... loading ...
کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب کراچی روشنیوںکا شہر ہوا کرتا تھا اور اس شہر ِ پری تمثال میں تعصب ، جھوٹ، منافقت ،سازش، استحصال ،اقرباپروری اور خون ریزی کی سیاست کے بجائے خدمت کی سیاست کا دور ،دوراں تھا۔ یہ ہمارا وہ سنہری’’سیاسی دور ‘‘ تھا، جب سیاست ’’نیک کام‘‘ ہوا کرتی تھی اور سیاست دان’’ نیک نام‘‘ ہوا کرتے تھے۔نیز سیاست کرنے والا ہر فرد اپنا ایک سیاسی نظریہ تو ضرور رکھتا تھا لیکن وہ کبھی اُسے ’’معاشی ذریعہ‘‘ بنانے کی مذموم خواہش اپنے دل کے نہاں خانے میں نہیں پالتاتھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ خدمت کے آٹے میں سیاست صرف نمک کے برابر تھی۔ ایسی قومی سیاست کے بطن سے پیدا ہونے والے سیاست دان بھی تو پھر حکیم محمد سعید ،رئیس امروہوی ،جمیل الدین عالی ،مولانا شاہ احمد نورانی اور ظہور الحسن بھوپالی جیسی جلیل القدر سیاسی و علمی شخصیات تھیں ،جنہیں دیکھ کر اور سُن کر عام آدمی کو بھی ایک لمحہ کے لیے سیاست جیسی بے اعتبار دیوی سے عشق ہونے لگتا تھا۔ چونکہ یہ تمام سیاست دان دلیل اور مکالمہ کے ہتھیاروں سے ہمہ وقت خود کو مزین کیے رکھتے تھے۔ لہٰذا ،انہیں شکست دینے کے لیے اِن کے مخالفین نے دلیل ،مکالمہ اور عوامی خدمت کے بجائے خوف ،دہشت اور گولی کا سہارا لیا ۔
بدقسمتی سے کراچی میں خدمت کی سیاست پر ، پہلا وار ،تعصب کے تعفن میں لتھڑی ہوئی ملک دشمن قوتوں نے ظہور الحسن بھوپالی پر ستمبر 1982 میں کیا اور اُن کی آخری کاری ضرب کا شکار ستمبر 1988 میںرئیس امرہوی بنے ۔پھراس کے بعد تو جیسے سیاست کی آنکھوں میں روشنی نہ رہی ۔مگر کتنی عجیب بات ہے کہ دم ِ آخری بھی اِن خدمت کے استعاروں نے قلم اور دلیل کو ہی اپنی سپربنائے رکھا ۔یاد رہے کہ جب رئیس امرہوی کے قتل کے فوراً بعد، اُن کے بھائی جون ایلیا سے کسی اخبار نویس نے قاتل کے بارے میں استفسار کیا تو جو ن ایلیا نے غم واندوہ کی اس کیفیت میں بھی بس ایک جملہ کہا کہ ’’رئیس امرہوی کا قاتل، بڑا ہی ’’رئیس شناس ‘‘ تھا ،اُس نے رئیس کو گولی دماغ میں ماری ،رئیس کیا تھا؟بس ! دماغ ہی تو تھا‘‘۔واقعی !اگرکراچی پاکستان کا دماغ کہلاتا تھا ، تو انہیں عالی دماغ اہلِ سیاست کی وجہ سے ۔جب دشمنانِ کراچی نے چُن چُن کر ذہانت،فطانت اور مروت کے سب ہی دیئے ایک ایک کر کے بجھادیے تو وطن عزیز کا دماغ ، ’’کچرا شہر ‘‘میں بدل گیا۔ لیکن آج سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اَب ہمیں کراچی کی نیک اور بد کار سیاست کا فرق بتانے والا بھی کوئی نہیں رہا ۔کیونکہ کراچی میں خدمت کی سیاست کی آخری مستند گواہی اور ہمارے عزیز ازجان،پیارے، حنیف الرحمن بھی فانی دنیا سے راہی ملک ِ عدم ہوگئے۔ ویسے تو اس دنیا میں سب نے ہی مر جانا ہے لیکن بعض نیک طینت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے مرجانے سے تاریخ اور روایت کی داستان بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے مر جاتی ہے۔اس مناسبت سے حنیف الرحمن کے انتقال کی خبر بھی ’’اچھی خبر ‘‘ کی بدترین موت ہی تو ہے۔
حنیف الرحمن نے انجمن طلبا اسلام کے سیاسی دروازے سے وادی سیاست میں قدم رکھا تھا ،مگر موصوف اتنے تیز خرام تھے کہ برسوںکا سیاسی سفر چند مہینوںمیں طے کرتے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانی اور ظہور الحسن بھوپالی کے بالکل عین دستِ راست تک جاپہنچے ۔واضح رہے کہ70 کی دہائی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہنگامہ خیز ’’سیاسی دہائی ‘‘ کہلاتی ہے۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان الگ الگ ہوچکے تھے اور ملک کے بدخواہوں کے حوصلے آسمان کی بلندیوں کو چھورہے تھے ۔ ایسی مخدوش سیاسی صورت حال میں ڈھاکہ کے بعد ملک دشمن قوتوںکا اگلا ہدف کراچی ہی تھا۔ لیکن کراچی میں مذہبی و دینی محاذ مولانا شاہ احمد نورانی نے سنبھالا ہوا تھا جبکہ سیاسی و علمی محاذ پر ظہورالحسن بھوپالی موجود تھے ۔ نیز کراچی کی مقامی سیاست کو سیاسی منافرت اور مذہبی فرقہ واریت کے عفریت سے بچانے کے لیئے انجمن طلباء اسلام کے پلیٹ فارم پر حنیف الرحمن پوری طرح سے متحرک تھے۔وہ کہتے ہیں نا کہ’’ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘ ۔مگر شومئی قسمت کہ خدمت کی سیاست ،لاکھ کوشش بسیارکے باوجود بھی نفر ت کی سیاست پر غلبہ نہ حاصل کرسکی ۔ ظہور الحسن بھوپالی شہید کردیئے گئے اور مولانا شاہ احمد نورانی جماعتی گروہ بندیوں کے باعث عضومعطل ہوگئے ۔ جبکہ حنیف الرحمن نے ’’عوامی خدمت ‘‘ کے لیے سیاست کی شاہراہ کو خیر باد کہہ کر علمی ،ادبی اور دینی مصروفیت میں شمولیت کے لیے اپنے پرانے دوست اور معروف سماجی شخصیت لیاقت علی پراچہ کا گھر ڈھونڈ لیااور دونوں دوستوں کے درمیان اتفاق رائے سے طے یہ پایا کہ مشاعروں، ادبی نشستوں اور محافل نعت کے ذریعے کراچی کی مسموم سیاسی فضاپر اثرانداز ہونے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ دوست مخلص تھے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اِن کا کیا گیا عہد سچا ثابت نہ ہوتا۔پس! لیاقت علی پراچہ اور حنیف الرحمن نے گزشتہ دو دہائیوں میں درجنوں کی تعداد میں ملکی و عالمی سطح کی مشاعروں، ادبی نشستوں اور محافل نعت کا انعقاد یقینی بنایا۔
حنیف الرحمن کو بزرگانِ دین سے بھی خاص انسیت اور محبت تھی ،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ سردی ،گرمی ،حتی کہ اپنی بیماری کی پرواہ کیئے بغیر بھی کم و بیش ہر ماہ ،حاجی سید احسان علی جعفری قادری چشتی نظامی کی درگاہ لنگر خانہ غوث الاعظم دستگیر ،نواب شاہ پر ضرورحاضر ہوتے تھے۔ آخری مرتبہ جب درگاہ پر انہیں دیکھا تو، اُن سے استفسار کیے بنا نہیں رہ سکا کہ ’’سخت سرد موسم اور ناسازی طبع کے باعث کراچی سے نواب شاہ تک کا سفر کچھ مشکل تو ضرور لگا ہوگا آپ کو؟‘‘۔ مسکرا کر جواباً کہنے لگے کہ ’’اہل کراچی گزشتہ چالیس برسوں سے جن مشکلات اور نامساعد حالات سے مسلسل گزر رہے ہیں ،اُن کی موجودگی میں ہمیں بیماری اور سفر کی صعوبتیں آسائش کی مانند محسوس ہوتی ہیں‘‘۔میں نے دریافت کیا کہ ’’کیا آپ کو اُمید ہے کہ کراچی بدلے گا؟‘‘۔پہلے تو خاموش رہے ، پھر خود ہی گویا ہوئے کہ ’’ہاں! ضرور کراچی بھی بدلے گا اور اہلِ کراچی کا مقدر بھی ،لیکن اُسے دیکھنے کے لیئے ہم موجود نہیں ہوںگے‘‘۔بالآخر 3فروری 2021 کو حنیف الرحمن نے اچانک داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ دُعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُن کی تمام ظاہری و مخفی نیک کاوشوں کو قبول فرما کر اپنے سایہ رحمت میں خصوصی جگہ عطافرمائے اور اُن کے لگائے گئے’’ عوامی خدمت‘‘ کے پودے کو تناور درخت بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔