... loading ...
پیٹر گڈ مین
اگر امیر ممالک کورونا ویکسین کی فراہمی پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے انسانی تباہی کا سبب بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں پھیلنے والی معاشی تباہی متمول ممالک کو بھی اتنی ہی شدت سے متاثرکرے گی جیسے وہ ترقی پذیر ممالک کو برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ سوموار کو ایک تحقیقی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کا نچوڑ یہ ہے۔اس کا سخت ترین منظر نامہ یہ ہو سکتا ہے کہ امیر ممالک کے شہریوں کو اس سال کے وسط تک کورونا ویکسین لگائی جا سکتی ہے اور زیادہ تر غریب ممالک میں روز مرہ سرگرمیاں بالکل ہی بند ہو سکتی ہیں۔ سٹڈی میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کووڈ کی وجہ سے عالمی معیشت کو 9 ٹریلین ڈالرز سے زائد کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو اتنی بھاری رقم ہے کہ جاپان اور جرمنی کی مجموعی ا?ئوٹ پٹ سے بھی زیادہ بن جاتی ہے۔ اس نقصان کا نصف سے زیادہ تو امریکا، کینیڈا اور برطانیا جیسے متمول ممالک ہی برداشت کریں گے۔ ریسرچرز کے خیال میں کچھ ایسے پس منظر کے ابھرنے کا امکان ہے جس میں اس سال کے اختتام تک غریب ممالک میں نصف سے بھی کم ا?بادی کو کورونا کی ویکسین لگ سکتی ہے اس کے باوجود عالمی معیشت کو پھر بھی 1.8 سے 3.8 ٹریلین ڈالرز تک نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ان تکلیف دہ مشکلات کا نصف سے زیادہ حصہ امیر ممالک کو ہی سہنا پڑے گا۔
اس ریسرچ‘ جو انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس نے کرائی ہے‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ویکسین کی منصفانہ تقسیم ہی سب ممالک کے مفاد میں ہے‘ خاص طور پر وہ ممالک جن کا سارا انحصار ہی تجارت پر ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ غریب ممالک کو ویکسین میں سے حصہ دینا ایک طرح سے خیرات کرنے کے مترادف ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر سلو ڈیمیرلیپ جو اس سے پہلے فیڈرل ریزروز واشنگٹن میں بھی کام کر چکے ہیں اور اس سٹڈی کے معاون مصنف بھی ہیں‘ کا کہنا ہے ’’تمام معیشتیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم جڑی ہوئی ہیں۔ کوئی ایک اکانومی بھی اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک کہ دوسری معیشتیں بحال نہیں ہو جاتیں‘‘۔ ڈاکٹر ڈیمیر لیپ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ انسان دوستی پر مبنی عالمی اقدام جو (ACT) Accelerator کے نام سے معروف ہے اور اس کا مقصد کورونا سے متاثرہ غریب ممالک کو وسائل فراہم کرنا ہے مگر اب تک 38 ارب ڈالرز سے زائد کے وعدوں کے جواب میںصرف گیارہ ارب ڈالرز کی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ اس سٹڈی میں ہدف اور وعدوں کے درمیانی خلا کو پر کرنے کے لئے ایک معاشی لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ بقیہ 27 ارب ڈالرز دیکھنے میں ایک بڑی رقم لگتی ہے مگر یہ کورونا وائرس کو اپنے حملے جاری رکھنے کی اجازت دینے کے مقابلے میں تو ایک حقیر رقم ہے۔
یہ ایک عمومی آئیڈیا ہے کہ کووڈ کی عالمی وبا نہ سرحدوں کا احترام کرتی ہے اور نہ ہی اسے کسی نسل یا اس طبقے کی کوئی پروا ہے جسے کارپوریٹ چیف ایگزیکٹوز اور پنڈتوں نے جنم دیا ہے؛ تاہم اس بات کو اس حقیقیت نے جھٹلا دیا ہے کہ کووڈ کی پھیلائی ہوئی تباہی اور موت نے کم آمدنی والے ورکرز خاص طور پر نسلی اقلیتوں کے روزگار کو ختم کر دیا ہے جبکہ سفید کالر والے ملازمین زیادہ تر اپنے گھروں میں رہ کر بھی اپنی ملازمتیں بچانے میں کامیاب رہے اور دنیا کے امیر ترین افراد اس کورونا کے دوران اپنی قیمتی کشتیوں میں بیٹھ کر اپنے نجی جزیروں کی طرف بھی نکل سکتے تھے مگر اس ریسرچ سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ عالمی تجارت کے لیے کورونا وائرس سے بچائو کے لیے کوئی ٹھکانہ دستیاب نہیں ہے۔ عالمی سپلائی چینز انڈسٹری کے لیے پارٹس فراہم کر رہی ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتا جب تک وائرس کی شدت برقرار ہے۔ کاک یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ماہرین معیشت پر مبنی ایک ٹیم 65 ممالک کی 35 صنعتوں سے متعلق اعدادو شمار کو سٹڈی کرنے کے بعد کورونا وائرس کی ویکیسن کی نامنصفانہ تقسیم کے معاشی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
اگر ترقی پذیر ممالک کے لوگ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے ہونے والے لاک ڈائون کے نتیجے میں اپنے روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس اتنی رقوم میسر نہیں ہوں گی کہ وہ اپنی روزمرہ استعمال کی اشیا بھی خرید سکیں۔ اس کا لازمی نتیجہ اس کے سوا کیا نکل سکتا ہے کہ شمالی امریکا، یورپ اور جنوبی ایشیا میں ایکسپورٹرز کی سیلز میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں پارٹس اور اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گی۔ ا سٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ غریب ممالک میں کورونا کی وجہ سے ان صنعتوں کے حالات بہت خراب ہوں گے جو زیادہ تر دنیا بھر کے سپلائرز پر انحصار کرتی ہیں جن میں آٹو موٹیو، ٹیکسٹائل تعمیرات اور ریٹیلز شامل ہیں اور ان کی سیلز میں پانچ فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
عالمی کساد بازاری کی وجہ سے کموڈوٹیز کی طلب میں کافی کمی آچکی ہے اور کاپر پیدا کرنے والے ممالک زمیبیا اور کانگو، تیل پر انحصار کرنے والے ممالک جیسے کہ انگولا اور نائیجیریا‘ سب کی پیداوار اپنی نچلی ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔کووڈ پھیلنے سے سیاحت بند ہو چکی ہے اور اسی باعث تھائی لینڈ انڈونیشیا اور مراکش میں روزانہ کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ بہت سے غریب ممالک کورونا کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں جس سے ان حکومتوں کی آمدنی ختم ہو گئی ہے اور وہ صحت عامہ جیسے شعبوں میں اخراجات کرنے کے قابل نہیں رہے۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ‘ دونوں نے ریلیف فراہم کرنے کے وعدے تو کیے تھے مگر اس مقصد کے لیے ڈالر فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے پانچ سو ملین ڈالرز کے فنڈز میں توسیع کی مخالفت کی جسے عالمی حکومتیں ہارڈ کرنسی کے طور پر نکلوا سکتی تھیں۔ جو بائیڈن کے صدر بننے سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ ان کی حکومت اس فنڈ کی توسیع کی حمایت کرے گی۔
واشنگٹن اور برسلز میں اخلاقی بنیاد پر ترقی پذیر ممالک کی حمایت کرنے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے کہ کرہ? ارض کے غریب ترین ممالک کے لیے وہ کس قدر فنڈز فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سٹڈی میں اس فنڈکے فریم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ترقی پذیر اقوام کو ویکسین کی فراہمی میں ناکامی دراصل ان امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کا باعث ہی بنے گی۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل جان ڈینٹن کہتے ہیں کہ جب تک پوری دنیا سے کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا، دنیا کی کوئی معیشت اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسین کی خریداری متمول ممالک کی طرف سے سخاوت کا اظہار نہیں ہو گا۔ اگر دنیا بھر کی حکومتیں اپنی داخلی معیشت کو اوپر اٹھانا چاہتی ہیں تو انہیں ویکسین کی خریداری پر سرمایہ کاری کرنا ہی پڑے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔