... loading ...
مسلمانوں نے حقوق کا مطالبہ کیا تو ہندوئوں نے الگ وطن کی جدوجہد قراردی جس کا نتیجہ 1947 میں پاکستان کی صورت میں برآمد ہوا کسان حقوق کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں تو بھارتی زرائع ابلاغ خالصتان تحریک کا رنگ دے رہے ہیں حالانکہ تحریک میں صرف سکھ ہی نہیں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیںگزشتہ برس اگست میں کسان و مزدور تحریک نے جنم لیا مگر تحریک چھ ماہ کے عرصے میں مکمل طور پر کسانوں کے ہاتھ آگئی ہے پنجاب اور ہریانہ کے کسان ہی مسائل سے دوچار نہیں بلکہ مہاراشٹر،گجرات،راجھستان، اترپردیش،مدھیہ پردیش میں بھی کسانوں کی زندگی عذاب ہے بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر سال قرضوں میں جکڑے چھ سے سات ہزار کاشتکارخودکشی کر لیتے ہیں کسان عام طورپر احتجاج کے لیے کم ہی نکلتے ہیں لیکن امتیازی نوعیت کے زرعی قوانین نے اُنھیں مجبور کر دیا ہے اسی لیے جانی و مالی نقصان کی پرواہ کیے بغیر ڈٹ گئے ہیں آخر کسان اِتنے آگ بگولہ کیوں ہیں جوزرعی قوانین کی آٹھ ماہ کے لیے معطلی کی پیشکش بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں جس کی دیگرکئی وجوہات ہیںمگر بڑی وجہ زراعت کارپوریٹ کلاس کے حوالے کرنا ہے ۔
ہرسال چھبیس جنوری بھارت میں یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے تقریبات میں بڑی تقریب دہلی کے لال قلعہ میں منعقد ہوتی ہے کچھ عرصہ سے غیر ملکی مہمان بھی مدعوکیے جانے لگے ہیں حالانکہ گزشتہ تین یا چار دہائیوں سے بھارت میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ ظلم و جبر کا نظام نافذ ہے اقلیتوں کو کچلا جارہا ہے جس کے بارے عالمی میڈیا میں کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا ہے امسال بیرونِ ملک سے کوئی مہمان نہیں آیا مہمانوں کے کترانے کی وجہ مجرمانہ ماضی کی حامل بھارتی قیادت ہے مگر حالیہ چھبیس جنوری کو جو دلی میں ہواوہ کم ہی نظروں سے پوشیدہ رہا ہے کیونکہ عالمی ذرائع ابلاغ نے کوئی ابہام نہیں رہنے دیا برطانیا،کنیڈا،فرانس اورامریکا سمیت کئی ممالک میں سکھوں اور کشمیریوں نے یومِ سیاہ کے طور پر منایا جس سے اکھنڈ بھارت کا خواب تو ایک طرف بھارت کا مزید عرصہ متحد رہنامحال دکھائی دیتا ہے کیونکہ بی جے پی جیسی جنونی جماعت ہندوتوا نظریے کی قائل ہے اسی لیے اظہارِ رائے کی آزادی ، محروم طبقات کو حقوق دینے ور علاقائی تنازعات کے حل میں تعاون کی بجائے رکاوٹ ہے ۔
بھارتی ذرائع ابلاغ حکومتی گرفت میں ہیںجن میں تعمیری تنقید یا خامیوں کی نشاندہی کی بجائے صرف حکومتی فیصلوں کی تحسین ہوتی ہے جس سے گُھٹن کی فضا ہے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو حکومت مخالف نہیں غدار سمجھا جاتا ہے یہی کسان تحریک سے ہورہا ہے نہتے کسانوں نے مطالبات پیش کیے تو چین و پاکستان پر پشت پناہی کا الزام لگادیا پھرکسان مظاہروں کے قائدین کو نشانہ بنانے کے لیے ٹارگٹ کلر بھیجے دیے گئے جب کسان خوفزدہ نہ ہوئے اورتمام حربے ناکام ہوگئے تو خالصتان تحریک کی باتیں کی جانے لگیں مقصد ہندو جنونیوں کو مقابلے کا جوش د لانا تھا لیکن بات کیا بنتی امسال لال قلعہ کی تقریب بھی نہ ہو سکی اور ترنگا اُتار کرسکھوں نے لال قلعہ پراپنا مزہبی جھنڈا نشان صاحب لہرا دیا یہ اِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سکھوں کو حقوق نہ ملے تو وفاق سے علیحدہ ہوسکتے ہیں کچھ لوگ رنگوں کی مماثلت پر مذہبی جھنڈے کو خالصتان کا پر چم قرار دیتے ہیں لیکن خالصتان کے پر چم میں چار کونے جبکہ مزہبی پرچم تین کونوں والا ہے بھارتی پرچم کو اُتار پھینکنے سے سکھوں کے غصے کا اندازہ ہوتا ہے وجہ برسوں سے سکھوں کی الگ شناخت ختم کرنے پر کام ہوناہے ہندئو وں کی آبادی کا شمار کرتے ہوئے سکھوں کو بھی ساتھ گِن لیا جاتا ہے تقسیمِ ہند1947 میں اسی سوچ کے تحت سکھوں کے رہنما ماسٹر تاراسنگھ نے جواہرالا ل نہروکے ہاتھ قوم بیچ دی مگر اب سکھوں میں کم لوگ ہی تاراسنگھ کانام احترام سے لیتے ہیں اکثریت غدار سمجھتی ہے۔
مسلمانوں کی طرح سکھ بھی بھارت کی مظلوم قوم ہے وقفے وقفے سے اُنھیںبھی بدترین نسل کشی کا سامنا ہے فوج سمیت اہم اِداروں میں اعلیٰ عہدوں سے دوررکھا جاتا ہے 1984 میں آپریشن بلیو ا سٹار کے ذریعے سکھوں کے نہ صرف مقدس ترین دربار گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کی گئی بلکہ منظم طریقے سے ہزاروں سکھ قتل کر دیے گئے جس کی پاداش میں اندراگاندھی اپنے دو سکھ محافظوںکے ہاتھوں قتل ہوئی جبکہ بطور آرمی چیف آپریشن بلیوسٹار کے نگران اے ایس ویدیا بھی بعدمیں 1986میں سکھوں کے ہاتھوں مارے گئے سقوطِ ڈھاکہ کے اہم کردار جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے بطور ممبر پارلیمنٹ سکھوں کی نسل کشی پر تنقید کی تو حکومت اور جنونی ہندئووں سے جان بچانے کے لیے غیر ملکی سفارتخانے میں پناہ لینے پر مجبورہوئے یہ تنگ دلی کی انتہاہے میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ برسوں سے سکھوں کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں کاغصہ کسان تحریک کی شکل میںظاہر ہورہا ہے ابھی ترنگا کی بے حرمتی کی کچھ سکھ رہنما مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسی صورتحال ذیادہ عرصہ رہنا بعید ازقیاس ہے ۔
تنگ دل اور متعصب ہندو قیادت کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اور چین سے جنگ جیتناہے تو پہلے ملک میں موجود خطرات پر قابو پا نا ہو گا اسی لیے سکھوں اور کشمیریوں کو کچلنے کے لیے کوششیں جاری ہیں مگر جس ملک کا آرمی چیف بیرونی خطرے سے دبائوکا شکار ہووہ بھلا فتح مند ہوسکتا ہے؟ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے کے بعد سکھوں کو دیوار سے لگانے کا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا البتہ بھارتی وحدت کو نقصان ہوسکتا ہے اب 1984جیسے حالات نہیں سکھ جان بچاکر دیگر ممالک امریکہ ،کینڈا،یورپ سمیت ترقیافتہ خطوں کا رُخ کرنے کی بجائے مقابلے کو ترجیح دیں گے دہلی میں دوبدو مقابلہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے تبھی کسانوں کا احتجاج بغاوت کی شکل اختیار کرنے لگاہے سکھ ایک پُرامن قوم ہے سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ کی بے حرمتی تسلسل سے کی جارہی ہے 2015میںفرید کوٹ کے گوردوارے کے قریب سو سے زائد نسخے پھینک دیے گئے جب سکھوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے گولی چلا کر نہ صرف پانچ افراد کو ہلا کر دیا بلکہ سینکڑوں کو زخمی کر دیا لدھیانہ ،جالندھر اور امرتسر میں ایسے واقعات معمول ہیں لیکن حکومت جنونی ہندوئوں کو منع نہیں کرتی جس سے عیاں ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر سکھوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے اسی غصے کی جھلک دہلی مظاہرے میں دیکھنے کو ملی ۔
چھبیس جنوری کے احتجاجی مظاہرین پر پچیس کے قریب مقدمات درج ہو چکے ہیں مقدمات میںفساد پھیلانے،اہلکاروں پر حملہ آور ہونے،سرکاری کام میں مداخلت اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگاکر دوسو سے زائد افراد کوگرفتار کرنے سے ظاہر کرتا ہے کہ حکومت نے چھبیس جنوری کے واقعات کی آڑ میں سکھوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور 1984کے بعد ایک بارپھر سکھوں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں مگرکسانوںکے احتجاج کو بغاوت قراردینا اور سکھوں کے دہلی مظاہر ے کو خالصتان سے جوڑنا زرائع ابلاغ کی حماقت اور قبل ازوقت واویلا ہے آسام ،میزرام ،منی پوراور ناگالینڈ میں علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے پنجاب و ہریانہ میں بھی وفاق مخالف قوتیں زور پکڑ رہی ہے جس کی وجہ نفرت انگیزی کے واقعات میں اضافہ ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسی پہلو کی نشاندہی کی ہے اب اگر مودی نے گجرات کے جلاد والا دوبارہ کردار ادا کیا تو ممکن ہے کسان سکھ خالصتان کے حریت پسند بن جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔