... loading ...
(مہمان کالم)
تھان منٹ یو
میانمار کو ایک بار پھر جمہوریت کی ضرورت ہے۔آزادانہ اور منصفانہ الیکشن اور پھر اس کے نتائج کا احترام بھی ضروری ہے۔یہ سارا سفر اس سوسائٹی کو درپیش ہے جہاں دہائیوں سے آمریت مسلط ہے ‘عالمی تنہائی اور خونریز جھگڑے ہیں ‘اسے نسلی اور مذہبی امتیازی سلوک کا سامنا ہے ‘شدید غربت اور معاشی ناانصافی ہے۔اس سیاسی تبدیلی پر محدود فوکس کا مطلب ہوگا کہ اس ملک کے چون ملین لوگوں پر فوج کا تسلط برقرار رہے۔سوموار کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی سمیت درجنوں سیاسی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب آرمی کمانڈر انچیف کی سربراہی میں ایک نئی حکومت کام کر رہی ہے۔سب سے بڑے شہر ینگون اور دیگر مقامات پر احتجاج کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے جس کے جلد ہی پرتشدد کارروائیوں میں تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
میانمار کی گزشتہ تیس برسوں کی سیاست دراصل فوج او ر نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی میں چل رہی محاذ آرائی ہے۔2010ء میں فوج نے اپنی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں ایک نیا آئین متعارف کرایا تھا۔ایک ایسا آئین جس میں فوج کو بالادستی حاصل ہے مگر ا س کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے ملکی امور چلانے کے لیے آنگ سان سوچی اور پارلیمنٹ کو بھی تھوڑے بہت اختیار حاصل ہوئے۔فوجی قیادت کا خیال تھا کہ سسٹم آنگ سان سوچی کو اپنے کنٹرول میں رکھے گی‘ مگر اس نے عوام میں اس کی سیاسی مقبولیت کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران فوج اور آنگ سان سوچی میں ایک طرح سے اقتدار کی شراکت قائم تھی۔آنگ سان سوچی اور فوجی جنرلز دونوں ہی قدامت پسندانہ‘ نسل پرستانہ قوم پرستی کے نظریات کے حامل ہیں‘مگر آنگ سان سوچی نے اختیارات رفتہ رفتہ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور ایسی آئینی تبدیلی کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں فوج ایک منتخب حکومت کی ماتحتی میں فرائض انجام دے جو فوج کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے جس کا نتیجہ گزشتہ ہفتے کی فوجی بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آگے کیا ہوگا۔فوج کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر ملک میں الیکشن کروائے گی۔اگرچہ آئین کے مطابق فوج کو پارلیمنٹ میں پچیس فیصد نشستیں حاصل ہیں مگر اگلے الیکشن پھر سے آنگ سان سوچی کو زبردست فتح دلائیں گے۔ممکن ہے فوج انہیں سائڈلائن کرنے کے لیے کوئی اور حربہ استعمال کرے‘ مگر یہ بات ان کے لاکھوں سیاسی پیروکاروں کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
صورتحال کچھ بھی ہو ملک میں سیاسی تعطل جاری رہنے کا امکان ہے۔مگر میانمار کسی قسم کے سیاسی تعطل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔جب سے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرکے جانا پڑا ہے تب سے ان کی حالت ِزار میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ان پر ظلم اور تشدد کرنے والے کسی گروہ کا احتساب نہیں ہوا اور ملک میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور ظلم میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ میانمار کے انہی علاقوں میں گزشتہ دو سال سے سرکاری فوج اور مقامی شورش پسندوں ‘ جن کا تعلق راکھائن آرمی سے ہے‘ کے درمیان جنگ جاری ہے (یہ لوگ لوگ ایک بدھ مت راکھائن اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔)اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر جگہوں پر جا کر پناہ لینا پڑی ہے‘ جبکہ ملک کے مشرقی پہاڑی علاقے میں خاص طور پر چین کی سرحد کے ساتھ واقع علاقوں میں درجنوں غیر ریاستی عناصر پر مشتمل گروپ سرکاری فوج کے خلاف بر سر پیکار ہیں(ان میں سب سے بڑا گروپ پچیس ہزار مسلح افراد پر مشتمل ہے)۔یہ سب لوگ یہاں بسنے والی اقلیتی کمیونٹیز کی حفاظت کی جنگ لڑرہے ہیں۔کئی گروپ یہاں کی انٹرنیشنل آئس منشیات انڈسٹری سے بھی منسلک ہیں جو سالانہ ساٹھ ارب ڈالرز کی تجارت کرتی ہے۔
میانمار ایشیا کا غریب ترین ملک بھی ہے جہاں معاشی ناانصافی اپنے عروج پر ہے۔اس کی ساری معیشت کا انحصار روز مرہ استعمال کی اشیا اور غیر ہنر مند افرادی قوت پر ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہلے ہی لاکھوں افراد کو اپنے گھر چھوڑنے پرمجبور کر دیا ہے۔ آنگ سان سوچی کی حکومت نے کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کے دوران زبر دست حکمت عملی کے ذریعے بڑی حد تک نقصان کو کم سے کم سطح پررکھا۔کووڈ کے دوران میانمار کوشدید معاشی تباہی کا سامنا کرناپڑا ہے۔جنوری 2020ء میں دو ڈالر روزانہ کمانے والے افراد کی تعداد جو سولہ فیصد تھی ستمبر 2020ء میں یہ تعداد بڑھ کر 63فیصدتک جا پہنچی ہے۔ان میں سے ایک تہائی کی کوئی آمدنی نہیں ہے۔مسلح شورش اور معاشی ناانصافی کا مطلب ہے کہ میانمار میں لاکھوں افراد انتہائی خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔یہاں جو تھوڑی بہت سیاسی آزادی اور معاشی ترقی نظر آتی ہے وہ فوج اور آنگ سان سوچی کی حکومت کے درمیان پائے جانے والے تعاون کی مرہون منت ہے ‘جنہوں نے مل کر حکومت چلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگرلگتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام زیر حراست سیاسی قیدیوں کو فوری طور پرجیلوں سے رہا کیا جائے اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔تمام عالمی حکومتوںکو چاہئے کہ میانمار کی آمرانہ حکومت کے خلاف ایک مشترکہ موقف اپنائیں تاہم انہیں اس کے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندیاں لگانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ان پابندیوں سے معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے میانمار کے عوام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ا س بحران کی کیفیت میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ میانمار کو درپیش چیلنجز کا سنجیدگی سے ادراک کیا جائے او ریہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مختلف محاذوں پر پیش رفت کے بغیر اسے جمہوریت کی شاہراہ پر دوبارہ گامزن کرنا تقریباًناممکن ہوگا۔اس وقت میانمار میں نسلی امتیاز اور مسلح کشیدگی اپنے عروج پرہے۔ملک معاشی ناانصافی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اس وقت بیرونی دنیا میانمار کی صرف اسی طرح مدد کر سکتی ہے کہ غربت کی چکی میں پسے عوام کی زندگی اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے اگر ہم میانمار میں سماجی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی لانے کے لیے ایک وسیع تر تناظر پر مبنی حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ایک غربت اور معاشی دلدل میں پھنسے ہوئے ملک میں‘جو ایک مسلح جنگ کی لپیٹ میں بھی ہے‘ افلاس کا نتیجہ سوائے جمہوریت کے خاتمے کے کچھ اور نہیں نکل سکتا۔اب مقصد وہاں ایک ہائبرڈ قسم کے ا?ئین کا نفا ذ نہیں ہونا چاہئے بلکہ میانمار کے عوام کے لیے ایک منصفانہ اور جمہوری معاشرہ قائم کرنے پر توجہ دیناہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔