... loading ...
(مہمان کالم)
میشل گولڈبرگ
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے کورونا ویکسین کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر وعدے کر لیے تھے۔ نومبر میں ان کے انسانی خدمات اور صحت کے وزیر نے اعلان کیا تھا کہ 2020ء کے آخر تک کورونا ویکسین کی چار کروڑ خوراکیں دستیاب ہوں گی۔ 2020 کو رخصت ہوئے بھی اب ایک مہینے سے ہو چکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود بھی اس عرصے میں دس کروڑ سے زائد ویکسین خوراکوں کا وعدہ کیا تھا۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے جو کچھ کہا تھا وہ محض اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے تھا جس کا مقصد اس جھوٹے تاثرکو فروغ دینا تھا کہ کورونا وائرس اب اپنے آخری دموں پر ہے۔ اب اس حوالے سے ایک عمومی اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا ہے کہ نومنتخب صدر جو بائیڈن کی حکومت نے ٹرمپ حکومت کے بالکل برعکس طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک شہ سرخی میں کہا گیا ’’ وعدے کم، کام زیادہ‘‘۔
جب دسمبر میں جو بائیڈن نے ایک سو دنوں کے اندر اندر دس کروڑ ویکسین خوراکوں کا وعدہ کیا تھا تو کئی ماہرین کا خیال تھا کہ شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے مگر آج کل جبکہ امریکا میں پہلے ہی دس لاکھ سے زائد افراد کو روزانہ کورونا ویکسین لگائی جا رہی ہے تو یہ تعداد بڑی حد تک ایک ممکن ہدف لگتی ہے۔ جو بائیڈن گزشتہ پیر کو یہ اعتراف بھی کرتے دکھائی دیے جب انہوں نے رپورٹر زکو بتایا کہ امریکا اگلے ایک سو دن میں پندرہ کروڑ سے زائد کورونا ویکسین کی خوراکیں تیار کر لے گا؛ تاہم یہ بھی کافی نہیں ہوں گی۔ کووڈ نے اشرافیہ کے ہر فرد کو ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے جس کے وہ عادی نہیں تھے اور انہیں ایسی توقع بھی نہیں تھی۔میں سیاست کے بارے میں ہمیشہ یہی سوچ رکھتی ہوں کہ حکومت کو عوام کے لیے کیا کچھ کرنا چاہئے۔ اور اب دوسرے لاکھوں‘ کروڑوں افراد کی طرح میں بھی اپنی فیملی کے افراد کی صحت کے لیے اپنی حکومت پر سخت نظر رکھے ہوئے ہوں۔ (میں خود کو ہمیشہ ایک شائستہ اور مدبر انسان سمجھا کرتی تھی مگر ابھی تک مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اپنے والدین کو کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے لیے وقت اور تاریخ کہاں سے لوں)
جب میں ان معاملات سے متعلق تھوڑا بہت ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہوں جن کا ماضی میں میرے ساتھ کوئی سروکار ہی نہیں تھا‘ مثلاً لو ڈیڈ سپیس سرنجیں (Low dead space syringes) وغیرہ کہاں سے ملیں گی؛ تاہم اب میں خوف کے عالم میں لوگوں کو کووڈ کی علامات کو انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہوئے یا بایوپسی کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے دیکھتی ہوں‘ جب میں کورونا ویکسین کی خبروں میں اپنی دلچسپی کا عالم دیکھتی ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ امریکا نے اتنی کم تعداد میں ویکسین خوراکوں کی تیاری کا ہدف کیوں بنا رکھا ہے۔
فائزر اور ماڈرنا‘ یہ دو ایسی کمپنیاں ہیں جنہیں ہنگامی استعمال کے لیے ویکسین بنانے کا اختیار دیا گیا ہے اور انہوں نے امریکی حکومت کے ساتھ مارچ کے مہینے تک بیس کروڑ خوراکیں بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے جو دس کروڑ امریکی شہریوں کی ضرورت کے لیے کافی ہوں گی۔ برائون یونیورسٹی ا سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈین ڈاکٹر اشیش جا نے مجھے بتایا تھا کہ وہ دونوں کمپنیوں کے متعلقہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان سب کا ایک ہی موقف ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر اپنا ویکسین کی فراہمی کا یہ وعدہ نبھانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے بتایا ’’جہاں تک ویکسین کی پیداوار کا تعلق ہے‘ اس وقت ہم بیس لاکھ خوراکیں روزانہ بنا رہے ہیں‘‘ اور ہم یقینا روزانہ یہ ویکسین بیس لاکھ افراد کے بازوئوں میں لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر اس دعوے میں حقیقت موجود ہے تو پھر پریشان ہونے یا مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ موجود حکومت منصبِ اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر اندر اپنے عوام کی توقعات کو اتنی بلندی تک نہیں لے جانا چاہتی‘ خاص طور پر ان حالات میں جب سابق ٹرمپ حکومت عوام میں بہت زیادہ کنفیوژن چھوڑ کر گئی ہے۔سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی نئی ڈائریکٹر ڈاکٹر راکیل ویلنسکی نے اتوار کو فاکس نیوز کو بتایا ’’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتی کہ اس وقت ہمار ے پاس کتنی ویکسین موجود ہے اور اگر یہ بات میں آپ کو نہیں بتا سکتی تو میں گورنرز اور صحت عامہ کے ریاستی حکام کو یہ بات کیسے کہہ سکتی ہوں‘‘۔
اس سے قبل کہ حکومت راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کا سدباب کر سکے‘ یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ رکاوٹیں سسٹم میں کہاں کہاں موجود ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لیے اور زیادہ بڑے اہداف کی ضرورت ہے کیونکہ دس کروڑ افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں ویکسین کی دوسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔ جو بائیڈن کی حکومت کے وعدے کا مطلب یہ ہے کہ اپریل کے آخر تک صرف 67 ملین امریکی شہریوں کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔ خاص طور پر جب کورونا کی زیادہ مہلک شکلیں سامنے آ رہی ہیں تو اتنی کم تعداد امید کے بجائے مایوسی پھیلانے کا باعث بنے گی۔ ڈاکٹر اشیش جا کہتے ہیں ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اس سے زیادہ اقدامات کرے‘‘۔
بلند بانگ دعوں کی طرح کم انتظامات کے وعدے بھی لوگوں میں چڑچڑا پن، مایوسی اور ناامیدی پیدا کریں گے اور لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ بائیڈن حکومت جو بھی انتظامات کرے‘ قدامت پسند طبقے ان پر تنقید ہی کریں گے؛ تاہم اگر آپ اس حکومت کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں تو سرکاری بیانات کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے خاصی مایوسی ہوتی ہے۔جو بائیڈن کے نئے اعداد و شمار دینے اور منصبِِ صدارت سنبھالنے سے کچھ ہی دن پہلے ڈاکٹر اشیش جا نے بتایا تھا ’’میرا اندازہ یہ ہے کہ اب جبکہ ان کی حکومت بننے والی ہے اور وہ کووڈ سے نمٹنے کی تیاری میں مصروف ہیں‘ وہ یہ تخمینے لگا رہے ہیں کہ ہمارے پاس کس قدر ویکسین دستیاب ہے اور اس کی تقسیم میں ہمیں کہاں کہاں قلت کا سامنا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے اندازے سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے‘‘۔
جسے صحت عامہ کی ذرہ برابر بھی پروا ہے وہ ایسی حکومت کی واپسی نہیں چاہتا جو محض مثبت اندازِ فکر پر ہی انحصار کرتی ہو بلکہ ہم اپنی حکومت سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ موجودہ خطرناک حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے بھرپور لائحہ عمل کے ساتھ اس صورتِ حال کا سامنا کرے۔ ڈاکٹر اشیش کا کہنا ہے ’’اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو حوصلہ دینا بہت ضروری ہے ورنہ میں بہت زیادہ مایوسی پھیلتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ شاید حکومت ہمیں یہ بھی نہ بتا سکے کہ وہ کب ویکسین کی بیس لاکھ خوراکیں روزانہ حاصل کرنے کے قابل ہو گی؟ مگر حکومت کو چاہئے کہ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کے ہنگامی اقدامات کرے کیونکہ میرے جیسے لوگ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔a