... loading ...
(مہمان کالم)
ایملی شمل
ہزاروں بھارتی کسان اپنے ٹریکٹروں پر سوار ہر رکاوٹ کوروندتے ہوئے دہلی پہنچے تو انہیں پولیس کے شدید لاٹھی چارج اور ا?نسو گیس کا سامنا کرنا پڑا تاکہ بھارتی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتِ حال کو کنٹرول کیا جا سکے۔نئی دہلی مکمل محاصرے میں تھا جہاں انٹر نیٹ تک رسائی بھی ممکن نہیں تھی۔دو ماہ سے پرامن احتجاج جاری تھا مگر یہ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف سب سے زیادہ پر تشدد مظاہر ہ تھا۔مودی حکومت کسانوں کوان قوانین میں کسی حد تک رعایتیں دینے کی آفر کر رہی تھی جن کا مقصد زرعی شعبے کی اوور ہالنگ کرنا تھامگر کسان ان قوانین کی مکمل منسوخی سے کم پر کسی صورت راضی نہیں تھے۔ستمبر میں مودی حکومت نے جو قوانین متعارف کرائے تھے کسانوں کے نزدیک ان کی مدد سے کارپوریٹ سیکٹر ان کی زمینیں ہڑپ کر جائے گا۔
منگل کے دن احتجاج اس وقت بے قابو ہو گیا جب بھارت کا یوم جمہوریہ منایا جا رہا تھا۔ معاشی بدحالی اورکوویڈ کے ساتھ ساتھ یہ کسان احتجاج مودی کی لیڈر شپ کے لیے ایک بڑ اچیلنج بن کر سامنے آیا۔جب بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہونے والی پریڈ میں نریندر مودی سرخ پگڑی پہنے فضائی مظاہرہ دیکھ رہے تھے تو ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹروں پر سوار ہو کر راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑتے ہوئے دہلی شہر کے مرکز کی طرف رواں دواں تھے۔ شام تک ایک شخص مارا گیا اور شہر کے کئی حصے ہنگاموں کی نذر ہو چکے تھے۔کسان لیڈر جنہوں نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ان کا احتجاج پر امن رہے اپنا کنٹرول کھو بیٹھے تھے اور تشدد سے بچنے کے لیے اب دور کھڑے اس مظاہرے کا نظارہ کر رہے تھے۔پھر انہوں نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے کیمپ سائٹس پر پہنچ جائیں جہاں وہ دو مہینے سے قابض ہیں۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے 80سے زائد جوان زخمی ہو چکے ہیں۔دہلی پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کسان مظاہرین نے طے شدہ معاہدہ توڑ کر مقررہ وقت سے پہلے اپنا مارچ شروع کر دیااور انہوں نے تشدد اور تباہی کے راستے کا انتخاب کیا۔
نئے قوانین سے متعلق حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں مگر مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔جس دن تمام نظریں نئی دہلی میں ہونے والی پریڈ پر مرکوز تھیں کسانوں نے مارچ کے لیے اسی دن کاانتخاب کیا۔کسان اس دن اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پرتلے ہوئے تھے۔منگل کی شام پورے شہر میں ہنگامے ہورہے تھے۔ کسانوں اور پولیس میں تصادم جاری تھا۔یہ واضح نہیں ہو رہا تھا کہ کیا کسان اپنے احتجاج میں پر عزم ہیں یا کمزور پڑ گئے ہیں۔
اب تک ان کی یہ تحریک پورے ملک کے شہریوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میںکامیاب ہو چکی ہے اور ملک بھر سے ہزاروں کسان سخت سردی کے عالم میں نئی دہلی میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ جوں جوںکسانوں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے مودی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ان قوانین کی بعض شقوں میں ترمیم کے لیے تیا رہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان سے زرعی شعبے میں نجی سرمایہ کاری بڑھے گی۔بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ جب تک اس کا احتجاجی مظاہرین کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو جاتا ان قوانین پر عمل معطل رہے گا‘مگر کسانوں کا ایک ہی مو?قف ہے کہ وہ ان قوانین کی منسوخی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہو ں گے وگرنہ ان کا ٹریکٹر مارچ جاری رہے گا۔حکومت نے سکیورٹی کے نام پر ہائی کورٹ سے مدد لینا چاہی تاکہ کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔منگل کی شام صورت حال کافی کشیدہ تھی۔ ریاستی حکام کا کہنا تھا کہ ان مظاہرین کو بعض شر پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے جو ملک میں تشدد کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ابھی چند ہی دن پہلے کسان رہنما میڈیا کے سامنے ایک ایسے شخص کو پکڑکر لائے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہاہے کہ اسے کسان لیڈروں کو قتل کرنے اور احتجاجی ریلی میں افراتفری پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔تاہم ا?زاد ذرائع سے ان دعوووں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس موقع پر کسان رہنمائوں نے کہا کہ وہ ایک لاکھ پچاس ہزار ٹریکٹروں کی مدد سے اپنا یہ پرامن احتجاج جاری رکھیں گے اور دہلی پولیس کے ساتھ جس روٹ پر اتفاق رائے ہوا ہے تین ہزار رضاکار اس روٹ کی حفاظت کر یں گے۔روٹ کے نقشے سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاجی مظاہرین شہر میں داخل توہو سکتے ہیں مگر انہیں حساس اداروں کی عمارات کے قریب جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔مظاہرین کی قیادت نے اپنے اگلے مرحلے کا بھی اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق وہ پارلیمنٹ تک مارچ کریں گے‘تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا اس کے بعد بھی یہ احتجاج جاری رہے یا نہیں۔ مارچ میں حصہ لینے والوں کے لیے آن لائن ہدایات میں کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار حتیٰ کہ کوئی چھڑی وغیرہ بھی نہ لے کر چلیں اور اشتعال انگیز نعرے بازی اور بینرز لہرانے سے بھی گریز کریں یاد رکھیں کہ مقصد نئی دہلی کو فتح کرنا نہیں بلکہ اس ملک کے عوام کے دلوں کو فتح کرنا ہے۔
تحریک کے ایک بڑے لیڈر بلبیر سنگھ راجیوال کا کہنا تھا کہ اس مارچ کی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ ایک پرامن احتجاج ہے۔میری اپنے کسان بھائیوں‘ نوجوانوں سے التجا ہے کہ وہ اپنی اس تحریک کو پرامن رکھیں۔حکومت طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہے۔ ایجنسیوں نے عوام کو گمراہ کرنا شروع کر دیا ہے۔آپ اس سے آگاہ رہیں۔ اگر ہم پرامن رہے تو ہم جیتیں گے اور اگر ہم تشدد پر اْتر آئے تو مودی جیت جائے گا۔مگر جلد ہی کسانوں کو احساس ہوگیا کہ اب ان کا اس احتجاج پر کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ٹریکٹروںاور مظاہرین کے بڑے بڑے گروپوں نے مقررہ روٹ کو چھوڑ کر آگے بڑھنا شروع کردیا اور پولیس کے مسلح جوانوں پر لاٹھیوں سے حملے شرو ع کردیے۔ وہ شہر کے مرکزی حصے کی طرف بڑھتے رہے۔دہلی پولیس کے کمانڈر نے اپنے جوانوں کو رائفلوں سے مسلح کر رکھا تھا اور ان کی ذمہ داری مرکزی روٹ کی حفاظت کرنا تھا مگر جلد ہی ان کی تعداد کم پڑ گئی اور وہ بالکل بے بس ہو گئے۔کسان تمام رکاوٹیں توڑ کر لال قلعے پرچڑھ گئے جو کبھی مغل بادشاہوں کا مسکن ہو ا کرتا تھا۔انہوں نے سکھ گوردواروں پر لہرایاجانے والا زرد جھنڈا لا ل قلعے پرلہرا دیا۔
مظاہرین کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے تھا جہاںسکھ بڑی اکثریت میں ا?باد ہیں۔ان کے ہاتھوں میں تلواریں ‘خنجر اور کلہاڑے تھے۔یہ سب ہتھیار سکھ مذہب کی علامت کے طو رپر ہر سکھ اپنے ساتھ رکھتا ہے۔اتر پردیش سے آئے ایک کسان ہیپی شرما کا کہنا تھا کہ ہم ایک دفعہ دہلی میں کامیاب ہو گئے تو پھر یہ کالے قوانین منسوخ کرائے بغیر وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ ان کے ٹریکٹر پرلگے بینر پر لکھاتھا ’’مودی چور ہے ‘‘تو ایک کسان بولا کہ نہیں نہیں مودی چور نہیں بلکہ چوروں کا یار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔