر اور ختم ہوچکی ہے اور ایرانی ایٹم بم بنانے کی سائنس کو مکمل طور پر سمجھ چکے ہیں ۔ اس لیے اگر ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ و برباد بھی کردیا جائے ۔تب بھی اسرائیل اور امریکا ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک نہیں سکیں گے ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ ایران پر حملہ کی صورت میں کچھ وقت کے لیے ایران کو ایٹم بم بنانے یا اُس کا اعلان کرنے سے باز ضرور رکھا جاسکتاہے۔ مگر آخر کب تک؟۔ سادہ سی بات ہے کہ ایٹم بم بنانے کا فارمولا اور سائنس تو سینکڑوں ایرانی سائنس دانوں کو پوری طرح سے ازبر ہوچکی ہے ۔ اگر آج اُنہیں ایک جگہ پر ایٹم بنانے سے روک لیا جائے گا تو وہ کل کسی دوسری جگہ پر ایٹم بم بنا لیں گے۔ اس لیے ایرانی ایٹم بم ایک ایسی حقیقت ہے ،جسے دنیا کو تسلیم کرکے ایران کو بامقصد مذاکرات کی دعوت دینی چاہیئے۔ خدانخواستہ !اگر اسرائیل یا امریکا ایران پر جنگ مسلط کرنے کا پختہ ارادہ کر ہی چکے ہیں تو یقینا وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ایران پر عسکری جارحیت کرکے ہی دم لیں گے۔
لیکن ایران کے بارے میں ایک بات اچھی طرح سے اسرائیل اور امریکا کو بھی سمجھ لینی چاہئے کہ ایران شام یا عراق نہیں ہے کہ جسے روندنا اتنا آسان ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے بلکہ امریکی تھنک ٹینک کے زیراہتمام چھپنے والے میگزین ’’نیشنل انٹرسٹ‘‘ لکھتا ہے کہ ایرانی ایٹم بم کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تب بھی ایران کی میزائل ٹیکنالوجی اس قابل ہے کہ نہ صرف وہ امریکا کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے بلکہ اسرائیل کے مکمل خاتمہ کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔ میگزین نے ایران کی میزائل طاقت کے حوالے سے اپنی خصوصی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگرچہ تہران کے پاس تاحال بین البراعظمی بیلسٹک میزائل موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایران کی میزائل ٹیکنالوجی اتنی قابل قدر اور ترقی یافتہ ضرور ہے کہ ایران اپنے میزائلوں کے ذریعے امریکی فوج کو تباہ و برباد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کیونکہ ایران کے پاس مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی میزائل طاقت موجود ہے‘‘۔
دلچسپ با ت یہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق بھی ایران نے جو میزائل بنائے ہیں وہ پانچ سو سے دوہزار کلو میٹر کے فاصلے تک باآسانی مار کرسکتے ہیں ۔ چونکہ امریکہ کے عین الاسد نامی فوجی اڈے کا فاصلہ ایران کے کرمانشاہ صوبے میں واقع اس مقام سے 322 کلومیٹر دور ہے جہاں ایران نے اپنے میزائل لگائے ہوئے ہیں۔ اس لیئے غالب امکان یہ ہے کہ امریکا بھلے ہی ایرانی میزائلوں کے نشانہ پر نہ آسکے ۔مگر اس خطے میں موجود امریکا کے بہت سے فوجی اڈے ضرور ایرانی میزائل تباہ و برباد کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر ایران کا ذوالفقار میزائل۔ کیونکہ اس کی بنیادی صلاحیت ہی یہ ہے کہ وہ بالکل ٹھیک نشانے پر لگتا ہے اور اس میں دشمن کے ریڈار کو جام کرنے کی خوبی بھی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالفقار میزائل، اُن الیکٹرانک لہروں کے خلاف بھی کارآمد ہے جو دشمن میزائل کا راستہ بدلنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔یاد رہے کہ ایران نے اپنے ذوالفقار نامی میزائلوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے، درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے اور ریڈار رینج میزائل۔ پاسدارانِ انقلاب کے مطابق اس میزائل کے ساتھ لگے ہوئے ڈیڑھ میٹر لمبے راکٹ میں ٹھوس ایندھن بھرا جا سکتا ہے اور یہ آواز کی نصف رفتار تک اڑ سکتا ہے۔نیزیہ میزائل ایرن نے خاص طور پر اپنے ملک کے ارد گرد موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا ہے ۔
حیران کن طور پرذوالفقار میزائل موبائل لانچر سے بھی داغا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے دشمن کے لیے اس کے درست مقام کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے ،جہاں سے اسے چلایا گیا ہے۔ذوالفقار میزائل پہلی مرتبہ اس وقت دکھائی دیا تھا جب بندر عباس میں ستمبر میں ایرانی افواج کی ایک پریڈ میں اس کی نمائش کی گئی تھی۔مگر گزشتہ ہفتے بھی ایران نے بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کی ہیں ۔ جس میں جدید بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کا تجربہ کیا گیا ہے۔ مشقوں کے دوران ذوالفقار، زلزال اور دزفول میزائلوں کو اہداف پر داغا گیا۔دوران ِ مشق بیلسٹک میزائلز اور ڈرونز کی جدید قسم نے مخلوط حملہ کیا اور اپنے تمام اہداف کو درستگی کے ساتھ تباہ کرنے کا مظاہر ہکیا۔دو روزہ بحری جنگی مشق کے موقع پر ایران کی پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی اور آئی آر جی سی ایرو اسپیس کمانڈر بریگیڈیئر جنرل عامر علی نے بھی شرکت کی۔پاسداران انقلاب کے چیف کمانڈر نے کہا کہ’’ یہ مشق اور اس میں کیے گئے کامیاب تجربات اسلامی دنیا اور ایرانی عوام کے لیے قابل فخر ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہماری جنگی استعداد میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایران جنگ کے لیئے مکمل طور پر تیار ہے اور اَب اُسے اس با ت سے کوئی فرق نہیں پڑتا کو جنگ کرنے کی غلطی اسرائیل کرتا ہے یا پھر امریکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔