... loading ...
بدعنوانی ہمارے ملک کا ہی نہیں یہ ایک ایسا عالمی مسلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے تمام اقوام کوشاں ہیںمگر خاتمہ ہونا تو ایک طرف روزبروز اضافہ ہورہا ہے چین اور شمالی کوریا جہاں بدعنوانی کی سزا موت ہے وہاں بھی خاتمے سرے سے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا مگر سخت ترین سزائوں کی بنا پر کچھ ممالک میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں اب تو ملک پر ایسے حکمران ہیں جنھیں ایماندارہونے کا دعویٰ ہے لیکن ایمانداری کے دعوے ایک طرف عالمی اِدارے تو بدعنوانی میں اضافے کی رپورٹس جاری کر رہے ہیں خرابی کہاں ہے ایماندار حکمرانوں میں یا عالمی اِداروں کے تجزیوں میں ،جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں نت نئی ایجادات اور ترقی کی طرح بدعنوانی کے طریقوںمیں بھی اضافہ ہوگیا ہے یہ ایسا ناسورہے جو وطنِ عزیز میں نچلی سطح سے لیکر اوپر تک سرایت کر چکا ہے ہر حکومت خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ختم ہونا تو درکنارمعمولی سی کمی کے آثار تک نہیں وزیرِ اعظم عمران خان بدعنوانی ختم کرنے کے نعرے پر ہی اقتدار میں آئے ہیں وہ اب بھی خودکو پارساکہتے ہیںاور مخالفین کو بدعنوان کہہ کراُن کی کردار کشی کرتے ہیں لیکن صورتحال نعروں کے برعکس ہے نہ تو معیشت میں بہتری آئی ہے قرضوں جیسے مسائل بدستور موجودہیں اور بدعنوانی پربھی قابونہیں پایاجا سکا موجودہ دور میں بدعنوانی کی ہوشربا داستانیں سُننے میںآرہی ہیں اِس لیے یہ تصور کر لینا کہ دیانتداری کی کہانیاں مبنی بر حقیقت ہیںدل تسلیم کرنے میں تامل کا شکار ہے اِس حوالے سے عمران خان کے دعوئوں پر یقین کرتے ہوئے عام لوگ بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں دلیل کے طورپرٹرانسپیرنسی کی حالیہ روپورٹ ہے جس میں پاکستان میں کرپشن میں اضافے کا تذکرہ ہے جس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ معیشت و دیگر شعبوں کی طرح حکومت بدعنوانی کے خاتمے میں بھی ناکامی سے دوچار ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک ایسی عالمی تنظیم ہے جو درجن کے قریب عالمی اِداروں کے تعاون سے ہر سال شفافیت کا جائزہ پیش کرتی ہے تاکہ خامیوں کی نشاندہی کی بدولت اِدارے اور حکومتیں اصلاحِ احوال کر سکیں یہ تنظیم ہر برس اپنے جائزوں میں ایک سو اسی ممالک میں بدعنوانی میں کمی و اضافے کی جائزہ رپورٹ جاری کرتی ہے ٹرانسپیرنسی کا دعویٰ ظاہرکرتا ہے کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کو فروغ مل رہا ہے اِس اِدارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کی درجہ بندی میں پاکستان نے چاردرجے ترقی کی ہے جس کے تحت 120سے بڑھ کر پاکستان کا نمبر124ہوگیا ہے گزشتہ برس اگر سو میں سے 32نمبر تھے تو اب اکتیس رہ گئے ہیں حالانکہ بدامنی کے شکار ملک افغانستان میں بھی بدعنوانی کے حوالے سے کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے جہاں حکومتی رَٹ بہت کمزور ہے مگر پاکستان جہاں دیانتداروں کی حکومت ہے ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ نہ صرف چونکانے کا باعث اور ملک کے ایماندارحکمرانوں کی حقیقت عیاں کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ بوسیدہ نظام کا بھی پردہ چاک کیا ہے پھر بھی اگر دنیا کو بتائیں کہ ہم ایماندار،ہماراوزیراعظم ایماندار تولوگ یقین کرنے کی بجائے شک کی نگاہ سے ہی دیکھیں گے۔
عمران خان نے 2020 کی رپورٹ کے اعدادو شمار 2018یعنی نوازشریف دور کے قرار دیکر مندرجات کو کوشش کی ہے یہ سادہ لوحی یا یا لاعلمی نہیں بلکہ چالاکی ہے رپورٹ پڑھے بغیر ہی جھٹلانایاپھر خفت مٹانے کے لیے سابق حکومت کے دورکے اعداد وشمار کہہ دینے سے دیانتداری کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہے ،تبھی تو لوگوں کی تنقید پرساہیوال جلسے میں رپورٹ پڑھے بغیر تبصرہ کرنا تسلیم کرنا پڑامگر کیا ایسے اطوار کو قابلِ تعریف یا تقلید کہہ سکتے ہیں؟ کسی طور بھی نہیں بلکہ من گھڑت پاکدامنی کی کہانیاں سُنانے سے ساکھ کو نقصان ہوتا ہے اب تو احتسابی عمل کی غیر جانبداری بھی مشکوک دکھائی دینے لگی ہے جو کارکردگی کی بجائے قصے کہانیوں سے بہلانے کی کوشش کرے تو لوگوں میں اُس کی ذہنی سطح کے بارے سوال پیداہونا فطری عمل ہے دیانتداری کے دعوے اپنی جگہ ،زمینی حقائق سے موقف کی تائید نہیں کرتے تلخ سچ یہ ہے کہ رپورٹ مرتب کرتے ہوئے 2019اور2020کے عمیق جائزے کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔
تردید سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے دور کیوں جائیں گزشتہ حکومت کے دوران عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر ایسی رپورٹس جلسوں میں لہراتے اور حکمرانوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہتے کہ مہنگائی بڑھے تو سمجھ لیں حکمران چور ہیں قرضوں میں اضافہ حکمرانوں کے بدعنوان ہونے کی تصدیق ہے اب اُن کی حکومت کا کچاچٹا سامنے آیا ہے تواعدادو شمار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں حالانکہ ٹرانسپیرنسی ایسا اِدراہ ہے جو رپورٹ مرتب کرتے ہوئے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتا ہے جس میں اِدارہ جاتی جائزے،مالی لین دین ،قوانین اور اُن کا نفاز،احتساب کے طریقہ کار سمیت کوئی پہلو نظرانداز نہیں کیا جاتا تب جاکر رپورٹ کو حتمی شکل دی جاتی ہے اتنی جامع رپورٹ کو جھٹلانا سہل نہیں یہ روپرٹ ایماندار ی کے دعویداروں کو جوابدہی کے لیے کٹہرے میں کھڑاکرتی ہے۔
آج کچھ لوگ ٹرانسپیرنسی کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس اِدارے کی ہر بات پر آنکھیں بندکرکے اعتبار کرنے کی روایت عمران خان نے ہی ڈالی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اِس ادارے کوپاکستان میں مقبول بنانے میں اُن کا اہم کردار ہے تو بے جا نہ ہوگا مگر حکمران بھلا کسی کی کب سنتے ہیں اب دیکھ لیں کبھی مسلم لیگ ن اِس اِدارے کی رپورٹس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی تھی لیکن تحریکِ انصاف آنکھیں بند کرکے تصدیق کرتی دکھائی دیتی آج مسلم لیگ ن ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے حکومت کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہے لیکن کل تک آنکھیں بند کرکے تصدیق کرنے والی تحریکِ انصاف جھٹلا رہی ہے یہ دُہرا معیار ہے وقت بھی کیا رنگ دکھاتا ہے پارسائی کے دعوے دار وں کو صفائی دینا پڑرہی ہے اور کبھی جھوٹے سمجھے والے بڑھ چڑھ کر تصدیق کرتے نظر آتے ہیں خیر ایسی رپورٹس عالمی اِدارے کیوں نہ جاری کریں جب ملک کا حکمران کرپشن کی دولت تلاش کرنے کا معاہدہ کرے لیکن سیاسی حمایت کے بدلے خود ہی معاہدے سے دستبردار ہوجائے وہاں کرپشن پر قابو بہت مشکل ہے ۔
جس ملک کا وزیرِ اعظم اپنے سوا سب کو بدعنوان کہے ،سینٹ کے انتخابات کے لیے ریٹ لگنے کا نکشاف کرے لیکن نام بتانے اور احتساب سے پرہیز کرے تو عالمی اِدارے بدعنوانی کا پیغام ہی لیتے ہیں جس کا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں زکر کیا ہے اور ہاں جس ملک میں شوگر مافیااِتنا طاقتور ہو کہ جب چاہے نرخ بڑھا لے مگر حکومت انکوائری کرانے کے سوا کچھ نہ کر سکے جہاں نرخ کم ہونے پرپٹرول ہی نایاب ہو جائے اور پھر حکومت کولُٹیروں کا ساتھ دیتے ہوئے مجبوراََقیمت میں اضافہ کرنا پڑے اِ ن حالات میں کون اچھا تاثر لے گا جس ملک میں حکومت اتنی کمزور اور بے بس ہو کہ آٹے کے نرخ بھی کنٹرول کرنے سے قاصرہواُس کی کون تعریف وتوصیف کرسکتا ہے عالمی اِداروں کی ساکھ ہوتی ہے وہ ہمارے وزیروںو مشیروں کی طرح جھوٹی تعریفوں کے پُل نہیں باندھ سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔