وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ کے جانے اور جوبائیڈن کے آنے کے بعد۔۔۔!

پیر 01 فروری 2021 ٹرمپ کے جانے اور جوبائیڈن کے آنے کے بعد۔۔۔!

کئی ماہ کے صبر آزما اور سنسنی خیز لمحات کے بعد بالآخر امریکا میں منتقلی اقتدار کا اونٹ اپنی اُلٹی کروٹ پر بیٹھ چکا ہے اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے پرانے مکین ڈونلڈ ٹرمپ کو خاموشی کے ساتھ طویل جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔جبکہ اُن کی جگہ جوزف بائیڈن کو کرسی اقتدار پر متمکن کیئے جانے کا اہم ترین فریضہ بھی خوش اسلوبی سے مکمل کیا جاچکا ہے۔ کیپیٹل ہل واشنگٹن کی راہ داریوںمیں ہونے والی یہ تبدیلی امریکا کے لیے کتنی نفع بخش ثابت ہوگی اور دنیا بھر کے لیے کس طرح سے نیک یا بد سیاسی اثرات کا موجب بنے گی یہ تو اگلے چند برسوں میں معلوم ہوہی جائے گالیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جس انداز میں وائٹ ہاؤس سے بزورِ طاقت بے دخلی عمل میں آئی ہے۔ اُسے دیکھنے کے بعد تو یہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ جو بائیڈن کو ،ٹرمپ انتظامیہ کا ہر نقش کہن کو مٹانے کی بہت زیادہ عجلت ہے اوراگر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جوبائیڈن کی حمایت بدستور جاری رکھی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ٹرمپ انتظامیہ کی تشکیل دی گئی ہر پالیسی کو کوڑے دان کی نذر کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکی اُمورِ سیاست میں یہ ایک بالکل غیر معمولی اور غیرروایتی پیش رفت ہے کیونکہ واشنگٹن کے متعلق ہمیشہ سے دنیا بھر کا عام تاثر یہ ہی رہا ہے کہ ’’اس عالمی شہر اقتدار میں حکمران ضرور بدلتے ہیں، مگر اُن کی بنائی گئی پالیسیاں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں ‘‘۔ لیکن اس مرتبہ معاملاتِ سیاست امریکا میں بھی یکسر مختلف انداز میں چلائے جا رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر دنیا بھر پر حکمرانی کرنے والے نئے چہرے بلکہ یہ نئے مہرے ،پرانی بساط اُلٹ کر ازسرِ نو بساط بچھانے کی تیاری میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی ہم یہ تسلیم کرلیں کہ تاریخ واقعی اپنے آپ کو دہراتی ہے تو پھر یقینا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ امریکا میں بارک حسین اوباما کا دور ِ اقتدار ،امریکی صدر جوزف بائیڈن کی صورت میں واپس آچکا ہے۔

لیکن ہمارے درج بالا جملے سے یہ مطلب اخذ کرنا انتہائی غیر مناسب ہوگا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کے اُمور ِ صدارت کی دیکھ ریکھ سابق امریکی صدر بارک حسین اوباما فرمائیں گے یا اوباما سے ڈکٹیشن لے کر بائیڈن اپنی حکومتی پالیسیاں ترتیب دیاکریں گے۔کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ اگر امریکی سیاست زوال کی اتہاہ گہرائی میں بھی پہنچ جائے ،تب بھی جمہوریت کے ساتھ ایسا مذاق امریکا میں روا نہیں رکھا جائے گا۔لہٰذا ہماری عرض داشت کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ جوبائیڈن ،بارک حسین اوباما کی طرز پر صدارت کرنے کی کوشش کریں گے اور دنیا بھر کے لیے ترتیب دی جانے والی امریکی پالیسیوں کا سلسلہ وہیں سے استوار کرنا چاہیں گے ،جہاں اوباما نے اُدھورا چھوڑا تھا یا یوںسمجھ لیجئے کہ جس مقام پر ٹرمپ انتظامہ نے عالمی امریکی پالیسیوںکو منقطع کیا تھا ، اُنہیں وہیں سے جوڑنے کا بنیادی ہدف جوبائیڈن انتظامہ کا مرکزی چیلنج ہوگا۔ یعنی جوبائیڈن کے اندازِ جہاں بانی کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے اوبامہ دورِ حکومت میں بنائی جانے والی امریکی پالیسوں کا مطالعہ اور مشاہدہ ازحد ضروری ہوگا ۔

ہمارے اس موقف کو تقویت جوبائیڈن کے منتخب کردہ حکومتی ٹیم کے اراکین کا جائزہ لینے سے بھی ملتی ہے ۔دراصل نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں چن چن کر ایسے افراد کا بطور خاص انتخاب کیا ہے جو یا تو براہ راست ماضی میں اوبامہ انتظامیہ کا حصہ رہ چکے ہیں یا پھر بالواسطہ طور پر کسی ایسی این جی ا و ،اور تھنک ٹینک سے منسلک رہے ہیں ،جنہیں اوبامہ کے دورِ صدارت میں امریکی پالیسیوں کے موثر نفاذ کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بظاہر جوبائیڈن نے اپنی حکومتی ٹیم کے انتخاب کے ذریعے یہ ثاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے داعی اور محافظ بن کرسامنے آنا کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن کے آنے والا دورِ صدارت بھی بارک حسین اوبامہ کے دورِ حکومت کی مانند جنگ و جدل اور کشت و خون کے نئے نئے حادثات سے عبارت ہوگا۔

ہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت پر چاہے کتنی ہی کڑی تنقید کیوں نہ کریں ،لیکن کم ازکم ایک کریڈٹ تو اُنہیں ضرور دیا جانا چاہئے کہ انہوںنے اپنے دورِ اقتدار میں امریکا کو کسی نئی عالمی جنگ میں نہیں جھونکا بلکہ اُن کی حتی المقدور کوشش اور کاوش تو آخری دن تک یہ ہی رہی کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے امریکا کو جنگ و جدل کی دلدل سے نکال باہر کیا جائے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انفرادی زندگی میں کتنے بھی جھگڑالو طبیعت کی مالک کیوں نہ واقع ہوئے ہوں لیکن انہوں نے امریکا کو غیرضروری عالمی جنگوں سے نکالنے کے لیے جو غیر اقدامات کیے ،اُن کی مثال امریکی کی پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تو( جیسے کہ اُن کے بارے میں گمان ظاہر کیا جارہاتھا ) اپنے دورِ صدارت کے اختتامی ایام میں کوئی نئی جنگ چھیڑ کر امریکی انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بناسکتے تھے لیکن انہوں نے دنیا کو ڈرایا ،دھمکایا تو بہت، مگر عملی طور پر عالمی سطح پر امریکا کو کسی بھی جنگ کا ایندھن بنانے سے گریز ہی کام لیا۔ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن بظاہر دنیا کو اپنا ہنستا مسکراتا چہرے سے خوش آمدید تو کہہ رہاہے لیکن درپردہ ،وہ دنیا بھر میں امریکا کے لیے نئے محاذ جنگ گرم رکھنے کے خطرناک عزائم بھی رکھتا ہے۔ جس کا اولین ثبوت بائیڈن انتظامیہ نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظرثانی کرنے کا بیان داغ کر دے ہی دیا ہے۔

طالبان سے معاہدہ پر نظر ثانی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے ایام میں جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے معاہدہ کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے ایسی سخت شرائط پیش کی جائیں گی ،جو طالبان قیادت کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہوں گی ۔جس کے بعد جوبائیڈن ، طالبان پر ہٹ دھرم ہونے کا الزام عائد کریں گے اور افغانستان میں جنگ بجھتے ہوئے الاؤ کو ایک نئے انداز میں دہکادیں گے۔نیز افغانستان میں شروع کی جانے والی اِس جنگ کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔تاکہ چین کی جانب سے اس خطے میں شروع کیا جانے والا عالمی تجارتی منصوبہ ،ون بیلٹ ،ون روڈ کا مستقبل مخدوش صورت حال سے دوچار کیا جاسکے ۔اس مقصد کو فوری طور پر حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن یقینا کابل میں نئی دہلی کی اجارہ داری قائم کرنا چاہے گا۔

اس لیے جو سادہ لوح افراد یہ گمان رکھتے ہیں جوبائیڈن انتظامیہ ،نریندر مودی سے بھارت اور کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باز پرس کرے گی ،بلاشبہ ایسی سطحی سوچ رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ ویسے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اگر منصفانہ باز پرس کے لیے کوئی عالمی عدالت تشکیل دی جائے تو اُس کے کٹہرے میں سب سے پہلی صف میں امریکا ہی کوکسی مجرم کی طرح کھڑا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںجتنی امریکا نے کی ہیں ،وہ صرف بیان سے ہی نہیں بلکہ خواب و خیال سے بھی باہر ہیں ۔ لہٰذا جوبائیڈن کے انسانی حقوق میں دھوکے میں فقط وہ آئے گا جسے سرے سے معلوم ہی نہ ہو کہ انسانی حقوق کس چڑیا کا نام ہے؟۔

اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اگر ٹرمپ کے دور ِ صدارت میں کیے جانے والے امریکا اور طالبان معاہدے کی بقا کو کسی بھی قسم کے سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں تو اس کی تپش براہ راست پاکستان تک بھی ضرور پہنچی گی۔نیز یہ بھی قوی امکان ہے کہ ڈو مور جیسے قصہ پارینہ بن جانے والے الفاظ کی گونج ایک بار پھر سے پاکستانیوں کی سماعت میں زہر گولنے لگے۔ کیونکہ لفظ ڈو مور کی اصطلاح متعارف کروانے والے سفارتی بزرچمہر ہر وقت وائٹ ہاؤس میں جوبائیڈن کے دائیں ، بائیں ہی موجودر ہیں گے اور ان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کسی بھی قسم کی سیاسی ، سفارتی اور معاشی رعایت کا مستحق قرار دیا جاسکتاہے۔
مگر دوسری جانب امریکا کی جانب سے متوقع طور پر اختیار کردہ غیر منصفانہ سفارتی سلوک کا مثبت پہلو یہ بھی برآمد ہوسکتاہے کہ پاکستان کے لیے امریکا سے اپنی برسوں پرانی سفارتی دوستی کو ختم کرکے ،مکمل طور پر چین کے کیمپ میں چلے جانا آسان ہوجائے۔ بہرحال پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات کا تمام تر انحصار جوبائیڈن انتظامیہ کی اُس پالیسی پر ہی ہوگا،جو وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اختیار کریں گے۔ اگر جوبائیڈن کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہوا تو اس بار پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان فقط دراڑ نہیں پڑے گی بلکہ پورا گڑھا پڑ جائے گا ،بعد ازاں جس کی مرمت کرپانا نہ تو امریکا اور نہ ہی پاکستان کے لیے ممکن ہوسکے گا۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے درمیان وہ نازک موڑ آچکا ہے ،جس کے بعد مل کر چلنے ، مل جل کر بچھڑ جانا زیادہ آسان ہوجاتاہے۔بقول ساحر لدھیانوی
تعارف روگ ہوجائے تو اُس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے ایک خوب صورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر