... loading ...
لاحاصل کی خواہش فضول ہے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، جب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے رہنما فوجی قیادت پرسیاست میں مداخلت کاا لزام لگاتے پھرتے تھے۔ اُن پر ”سلیکٹرز“ کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ وہ عمران خان حکومت کی نالائقیوں پر موردِ الزام ٹہرائے جاتے تھے۔ایک وقت تھا کہ مقتدر قوتوں کا ذکر انتہائی محتاط الفاظ سے کیا جاتا۔ گاؤں کی الھڑ دوشیزہ کی طرح جو اپنے محبوب کا نام لینے سے گریزاں رہتی اور پلو کے کناروں کو موڑتے ہوئے ہونٹوں کے کناروں سے ”اِن“یا ”اُن“ کے ساتھ ذکرکرتی۔جون ایلیا کو یہ لہجہ اُکتائے رکھتا، کہا:
شرم دہشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
اردو غزل کے محبوب سے مقتدر قوتوں کے عزل وفضل تک نام کا یہ جھگڑا رہتا ہے۔ پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک چلائی تو نوازشریف نے اچانک مقتدر قوتوں کے دو”عالی مناصب“نشانے پر رکھ لیے۔یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ سرگوشیوں کی باتیں کوٹھوں چڑھیں۔ پی ڈی ایم کے اسلام آباد اجلاس سے گجرنوالہ اور کوئٹہ جلسوں تک ”نامعلوم“ اُبال کے زیر اثر تاج وتخت اچھالنے کے تذکرے ناموں کے ساتھ جاری رہے۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک انقلاب زیر گردش ہے جو مستعار زمین و آسمان پھونک ڈالنے کو بے قرار ہے۔ کوئی دن جائے گا کہ ”دستوری بدعنوانی“ اور ”صبح بے نورانی“کو ”میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا“ کا پرچم لے کر مسترد کردیا جائے گا۔ قافلہئ جمہور کو سربلند آئین کے ساتھ افلاطون کی مثالی جمہوریہ مل جائے گی، جس میں منصب ِ حکمرانی پر عوام کے اہل، منتخب نمائندے عدل اور مساوات کے گیت گاتے رونق افروز ہوں گے۔ یوں پون صدی پر محیط اہلِ وطن کی تھکن اُتر جائے گی۔ راولپنڈی کی فضائیں صرف جذبوں کی ترجمان رہیں گی اوراسلام آباد کی ہوائیں عوامی امنگوں کو زبان دینگیں۔ نوازشریف کی مستعار پونے تین عدد تقاریرسے پون صدی کے چال چلن کے بدلنے کی امیدیں اُسی ”صحافتی پیر فرتوتوں“ نے دلوائی تھیں،جن کے کرتوتوں نے صحافت کو حکمرانوں کی دہلیز پر دائم سجدہ ریز رکھا۔ جن کی آزادیئ صحافت کا نغمہ ”آنے والی کی مدحت او رجانے والے کی مذمت“ کے تاروں سے ترتیب پایا۔ اس طبقے کو اقتدار کے کھیل میں عمران خان نامی ایک حادثے نے اچانک دربدر کردیا۔ اب موقع کے منتظر اور دسترخوان کے متلاشی طبقے نے اچانک دستوری کرپشن اور صبح بے نور کے انقلابی الفاظ میں اپنے سُر شامل کرنے کے سو جتن کیے۔ تاریکیوں کے سودوں کو سورج کے اجالوں کا مغالطہ دیا۔رائیونڈ میں پڑی چار دہائیوں کی باسی کڑھی میں اچانک انقلابی اُبال کی خبر دی۔ پاکستان کے طول وعرض میں ”ووٹ کو عزت دو“کی گونج گمک سنائی۔ ایسا لگا کہ صحافت آبرو کی چادر اوڑھ رہی ہے،منافقت کا نقاب نوچ رہی ہے۔ سیاست بدعنوانی کے چلن سے تائب ہو کر قائدا عظم کی راہ لے رہی ہے۔اب راستبازی نئے ملک کا چلن ہوگا۔ ووٹ کی عزت گردو پیش ہوگا۔ راولپنڈی میں ”ملازمین“ ملازمتیں کریں گے۔ سیاست دان ایمان داری اور عقل مندی کی تصویر بن کر افلاطون کے فلسفی حکمران کو شرمائیں گے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں ہمارے سیاسی چال چلن کو اپنے لیے نمونہئ منزل بنائیں گی۔قومی اداروں میں شفافیت کی امرت دھارائیں پھوٹ بہیں گی۔عدل کی مسندیں انصاف سے سربلند ہونگیں، نوشیروان کیقباد اور کمبوجیہ کی جگہ تاریخ میں ہماری مثالیں جنم لیں گی۔ شفاف طرزِ حکمرانی، مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے ستونوں کو پائیدار کردے گا۔ کوئی زینب بے آبرو نہ ہوگی۔ کسی موٹر وے پر عزت اور پیسے پر کسی عابد ملہی کی میلی نظریں نہ ہونگیں۔ جعلی پویس مقابلے بند ہو جائیں گے۔ اسلم چودھری اور راؤ انواز جیسے شقی القلب کبھی جنم نہ لے جاسکیں گے۔ قانون طاقتور کی لونڈی اور انصاف دولت مند کی کنیز نہ ہوگی۔کوئی سنتھیارچی پاکباز سیاست دانوں کے شرعی شب وروز کے احوال نہ سنائے گی۔
مافیاؤں کا دور لد جائے گا۔ ایک دودھ والا کسی شہر کے کمشنر کو بارہ کروڑ کی رشوت اورساتھ دھمکی نہ دے سکے گا۔ سرکاری ہرکارے مافیاؤں کی بولی نہ بولیں گے۔ ادویات پر سفاک تاجروں کا قبضہ نہ ہوگا۔ ادویات کی بڑھتی قیمتوں کا حصہ وزیروں کی جیبوں اور گورنروں کے گھروں کی رونق نہ بڑھائے گا۔ قیمتیں منڈی کی قوتیں قابو نہ کریں گی۔ انسان، صارفوں کی طرح نہ سمجھے جائیں گے۔ ملک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح کام نہ کرے گا۔ چینی، گندم، تیل کی قیمتیں کسی سفاک ٹولے کی مرضی کے تابع نہ ہونگیں۔ پینے کا صاف قدرتی پانی بھی نجی کمپنیوں کی تحویل میں نہیں ہو گا۔ تعلیم تجارت نہ ہوگی۔ یہ طبقات کو جنم نہ دے گی۔ کوئی بچہ اس سے محروم نہ رہے گا۔ یہ ریاست کے ذریعے سب کو یکساں، ہم آہنگ اور بلامعاوضہ دی جائے گی۔تعلیم اور صحت پر نجی کمپنیوں کا اجارہ ختم ہو جائے گا۔ حکومتیں تعلیم اور صحت کی فراہمی میں بھید بھاؤ کا شکار نہ ہونگیں۔ تھر میں بچے بھوکے نہ مریں گے۔ شمالی پنجاب کے لوگ لاہور کے دست نگر نہ ہوں گے۔کوئٹہ کی سرد ہواؤں میں اپنوں کے بچھڑنے کا کوئی ماتم نہ ہوگا۔ اہلِ کراچی کے دکھوں کا چارہ گر، تاجر نہ ہوگا۔ غم، آنسو، درد، جذبہ اور لگن کاروبار نہ بنایا جائے گا۔ بیماریاں سیاست کاری کے کام نہ آئیں گی۔ کراچی سے کشمور تک کوئی عورت سونا لادے جارہی ہوگی تو اس پر کوئی میلی آنکھ ڈالنے والا نہ ہوگا۔ بیچ میں کوئی عابد ملہی کھڑا نہ ملے گا۔
کرایے کی زبانوں اور قلم کاروں نے نوازشریف کی پونے تین تقاریر سے یہ امید بھی پید اکردی تھی کہ اب کوئی چائنا کٹنگ نہ ہوگی۔ ریاست کی زمین پر قابضین سیاسی چادر اوڑھ کر قبضے نہ کرسکیں گے۔ کوئی کھوکھر پیلس نہ ہوگا۔ فارم ہاؤسز کے دور لد جائیں گے۔ وراثت کی کھکھیڑوں میں زمینیں ہتھیانے کا کھیل اب ختم ہوجائے گا۔ دو فوجی مناصب پر فائز شخصیات کے نام لیے جائیں تو بس سیاست عسکری دباؤ سے آزاد ہو جائے گی۔ راوی چین ہی چین لکھے گا۔چنانچہ سلیکٹڈ حکومت کے خلاف گالی گفتار کے ساتھ سلیکٹرز کے ساتھ”گرم گفتار“ تقاریر کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ یہاں تک کہ راولپنڈی کی جانب لانگ مارچ کا رخ کرنے کے عالمانہ اعلان نے بھی خوب داد سمیٹی۔ مگر یہ کیا؟ ابھی تک پی ڈی ایم کے الزامات یہ تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پیچھے سلیکٹرز ہیں۔ فوجی ترجمان اس الزام کی وضاحت فرماتے تھے۔ اب فوجی ترجمان یہ وضاحت کررہے ہیں کہ ”پی ڈی ایم سے کسی قسم کے بیک ڈور رابطے استعمال نہیں کیے جارہے“۔مولانا فضل الرحمان نے تو اعلان فرمادیا کہ”ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں۔ اس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے“۔اب ایک تقریر نوازشریف صاحب بھی فرمائیں کہ اُن پر بیک ڈور رابطوں کا الزام کیوں عائد ہورہا ہے؟ اور فوجی ترجمان وضاحت کیوں فرما رہے ہیں؟ نوازشریف صاحب یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ ایک جماعت کا فوج سے رابطہ ”کیریکٹر ڈھیلا“ کے بمصداق کیوں اور دوسرے کا رابطہ ”راس لیلا“کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا فوجی مناصب پر تنقید اس لیے تھی کہ فوج کو سیاست میں دخیل ہی نہ ہوناچا ہئے یا پھر اس لیے تھی کہ وہ عمران خان کے بجائے اُن کی جانب کیوں نہیں دیکھ رہی؟ یہ جنگ کمبل چھڑانے کی ہے یا پھر کمبل چرانے کی؟کیا عوام یہ سمجھ لیں کہ لاحاصل کی خواہش فضول ہے۔
٭٭٭٭٭