... loading ...
سندھ حکومت کی وفاق کے ساتھ نہیں نبھ سکتی ۔کم ازکم گزشتہ بارہ برس کا ’’سیاسی مشاہدہ ‘‘تو یہ ہی بتاتا ہے کہ وفا ق میںپاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پھر تحریک انصاف کی ۔بہر صورت وزیراعلی سندھ اور وزیراعظم پاکستان کے مابین مختلف سیاسی و انتظامی معاملات پر سیاسی نوک جھونک تسلسل کے ساتھ جاری ہی رہتی ہے اور سندھ حکومت، وفاق کے ساتھ کسی ایک قومی مسئلہ پر بھی قدم سے قدم ملا کر چل نہیں پاتی۔اَب تو خیر سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دیرینہ سیاسی حریف جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان ہیں لیکن جب ماضی قریب میں محترم آصف علی زردادی کے سیاسی حلیف ، ہم نوالہ و ہم پیالہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان ہواکرتے تھے ،تب بھی سندھ حکومت کی وفاق سے ہر چھوٹے ،بڑے انتظامی معاملے پر شکوے اور شکایات ختم ہونے کا نام نہیںلیتی تھیں۔ بس فرق فقط اتنا پڑا ہے کہ اُس وقت وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حوالے سے ذرائع خبریں دیا کرتے تھے کہ وہ کسی بھی وقت وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کرسکتے ہیں جبکہ آج کل ویسی ہی خبریں ،پیپلزپارٹی کے معتمد ترین ذرائع وزیرداخلہ شیخ رشید کے حوالے سے دے رہے ہیں کہ ’’ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے حالیہ دورہ سندھ اوراہم حلقوں سے ان کی ملاقاتوں کوپیپلزپارٹی کی جانب سے انتہائی باریک بینی سے مانیٹرکیا گیا ہے جس میں اس بات کے قوی شواہد ملے ہیں کہ کسی بھی وقت وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری ہوسکتی ہے‘‘۔اُڑتی ،اُڑتی سی اس خبر کو کچھ مہمیز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر بحری اُمور علی زیدی کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی سے ملتی ہے۔ وگر نہ اعلی سطح کے اجلاس میں ،دو اعلی سطح کی شخصیات کے درمیان بدزبانی و بدتہذیبی کا واقعہ رونما ہوتا ہی کیوں ؟۔اَب اگر واقعہ پیش آ ہی چکا ہے تو یقینااس کے کچھ نتائج بھی نکلیں گے اور بعض سیاسی تجزیہ کاروںکے نزدیک وہ ممکنہ نتیجہ ،وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتار ی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتاہے ۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ سندھ کے منتظم اعلیٰ کی گرفتاری کے بعد جس طرح کے سیاسی و انتظامی مضمرات کا سامنا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور سیاسی جماعت کو پاکستان بھر میں بالخصوص سندھ میں کرنا پڑ سکتاہے ،کیا ایک لمحہ کے لیے بھی اُس ممکنہ غیر معمولی صورت حال کی پیش بندی کے متعلق تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سوچ و بچار کی زحمت گوارا کی ہے؟۔ کیونکہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما ،حکومتی مشیر ، حکومتی وزیر کی گرفتاری اور ایک صوبہ کے وزیراعلیٰ کو پابند سلاسل کرنے کے درمیان زمین اور آسمان کا تفاوت پایا جاتاہے ۔ اگر اس تیکنیکی آئینی فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تو عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو لینے کے بجائے ،اُلٹا دینے نہ پڑ جائیں اور مخالفین کے سر سے آسمان کھینچنے کے فراق میں کہیں ان کے اپنے پاؤں کے نیچے سے ہی زمین نہ کھسک جائے ۔ دراصل سیاست میں کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اُس اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جوابی ردعمل کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہوتاہے۔شاید اسی لیے سیاست کے اُستاد نصیحت کرتے ہیں کہ’’ چائے کی پیالی میں فقط اتنا ہی طوفان پیدا کرنا چاہئے کہ بعدازاں آپ سکون سے بیٹھ کر چائے بھی پی سکیں اور آپ کے کپڑے بھی خراب ہونے سے محفوظ رہیں‘‘ ۔اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے آئینی و سیاسی بحران کے تمام مضر نتائج و عواقب پر اچھی طرح سے غور و فکر فرمالیا ہے تو پھر سو بسم اللہ ! کرلیجئے ،وزیراعلی سندھ کو گرفتا ر ۔
دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری، کے پیش نظر پیپلزپارٹی نے بھی سندھ اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی اور نیاوزیراعلی سندھ لانے کا فیصلہ یکسر مسترد کرتے ہوئے۔اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت کو سیاسی اشاروں کنایوں میں واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نیب حراست میں رہتے ہوئے بھی وزیراعلی سندھ کی حیثیت سے بدستور حکومتی اُمور انجاد یتے رہیں گے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کے آئینی ماہرین کی جانب سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ پرجرم ثابت ہونے تک بطوروزیراعلی کام کرنے کاقانونی راستہ موجود ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس کے بعدپیپلزپارٹی کی اعلی ترین قیادت نے بھی مراد علی شاہ کو گرفتاری کے بعد بھی سندھ کا وزیراعلیٰ رقراررکھنے کی توثیق کردی ہے۔اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ واقعی نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں تو پھر صرف وفاقی حکومت اورسندھ حکومت کے سیاسی و انتظامی تعلقات ہی کشیدہ نہیںہوں گے بلکہ صوبہ سندھ میں ایک وسیع ترآئینی و سیاسی بحران بھی پیدا ہوجائے گا۔ جسے یقینا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بطور ’’احتجاجی ہتھیار‘‘ کے وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی ۔ کیا سندھ میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس احتجاجی و سیاسی بحران سے بحسن و خوبی نمٹ سکے گی؟۔
ہماری ذاتی رائے میں وزیراعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کے بعد اگر سندھ حکومت قائم رہتی ہے تو پھر سندھ میں رونما ہونے والی بحرانی سیاسی صورت حال سے نمٹنا تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے از حد مشکل ہوجائے گا۔ تاآنکہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اقدام نہ اُٹھایا جائے اور سندھ میں گورنر راج لگانا تو آسان ہوگا لیکن اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں اِسے طویل مدت تک برقرار رکھ پانا وفاقی حکومت کے لیے کم و بیش ناممکن ہی ہوگا۔ اس لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے بہتر راستہ تو یہ ہی ہے کہ فی الحال وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری سے حتی المقدور گریز ہی کیا جائے اور جب ایک ماہ بعد سینٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کو اکثریت حاصل ہوجائے (جس کے واضح امکانات پائے جاتے ہیں ) تو پھر آئین پاکستان میں موجود غیر ضروری ترمیما ت کا خاتمہ کرکے اور کچھ ضرور ی ترمیما ت کر نے کے بعد کرپشن کے خلاف حسب ِ منشا کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا جائے ۔اس طرح وفاقی حکومت کی ’’سیاسی لاٹھی ‘‘ بھی نہیں ٹوٹے گی اور ’’کرپشن کا سانپ ‘‘ بھی مرجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔