... loading ...
سوچتاتواکثرتھامگراب کی بار یہ احساس شدت اختیارکرگیاتو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے دل مضطرب اور روح بے چین ہوگئی آنکھیں جیسے ساون بھادوں بن گئیں سینے سے ایک ہوک سی اٹھنے لگی کہ کاش میں بھی اس زمانے میں ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اے کاش میں بھی دیارکربلا کا مسافرہوتا اس دشت کی آبلہ پائی مقدرہوتی تو میرا مقدرجاگ اٹھتا اگر ایسا ہوتا کہ میں قافلہ ٔ حسینؓ کے تقش ِ پاپر چلتا چلتا کربل کے تپتے صحرا میں پہنچتا دیوانہ وار نعرہ ٔ حق بلندکرتے ہوئے یزیدی لشکرسے ٹکراجاتا جسم کی تکہ بوٹی بھی ہوجاتا تو کوئی ملال نہ ہوتا یاپھر ننھے علی اصغرؓکی طرف آتا تیر میرے حلق میں پیوست ہوجاتاتو کتنا بہتر تھا یاپھر عباس ؓعلمدار کے بازو قلم ہونے سے پہلے میں تیزی سے آگے بڑھتا اور میرے بازو قلم ہوجاتے تو کتنی بڑی سعادت مجھے حاصل ہوجاتی انسان کی زندگی میں کتنے ارمان کتنی خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جو دل ہی دل میں دم توڑجاتی ہیں کوئی نہیں جانتا، کچھ خواہشیں رسواکردیتی ہیں اور کچھ پرزندگی نچھاورکرنے کوجی کرتاہے ،قافلہ ٔ حسینؓ کے مسافروں پر تو خوش بختی نازاںہے، یقینا حسینؓ کے راستے میں قدم قدم پر منزل تھی لیکن ان کی منزل ِ مقصود سچائی تھی آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں جس نے بھی سچ کا ساتھ دیاتاقیامت زندہ و جاویدہوگیا ، ہمیشہ کے لیے امرہوگیا۔
جب خلافت کو ملوکیت نے بادشاہت میں تبدیل کردیا تو چندبڑے بڑے جلیل القدرصحابہ کرام نے اس کے خلاف مزاحمت کی ،کچھ نے حالات کی نزاکت کے پیش ِ نظرچپ سادھ لی،کچھ مصلحتوںکاشکارہوگئے کئی نے معاملات کو حالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیابہرحال اکثریت نے ملوکیت کو دل سے قبول نہ کیا ،اسلامی سلطنت میں بھی نظریہ ضرورت ایجادکرلیا گیا،اس وقت چندصحابہ کرام اجمعین کا مؤقف یہ بھی تھا کہ حضرت امام حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری نے دوسرے فریق کے لیے میدان کھلاچھوڑدیاہے بہرحال یزید نے حکومت سنبھالتے ہی جب فوراً اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تو اس نے حضرت امام حسینؓ سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا کیونکہ یزیدکے حامیوںکاخیال یہ تھا کہ نواسہ ٔ رسول ﷺکی بیعت کے بغیرحکومت مضبوط نہیں ہوسکتی کل یہ نہ ہو کہ حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوں نے یزیدکی حکمرانی کے خلاف علم ِ بغاوت بلندکر دیا تو پھر اس پرقابو پانا مشکل ہوجائے گالیکن حضرت امام حسینؓ نے کسی مصلحت اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر بانگ ِ دہل اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں،اس لیے اسے خلیفۃ المسلمین نہیں بنایا جاسکتا جس پر حکومتی ایوانوںمیں کھلبلی مچ گئی یزیدکے حامیوں نے مشورہ دیا کہ حضرت امام حسین ؓ سے ہرقیمت پر بیعت لی جائے چنانچہ یزیدکی طرف سے والی ٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط پہنچا کہ وہ حضرت امام حسینؓ کو بیعت کے لیے اتنا مجبور کیا جائے کہ وہ راضی ہو جائیں اور ان کو اس معاملہ میں ہرگزکسی قسم کی مہلت نہ دی جائے۔
حکمران اپنی بات منوانے کے لیے دھونس،لالچ یا ریاستی جبرکا سہارا لیتے ہیں اس لیے خوف و ہراس کی فضا پیداکردی گئی اس کے باوجود ولید بن عتبہ کے پاس جب یزید کا خط پہنچا تو وہ پریشان ہوگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے؟ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے سابق والی مدینہ مروان بن حکم کو مشورہ کے لیے بلالیا، اس نے کہا کہ اگر امام حسینؓ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو ٹھیک ہے ، ورنہ ان پر سختی کی جائے انہیں شہید کرنابھی پڑے تو دریغ نہ کریں لیکن ولید مزاجا ً ایک عافیت پسند اور صلح جو شخص تھا، اْس نے مروان کی بات کی پرواہ کیے بغیر امام حسینؓ کے لیے راستہ کھول دیا ،یہ دیکھ کر مروان نے ولید کو انتہائی ملامت کی کہ تو نے بہترین موقع ضائع کردیا مخالف کو راستے سے ہٹایا جاسکتا تھا مگرولید بن عتبہ نے کہا کہ: ’’ اللہ کی قسم ! میں ایسا نہیں کرسکتا میں امام حسینؓ کو شہید کرنے سے ڈرتا ہوں ،میرادل گواہی دیتاہے آپ کا خون جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پا سکے گا۔‘‘ اسی دوران حضرت امام حسینؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ اہل کوفہ کو جب حالات کا علم ہوا کہ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو درجنوں افراد حضرات سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے وہ انتہائی پرجوش تھے انہوں نے صلاح مشورہ شروع کردیا شرکاء کی اکثریت چاہتی تھی کہ حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دیا جائے فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت امام حسینؓ کو خط لکھاجائے کہ ہم بھی یزیدکی بیعت نہیں کرنا چاہتے آپ ؓ فوراً کوفہ تشریف لے آئیں ہم سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلیںگے۔ اسی اثناء میں کوفہ ہی سے ا سی مضمون پر مشتمل کچھ اور خطوط امام عالی مقام حسینؓ کو موصول ہوئے، جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے دست ِ حق پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔
حضرت علیؓ کے دور ِ خلافت میں کوفہ ان کا دارالحکومت رہ چکا تھا وہاں اہل ِ بیت سے محبت کے دعوے داروںکی بڑی تعداد موجود تھی۔ حضرت امام حسینؓ کو ان کے چندساتھیوںنے مشورہ دیا کہ کوفہ کے لوگ ہمارا ساتھ دیں تویزید کے خلاف موومنٹ چلائی جاسکتی ہے حضرت امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجا کہ :’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات موافق ہوئے تو میں قافلہ لے کر فوراً کوفہ پہنچ جائوںگا۔‘‘ جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ کوفہ پہنچے تو لوگوںنے ان کا والہانہ استقبال کیا انہوں نے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہوا کہ یہاں کے لوگ واقعی یزید سے متنفر اور امام حسینؓکی بیعت کے لیے بے چین ہیں چند ہی دنوں میں اہل کوفہ سے 18000 مسلمانوں نے حضرت امام حسینؓ کے لیے بیعت کر لی جس پرحضرت مسلم بن عقیل ؓ نے حضرت امام حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔ جب نواسہ ٔ رسول نے کوفہ جانے کا عزم کر لیا ہے تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اپنے شدید تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہا آپ وہاں نہ جائیں مجھے حالات بہترنظرنہیں آرہے کیونکہ میں آپ کو کسی خطرے میں نہیں دیکھ سکتا اس لیے آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں لیکن امام حسینؓ کوفہ جانے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے ۔ تاریخی اعتبار سے 8 یا 9ذی الحجہ06ھ کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ کوفہ میں جب ابن زیاد کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو اْس نے چالاکی یہ کی کہ مقابلے کے لیے پیشگی ہی اپنا ایک سپاہی ’’قادسیہ‘‘ کی طرف روانہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ جب مقام’’ زیالہ‘‘ پر پہنچے انہیں یہ المناک خبر پہنچی کہ رضاعی اور چچا زادبھائی مسلم بن عقیل کو دونوں بیٹوں سمیت شہید کر دیا گیاہے یہ ظلم اس کیے کیا گیا کہ خوف وہراس اس قدرپیداکیاجائے کہ کوئی حضرت امام حسینؓ کا ساتھ نہ دے یزید اور اس کے ساتھی اس مقصدمیں کافی حد تک کامیاب رہے کیونکہ ایک بھی صحابی ٔ رسول قافلہ ٔ کربلا میں شامل نہ ہوااور حضرت امام حسینؓ نے اس کے باوجوداپنے راستے سے پیچھے ہٹنا گوارانہ کیا اور اپنے خاندان اور ساتھیوںسمیت کوفہ جانے کا فیصلہ کرلیاتو حکومتی ایوانوںمیں کھلبلی مچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔