وجود

... loading ...

وجود

کراچی کے اپنے

جمعرات 04 فروری 2021 کراچی کے اپنے

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ’’ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے ‘‘۔ مگر یہ آدھا سچ ہے ،پوری سچائی تو یہ ہے کہ کراچی میں حکمرانی کرنے والے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی رہنما نے کراچی کو اپنا سمجھاہی کب ہے؟۔ وزیراعلی سندھ تو خیر سے کراچی کو اس لیے اپنا نہیں سمجھتے کہ کراچی سے انہیں اور ان کی جماعت کو ووٹ ہی نہیں ملتے۔لہٰذا وزیراعلی سندھ کی جانب کراچی کے ساتھ روا رکھے جانے والا ’’سیاسی برتاؤ‘‘ کا غیر منصفانہ رویہ سمجھ میں بھی آتا ہے اور اس جانب دارنہ انتظامی سلوک پر شکوہ بھی نہیں بنتا۔ ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے اہلیانِ کراچی کو ’’سیاسی خیر‘‘ کی کبھی کوئی خاص اُمید رہی بھی نہیں ہے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں کراچی نے گزشتہ قومی انتخابات میں ووٹ دے کر منتخب کروایا اور ایوانِ بالا اور ایونِ زیریں تک پہنچایا،کیا وہ کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں؟۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر اسد عمر اور ان کی جماعت کراچی کو واقعی اپنا سمجھ لیں تو پھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ کراچی کو تعمیر کرنے ،اس کے مکینوں کو آباد اور شاد رکھنے کے بے شمار ایسے انتظامی راستے وفاقی حکومت کو مہیا ہیں ،جن راستوں پر سندھ حکومت کا اسپیڈ بریکر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بس ! ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ آیا تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیے اُن راستوں پر چلنا بھی چاہتی ہے یا نہیں ؟۔

یاد رہے کہ اسد عمر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ہیں لیکن محسوس ایسا ہوتا کہ جیسے کہیں دو ر ،دور تک بھی ان کی منصوبہ بندی میں کراچی کے مسائل کو حل کرنا شامل ہی نہیں ہے۔ جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ہر دو، چار ہفتوں کے بعد موصوف کراچی میں تشریف لاتے ہیں اور یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ’’وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے ‘‘۔ارے بھئی!اہلیانِ کراچی کو بار بار یہ مت بتائیں کہ کراچی کو کون اپنا سمجھتا ہے اور کون نہیں ۔اگر کچھ ثابت ہی کرنا ہے تو چند ایسے کام ضرور کرگزریں، جن سے یہ یقین ہوسکے کہ کم ازکم آپ تو کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے انتظامی اپنے پن کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی نے اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ووٹ دیئے تھے تو صر ف اس لیے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی ’’کراچی کش ‘‘ سیاسی پالیسی سے بیزار آئے ہوئے تھے اور انہیں قوی اُمید تھی کہ عمران خان گزشتہ چالیس برسوںمیں کراچی پر لگائے گئے سیاسی زخموں کا مداوا ضرور فرمائیںگے۔لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ اسد عمرپچھلے دو برسوں سے مسلسل یہ’’سیاسی راگ‘‘ تو ضرور الاپ رہے ہیں کہ سندھ حکومت کراچی کے ساتھ سیاسی و انتظامی زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب شہر کراچی کو سیاسی و انتظامی طور پر چھوڑا ہو ا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کراچی کے ساتھ ہونے والی ہر سیاسی و انتظامی زخم کا علاج فقط ’’منہ زبانی ‘‘کرنا چاہتے ہیں ۔تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جتنا زیادہ وقت کراچی پر بیانات دینے میں ضائع کیا ہے اگر اس سے آدھا وقت بھی وہ ’’سیاسی اخلاص‘‘ کے ساتھ کراچی کے مسائل حل کرنے میں لگاتے تو اَب تک شہر کے آدھے مسائل مکمل طور پر نہ سہی تو کم ازکم جزوی طور پر تو ضرور حل ہی ہوجانے تھے۔

درحقیقت اہلیان ِ کراچی کو اسد عمر سے کچھ زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ کراچی کونسا اُن کا حلقہ انتخاب ہے ۔ مقامِ افسوس تو یہ ہے کراچی جس کا حلقہ انتخاب ہے ،ا ُسے بھی اس شہر کی بدحالی کی کوئی خاص فکر اور پرواہ نہیں ہے ۔ جی ہاں! آپ درست سمجھے ہماری مراد صدر مملکت پاکستان جناب عارف علوی سے ہے۔یاد رہے کہ یہ تحریک انصاف کراچی کے وہی متحرک،ولولہ انگیز اور انقلابی رہنما ہیں جن کا ایک زمانہ میں دعوی ہوا کرتا تھا کہ’’ وہ تو سیاست میں آئے ہی فقط کراچی کے حالات کو بدلنے کے لیے ہیں ‘‘۔مگر صدر مملکت بننے کے بعد جس بے رخی اور تیزرفتاری سے انہوں نے خود کو بدل کر کراچی سے نگاہیں پھیری ہیں ،ایسی ’’سیاسی اجنبیت ‘‘ کا مظاہر ہ تو سابق صدرِ مملکت جناب ممنون حسین نے بھی نہیں کیا تھا۔اگر چاہتے تو عارف علوی بطور صدر مملکت اپنے شہر کراچی کی سیاسی و انتظامی بہتری کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے بلکہ کرسکتے ہیں ،لیکن انہیں بھی اسلام آباد کی ’’سیاسی فضا‘‘ایسی راس آئی کہ شاید اَب انہیں یاد بھی نہ رہا ہو کہ وہ ایوانِ صدر میں جن بے خانماں لوگوں کے ووٹوں کے بل بوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ وہ بدنصیب افراد کراچی میں کبھی بارش کے پانی میں ڈبوئے جارہے ہیں اور کبھی سیاسی تعصب کی چکی میں بے رحمی کے ساتھ پیسے جارہے ہیں ۔جبکہ اُن کا سیاسی رہنما عارف علوی، صدر مملکت کا چولا پہن کر اسلام آباد میں سکھ چین کی بانسری بجارہاہے۔

شاید کراچی کی سیاسی فضا ہی میں بدنصیبی کی آمیزش حد سے زیادہ شامل ہوئی ہوئی ہے ،جب ہی تو اہلیانِ کراچی کو کبھی الطاف سے لطف وکرم نہیں ملتا، ممنون حسین سے’’سیاسی ممنونیت ‘‘ نہیں ملتی ،عارف علوی سے ’’انتظامی معرفت‘‘ دستیاب نہیں ہوتی اور مرادعلی شاہ سے وابستہ کوئی ’’ مراد‘‘پوری نہیں ہو پاتی ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کراچی سب کا ہے ،مگر کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔کراچی سب کے مسائل حل کرتا ہے لیکن کراچی کے مسائل کوئی حل نہیں کرنا چاہتا۔ کراچی سب کے بارے میں سوچتا ہے مگر کراچی کے متعلق سوچنے کی کسی کے پاس بھی فرصت نہیں ہے ۔کراچی شہر کے تما م نام نہاد’’ اپنے رہنما ‘‘ صرف اُس وقت تک کراچی کے ساتھ ’’سیاسی اپنائیت ‘‘ کا اظہار کرتے ہیں جب تک کہ کراچی اُنہیں کسی بلند و بالاتر سیاسی و انتظامی مقام پر نہیں پہنچادیتا۔ پھراُس کے بعد کراچی کے سارے اپنے ’’سپنے ‘‘ ہوجاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر