... loading ...
جو بائیڈن نے امریکی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ کے جس واحد اقدام کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا وہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے تسلیم کرنے کا ہے، باقی سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے تمام اقدامات کو ریورس گیر لگا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کو لائی ہی اسی ایک مقصد کے لیے تھی کہ اس کی لاابالی طبیعت سے فائدہ اٹھاکر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صہیونی دارالحکومت تسلیم کرائے اورامریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیا جائے اس کے بعد آنے والی نئی امریکی انتظامیہ چاہتے ہوئے بھی اس سے رجوع نہیں کر سکے گی۔اب جبکہ یہ کام ہوچکا تھااس لیے ٹرمپ امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کے لیے فائدے سے زیادہ خطرناک تھا کیونکہ وہ سفید فام نسلی رجحان کی وجہ سے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے کے لیے جلد از جلد بیرونی جنگیں ختم کرکے انہیں واپس لا رہا تھا۔ امریکا کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ اس سے سخت پریشان تھی کیونکہ امریکامیں موجود صہیونی اشرافیہ کی سب سے بڑی دکان ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی فروخت ہے اگر دنیا میں امن قائم ہوجائے اور امریکی فوجیں بھی خارجی جارحیت کے ماحول سے نکل مشرق وسطی اور افغانستان سے واپس آنا شروع ہوجائیں تو ہتھیاروں کی یہ امریکی دکان بند ہوجائے گی بالکل اسی مثال کی طرح کہ اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بائیڈن کی ٹیم میں ستر فیصد ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں امریکا کا صہیونی ملٹری کمپلیکس حمایت کرتا ہے۔
بائیڈن جس وقت اقتدار میں آیا تھا تو اس نے ایک ٹویٹ کی تھی کہAmerica is going to be back in the gameیعنی ’’امریکا اب کھیل میں واپس آئے گا‘‘کونسا کھیل؟ وہی کھیل جو ٹرمپ کے آنے سے پہلے افغانستان ، مشرق وسطی، جنوبی ایشیا اور دیگر خطوں میں جاری تھا۔اس حوالے سے بائیڈن کی جو معصوم اور شفقت سے بھرپور شخصیت نظر آتی ہے درحقیقت یہ دنیا کو خصوصا عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے حقیقت میں انتہائی سفاک لوگ ہیں 78سالہ بائیڈن کو وائٹ ہائوس میں لانے کا بڑا مقصد ہی یہ تھا کہ اس کی کمان میں موجود کلنٹن اور اوباما کی انتظامیہ کو اکھٹا کرکے دنیا خصوصا مشرق وسطی اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کو ایک مرتبہ پھر میدان کارزار بنایا جائے ۔ اس وقت مشرق وسطی میں شام اور جنوبی ایشیا میں خاص طور پر افغانستان ان کا اہم ہدف ہیں ۔ ایران کے ساتھ ٹرمپ کے دور کا منسوخ شدہ معاہدہ بائیڈن ایک مرتبہ پھر زندہ کرنے کا اعلان کرچکا ہے تو دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کو موخر کرنے کا اعلان ہے ایسا سب کچھ کیوں کیا جارہا ہے؟ بائیڈن کا وزیر خارجہ انٹونی جان بلنکن اس سے پہلے یہ مختلف ملکوں میں سفارتی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکا ہے یہ 2013سے 2015تک ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر رہا ہے جبکہ 2015سے 2017تک صدر باراک اوباما کے دور صدارت میں نائب وزیر خارجہ بھی رہا ہے۔بلنکن 16اپریل 1962میں نیویارک کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا تھا اس کا باپ ڈونالڈ بلنکن ہنگری میں امریکا کا سفیر رہا ہے۔ یہ وہی بلنکن ہے جس نے پاکستانی وزیر کارجہ شاہ محمود قریشی کو فون کرکے عمر شیخ کی عدالتی رہائی پر اعتراض کیا ہے۔ بائیڈن کی موجودہ کابینہ میں اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر سمیت اس وقت دس امریکی وزیر باقاعدہ یہودی ہیں ویسے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ امریکا باقاعدہ ایک صہیونی ریاست ہے باراک اوباما کے دور میں بائیڈن نے امریکاکی یہودی لابی میں ایپکAIPAC میں بیان دیتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ’’وہ صہیونی ہے‘‘۔ اسی بائیڈن کا وزیر خارجہ انٹونی بلنکن وہ شخص ہے جس نے پہلے عراق پر اوربعد میں لیبیا پر حملے کی پرزور حمایت کی تھی۔قذافی کا لیبیا خطے میں سب سے پرسکون ملک شمار کیا جاتا تھا کسی کو اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا یہاں کے عوام کو حکومت کی جانب سے جو سہولیات میسر تھیں ایک عام عرب ملک کے باشندے اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے جہاں تک اسلامی تحریکوں کا سوال ہے تو قذافی خود ان کا سب سے بڑا دشمن تھا اور اس نے اپنے ہاں ان تحریکوں کا جس انداز میں قلع قمع کیا تھا وہ ایک طویل تاریخ ہے اس لیے اس پر انتہا پسندوں کی پشت پناہی کا الزام بھی عاید نہیں کیا جاسکتا تھالیکن اس کے باوجود اسے امریکا اور فرانس کی جانب سے نشانہ بنایاگیا۔ اس ساری تحریک میں اس وقت موجودہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا بھی کردار تھا۔
دوسری جانب اب یہ حقیقت اب پوری طرح عیاں ہوچکی ہے کہ امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیل کے ایما پر ہی ایران کو شام تک رسائی دی گئی تھی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں اس وقت تک اسرائیل کی خطے میں بالادستی قائم نہیں ہوسکتی جب تک عراق، شام اور اردن کو خاک اور خون میں نہ لوٹا دیا جائے اسی لیے اس سارے کام کے لیے ایران کو شام تک راستہ دیا گیا اور اس جنگ کوشیعہ اور سنی جنگ سے موسوم کردیا گیا حالانکہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں تھی بالکہ اسے شیعہ سنی جنگ کے نام پر لڑا جارہا ہے تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر تباہی اور بربادی سے دوچارہوجائیں اور اسرائیل کا راستہ صاف ہوسکے۔عرب صحافتی ذرائع کے مطابق ٹرمپ کے جانے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر شمال مشرقی عراق کی جانب سے امریکی فوجی دستے شام پہنچائے جارہے ہیںجو ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہے کیونکہ امریکا اور اسرائیل ہمیشہ سے ماضی میں شمالی عراق اور شمالی شام کے کردوں کی عراق اور ترکی کے خلاف سیاسی اور عملی مدد کرتے رہے ہیں صدام دور میں جو بھی بغاوتیں ہوتی تھیں یہیں سے امریکااور اسرائیل انہیں خفیہ عسکری امداد دیا کرتے تھے لیکن جب انہی کردوں کو راستے سے ہٹانے کا وقت قریب آیا تو امریکااور اسرائیل نے مل کر داعش نامی دہشت گرد تنظیم تشکیل دے کر اسے میدان میں اتار دیا وہ کیاکچھ کرتی رہی وہ سب کے سامنے ہے۔
عالمی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کی اسٹریٹیجک یہ تھی کہ ایران کو عراق اور شام میں فری ہینڈ دیکر اسے پراکسی وار میں الجھا دیا جائے یقینا جب ایران عراق، شام اور یمن میں اپنی پراکسیوں کو استعمال کرے گا تو اس سے اس کی معیشت پر دباو بڑھنا شروع ہوگا دوسری جانب اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ کا روپ دے کر سنی جہادی تحریکوں کو کمزور کر دیا جائے تاکہ یہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ ہی نہ کرسکیں، دوسری جانب ایران کی اسرائیل کی جانب فرنٹ لائن حزب اللہ بھی شام میں الجھ جائے گی جس سے اسرائیل کا شمالی بارڈر محفوظ ہوجائے گا اور جب آخر میں ایران پر ضرب لگانے کا وقت آئے گا تو ایران معاشی اور طور پر بہت کمزور ہوچکا ہو گا اس لیے ایران کو جھکانا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔
ان تمام باتوں کے تناظر میں اب ہونے کیا جارہا ہے ؟ بائیڈن انتظامیہ اپنے اسلحہ ساز کارخانوں کی بھٹیاں گرم رکھنے کے لیے مشرق وسطی اور افغانستان میں بڑی جنگ کا الائو روشن کرنے جارہی ہے، پاکستان پر عمر شیخ کے عدالتی فیصلے کی مذمت کرنے کے بعد اب دیگر معاملات میںبھی اس پر ڈومور کا مطالبہ زور پکڑے گا، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ بھارت میں مودی سرکار کو اس کی پالیسیوں کی وجہ سے نظر انداز کردے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے گھیرائو کے لیے امریکا اور اسرائیل کی فرنٹ لائن ہے۔ ترکی کو شمالی شام میں الجھاکر فرانس کی حمایت سے یونان کے ذریعے بحیرہ روم میں ترکی کے آگے بند باندھا جائے گا۔ پاکستان میں اگر داخلی سیاسی، صحافتی اور کرپٹ مافیا کو لگام دیکر اس نظام سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل نہ کیا گیا تو وطن عزیز کے لیے بڑی مشکلات سر اٹھا سکتی ہیں۔ بڑی جنگ دروازے پر دستک دے رہی ہے افغانستان کا میدان کارزار پھر سے گرم ہوا چاہتا ہے۔ زلمے خلیل زاد امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھا جس نے امن مذاکرات میں جان بوجھ کر سستی سے کام لیکر پاکستان کی خطے میں امن کوششوں اور ٹرمپ کا عسکری واپسی کا سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔