وجود

... loading ...

وجود

’مسلم بین‘ ختم ہو چکا ہے

پیر 01 فروری 2021 ’مسلم بین‘ ختم ہو چکا ہے

(مہمان کالم)

ٹائی میکارمک

30 مئی 2019ء کو عبدالرحمن احمد اپنی کلاس میں بیٹھا امتحان کی تیاری کر رہا تھا مگر اس کے ہمسایوں نے دیکھا کہ اس کی بے جان لاش شمالی کینیا میں واقع داداب مہاجر کیمپ میں ایک بیم کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ اس نے خودکشی کر لی تھی۔ ریت کے سمندر میں ترپال کے بنے ان عارضی گھروں میں دو لاکھ سے زائد مہاجر رہائش پذیر ہیں جہاں پانی ہے نہ بجلی۔ یہ کیمپ 1992ء میں قائم ہوا تھا جب صومالیہ میں خانہ جنگی ہوئی تو مہاجرین سرحد پار کرکے کینیا میں پناہ لینے لگے۔ انتیس سال بعد بھی کیمپ کے صومالی مہاجرین‘ جن میں ان کی دوسری اور تیسری نسل شامل ہے‘ کو اس کیمپ سے باہر ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اپنے مستقل مکان بھی تعمیر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ سرکاری ریکارڈ میں عارضی مہاجر کے ا سٹیٹس سے محروم ہو جائیں گے۔ عبدالرحمن‘ جس کی عمر چھبیس سال تھی‘ داداب کے مہاجر کیمپ میں ہی جوان ہوا تھا اور تعلیم کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ذہین ا سٹوڈنٹ تھا۔ اس کے ساتھی اسے قذافی (لیڈر) کہا کرتے تھے‘ اس لیے نہیں کہ اس میں معمر قذافی جیسی صفات پائی جاتی تھیں بلکہ اس لیے کہ اس کے اندر اپنے ساتھیوں کی قیادت کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ داداب کے مہاجرین سالہا سال سے ایک امید پر زندہ تھے۔ بیرونِ ملک، یورپ، کینیڈا یا امریکا میں آباد کاری کی امید! داداب میں رہنے والے ہزاروں مہاجرین امریکا میں آباد ہو چکے ہیں۔ 2015ء میں ہی تین ہزار سے زائد مہاجر امریکا میں آباد ہوئے۔ سہانے مستقبل کے یہ سپنے اس وقت چکنا چور ہوگئے جب 27 جنوری 2017ء کو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حکم نامہ جاری کیا اور صومالیہ سمیت سات مسلم ممالک کے مہاجرین کے امریکا آنے پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی سے مہاجرین کے لیے اس ملک کے دروازے بند ہو گئے جو چار عشروں میں تیس لاکھ سے زائد مہاجرین کو اپنے ہاں مستقل پناہ دے چکا تھا۔ جب صدر ٹرمپ نے یہ پابندی لگائی تو داداب کے دو لاکھ مہاجرین میں سے چودہ ہزار افراد کے امریکا میں آباد کاری کے کیس پائپ لائن میں تھے مگر اگلے دو سال میں صرف بائیس مہاجرین کو امریکا میں آباد ہونے کی اجازت مل سکی۔ حتیٰ کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مہاجرین کو بھی امریکا میں علاج کی سہولت تک نہیں دی گئی؛ اگرچہ ایک فیڈرل جج نے صدر ٹرمپ کے حکم نامے کی بعض شقیں معطل کر دی تھیں اور کچھ مہاجرین کو امریکا آنے کی اجازت مل گئی تھی مگر زیادہ تر آباد کاری کا یہ سلسلہ معطل رہا۔ تیس ستمبر تک کے مالی سال میں صرف 11 ہزار 814 مہاجرین کو امریکا میں آباد کیا گیا جبکہ 2016ء میں امریکا آنے والے ان مہاجرین کی تعداد 85ہزار تھی۔ یہ بارک اوباما کی مدتِ صدارت کا آخری سال تھا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1980ء میں جب اس سکیم کا آغاز ہوا تھا‘ یہ امریکا میں آباد ہونے والوں کی سب سے کم تعداد تھی۔ جب میں نے جون 2019ء میں داداب مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ صدر ٹرمپ کے ’’مسلم بین‘‘ کے حکم نامے کے داداب مہاجر کیمپ پر کس قدر سنگین اثرات مرتب ہوئے تھے۔ میں جہاں بھی گیا‘ مجھے مہاجرین نے بتایا کہ وہ اور ان کے عزیزو اقارب اب کسی دوسری جگہ آباد کاری کے سلسلے میں سخت مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب وہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اب یہ تمام مہاجرین یا تو داداب کے اسی کیمپ میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے یا پھر سوچ رہے تھے کہ اپنے آبائی ملک صومالیہ واپس چلے جائیں۔

عبدالرحمن احمد کے ا سکول کے پرنسپل ایلیس نڈونگا نے مجھے بتایا ’’جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں‘ اب وہاں آباد ہونے کا معاملہ تو سرے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب مہاجرین کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ نہ کسی جگہ آباد ہو سکتے ہیں اور نہ کسی جگہ ملازمت کر سکتے ہیں‘‘۔ کینیا کی مغربی سرحد کے قریب واقع کیکوما مہاجر کیمپ میں‘ جہاں ڈھائی لاکھ مہاجر پناہ گزین ہیں اور ان میں سے زیادہ تر سوڈانی مہاجرین ہیں‘ صدر ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر سفری پابندیاں لگنے کے بعد سولہ مہینوں میں نو مہاجر خودکشی کر چکے تھے۔ وہاں کی صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی تھی کہ امدادی کارکنوں نے ان کیمپوں میں موجود تاریں، بیٹریوں میں ڈالنے والا تیزاب اور دیگر مہلک اشیا کو ضبط کر نا شروع کر دیا تھا۔ جب صدر ٹرمپ کی جانب سے پابندی لگنے کے بعد امریکا کے دروازے بالکل بند نظر آئے تو کیکوما اور داداب کے کیمپوں میں پناہ گزیں مہاجرین نے متبادل راستوں کی تلاش شروع کر دی۔ عبدالرحمن احمد نے کینیڈا میں تعلیم کے حصول کے لیے ا سکالر شپ کی تلاش شروع کر رکھی تھی۔ جو لوگ بھی اس سے واقف تھے‘ ان کا کہنا ہے کہ عبدالرحمن نے اپنی منزل کے حصول کے لیے دن رات ایک کیے ہوا تھا۔ اس کے والدین صومالیہ واپس جا چکے تھے مگر وہ ابھی تک داداب کے مہاجر کیمپ میں ہی مقیم تھا اور اپنا ہائی سکول گریڈ بہتر کرنے میں مصروف تھا۔ ایک سال پہلے نیشنل ہائی ا سکول کے امتحان میں عبدالرحمن کا گریڈ اتنا اچھا نہیں ا?یا تھا۔ اس کی توقعات سے کہیں کم! وہ اس مہاجر کیمپ میں اکیلا ہی رہتا تھا اور اپنی تعلیم کے لیے ایک ایک لمحہ بروئے کار لا رہا تھا۔ اس کے پرنسپل نڈونگا نے مجھے بتایا کہ وہ کئی مرتبہ صبح ساڑھے پانچ بجے ہی سکول پہنچ جاتا تھا اور کبھی شام سے پہلے ا سکول سے نہیں جاتا تھا۔ ا سکول میں کام کرنے والے ایک بزنس منیجر رمضان ابراہیم نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ تر کسی دوسری جگہ آباد ہونے کی بات کیا کرتا تھا۔ وہ ایک بہتر زندگی کے لیے داداب کیمپ کو چھوڑنا چاہتا تھا۔ جب اسے کینیڈا میں بھی پڑھنے کے لیے ا سکالر شپ نہ مل سکہ تو اس نے اپنی جان لے لی۔ خود کشی سے پہلے اس نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ وہ اپنی خواہشات پوری نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

اپنا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد صدر جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے سفری پابندی کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ امریکا میں آباد ہونے کے خواہش مند مہاجرین کی تعداد کو پندرہ ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ پچیس ہزار کر دیا جائے گا۔ ان کے اس وعدے کی تکمیل کی طرف پہلا اقدام ہی دراصل امریکا کے مہاجرین کی آباد کاری کے لیڈر کا کردار بحال کر دے گا مگر صدر ٹرمپ کے اس تباہ کن اور مہاجر دشمن اقدام کی بازگشت عرصے تک مہاجرین کی نسلوں میں بھی سنائی دیتی رہے گی۔ مہاجرین کی آباد کاری کے اس مسئلے کی تلافی کو شاید کئی سال کا عرصہ لگ جائے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ مہاجرین کی چوتھی اور پانچویں نسل داداب جیسے مہاجر کیمپوں میں نہیں پیدا ہو گی۔ اس کوشش کو عبدالرحمن جیسے ہونہار بچوں کے لیے کافی تاخیر ہو چکی ہو گی جس کے خواب امریکا کے سیاہ دور میں شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے مگر اس جیسے دیگر بچوں کے لیے امید کی کرن ضرور روشن ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر