... loading ...
ماضی میں ایک بات تواتر سے کہی جاتی رہی ہے کہ انسان ہی انسانوںکا دشمن ہے حالانکہ دنیا میں بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے گراںقدرکام ہواہے جس کے نتیجہ میں بہت سی مفید ایجادات ہوئیں ،بیماریوںکی ویکسین بنائی گئی، طبی سہولیات میں بیش بہااضافہ ہوا،سماجی بھلائی اور آرام وسکون کے لیے بے انتہا آسائشیں مہیاکی گئیں یہ سلسلہ آج تلک دراز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانوںنے انسانوںکی بربادی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی انسانی حقوق کے عالمی چمپئن امریکانے جاپانی شہروں ناگاساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم برساکر لاکھوںافرادکو موت کے گھاٹ اتاردیا صرف اسی پر اکتفانہیں ہوا بلکہ نت نئے ہتھیار بنائے گئے ان میں ایک خوفناک ہتھیارکلسٹر بم بھی شامل ہے اکثرلوگ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ آخر یہ کلسٹر بم کسے کہتے ہیں؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟
جرمنی کے شہر ڈبلن میں 2008 میں منظور ہونے والے کنونشن کے تحت کلسٹر بموں کی تیاری، ذخیرہ کرنے، منتقلی اور استعمال پر پابندی عائد ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔کلسٹر بم، بموں کی ایک ایسی قسم ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے مزید بم ہوتے ہیں، اس بم کے استعمال سے اس سے نکلنے والے مزید چھوٹے بم وسیع علاقے میں جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ ایک کلسٹر بم کے اندر 2000 ہزار تک چھوٹے بم موجود ہو سکتے ہیں اس لیے یہ انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں محض ایک کلسٹر بم میلوں پھیلے شہرکو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے اگر اس میں آکسیجن کو ساکت کردینے والا عنصربھی شامل کردیا جائے تو جہاں جہاں ہوا پہنچے کی اس کے تابکاری اثرات موت پھیلاتے چلے جائیں گے اس لحاظ سے کلسٹر بم کا شمارکیمیائی ہتھیاروںمیں بھی کیاجاسکتاہے تاریخ بتاتی ہے کہ کلسٹر بموں کا استعمال 1940 ء کی دہائی میں شروع ہوا اور عام شہری آبادی نے اس مہلک بارود کے استعمال کی قیمت چکائی اور ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے حالانکہ یہ کلسٹر بم ابتدائی شکل میں کم طاقتور تھے جس سے اس کی خوفناک تباہی کا اندزہ لگایا جاسکتاہے جس پرانٹرنیشنل ریڈ کراس نے بے گناہوں کے اس بھاری جانی نقصان پر بارہا تشویش کا اظہار کیا اور 2000 میں اقوام عالم سے یہ سفاکی روکنے اور اس سلسلے میں بات چیت کی اپیل کی۔ تقریباً 7 سال بعد ناروے نے کلسٹر بموں کا استعمال روکنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اسے ‘اوسلو پراسس’ کا نام دیا گیا۔ اس کوشش کا مقصد مہلک ہتھیار کی تیاری، منتقلی اور استعمال روکنے کے لیے بین الاقوامی معاہدہ کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے لیما، ویانا، ویلنگٹن اور مختلف براعظموں میں علاقائی اجلاسوں کے بعد 3 مئی 2008 ء کو جرمنی کے شہر ڈبلن میں ‘کنونشن آن کلسٹر امیونیشنز’ منظور ہوا۔
اس کانفرنس میں 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی تھی مگریقین سے کہاجاسکتاہے کہ انسانیت کو صرف کلسٹر بم سے ہی خطرہ نہیں بلکہ ہر مہلک ہتھیار بھی خطرناک ہے اس لیے پوری دنیاکو مہلک ہتھیاروں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ا قوام ِ متحدہ فوری طور پر نئے نئے ہتھیار بنانے پر پابندی لگانے کااعلان کرے انسانوںکے امن وسکون کے لیے دنیا کو ہتھیارفری قرار دینا ہی مسئلہ کااصل حل ہے لیکن کہاجاتاہے کہ یہ بڑی عالمی طاقتوں کی مرضی ہے کہ وہ کب اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرگزرے اس لیے عالمی طاقتوںکی بدمعاشی سے (جیسے جارحیت کا نام بھی دیا جاسکتاہے) انسانیت کو انتہائی خطرہ ہے خوفناک بات یہ ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں کسی معاہدے کااحترام نہیں کرتیں اور اس سے بھی بڑی خوفناک بات یہ ہے کہ اقوام ِ متحدہ ان عالمی طاقتوںکے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے جب عراق میں صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹاگیاتو امریکا نے الزام لگایا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارہیں حالانکہ صدر صدام حسین نے اس سے کئی بارانکارکیالیکن اتحادی ممالک نے ایک نہ سنی جب انہوںنے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بم برسا برساکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اسے کھنڈر بنادیا تو پینٹاگون نے ایک پھسپھسا سابیان دیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارنہیں ملے ایک بے بنیاد الزام لگاکر ایک کروڑ سے زائد عراقی شہریوںکو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ان میں سے جو زندہ ہیں وہ روزانہ موت کی آرزو کرتے ہیں۔ شام،عراق، افغانستان،فلسطین،مقبوضہ کشمیر،بوسینیا،برما،چیچنیا ،بھارت،چین کی مسلم آبادی میں ظلم و بربریت کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے ایک کلسٹر بم پر ہی موقوف نہیں عام ہتھیاروںکو مہلک بناکرجو ستم روا رکھا گیاہے اس کی نظیرنہیں ملتی حقیقت یہ ہے کہ مہلک ہتھیاروں کی ایجادات، پھیلائو اور پابندی عالمی طاقتوںکی خواہشات پرمشتمل ایجنڈے کا نام ہے للتاہے مسلمان حکمران پتلی تماشا دیکھتے دیکھتے سوگئے ہیں اس صورت ِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم ممالک میں اتحاد انتہائی ضروری بلکہ ناگزیرہے اسلامک بلاک ہی انپے مفادات کا تحفظ کرسکتاہے ورنہ اسلامی دنیا یونہی یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔