... loading ...
بیس جنوری کوجو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ کے کئی اقدامات اور فیصلوںکو ختم کرنے کے احکامات دیے جن سے تبدیلی کا احساس ہوا ہے تبدیلی کا احساس تو حلف برداری کی تقریب سے بھی ہوا جب واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا کو ملانے والے متعددپل بند کر نے اورامن و امان یقینی بنانے کے لیے نیشنل گارڈ کے پچاس ہزارنوجوان تعینات کیے گئے پھربھی وسوسے و خدشات دامن گیر رہے لیکن کام کے آغاز سے نئے صدرنے احساس دلایا ہے کہ وہ تعصب کی بجائے رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں گے سات ماہ قبل امریکی پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے مارے گئے سیاہ فام کی بچی سے گھٹنوں کے بل جُھک کر معافی مانگ کر پیغام دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں خیر ایک تصویر کی اشاعت سے ذیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ کشمیر،مشرقِ وسطیٰ ،میانمارکے مسائل کا برقراررہنا امریکی انتظامیہ کا تجارتی فوائد کو انسانی حقوق پرفوقیت دینا ہے اب تونسلی تعصبات وسیاسی تقسیم امریکی معاشرے میں بھی سرایت کرنے لگی ہے اصل تبدیلی یہ ہے کہ 78سالہ نومنتخب صدر کسی کواپنی ٹیم کا حصہ بناتے وقت انسانی حقوق کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو ترجیح دیں۔
پاک بھارت ذرائع ابلاغ میں صدرکی کابینہ کا حصہ بننے والے چہروں پربحث زوروشور سے جاری ہے نائب صدر کمیلا ہیرس چاہے بھارتی نژاد سہی لیکن اُن کے خیالات سے پاکستانی خاصے پُر امید ہیں کہ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ رکوانے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ چاہے عملی طور پر کاروائی نہ سہی لیکن زبانی طور پر ہی سہی سرزنش ضرور کرے گی لیکن ایسی اُمیدیں یا توقعات کا پورا ہونا محال ہے کیونکہ امریکہ کو چین سے بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اِس لیے چین کی تیزرفتارمعاشی ترقی کو سُست روی کا شکارکرنے کے لیے بھارتی ساتھ کی ضرورت ہے بھارت جس کا امریکا سے تجار ت کا حجم سترارب نوے کروڑ ڈالر کے قریب ہے جبکہ پاک امریکا تجارت چھ ارب ڈالر سے بھی کم ہے امریکا میں بسنے والی بھارتی ستائس لاکھ ساٹھ ہزارکے قریب یعنی کل آبادی کا ایک فیصد ہو گئے ہیں جبکہ پاکستانی اٹھاون ہزار دوسوہیں اس لیے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجودبھارت مستقبل میں بھی امریکی چہیتا رہے گا۔
ٹرمپ کی طرف سے مسلم ممالک پر لگائی سفری پابندیاں میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے فیصلوں کو جو بائیڈن نے ختم کر دیا ہے لیکن افغانستان کے حوالے سے طے پانے والے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا جارہا ہے اور فریقین معاہدے کے نکات پر کتنا عمل کر رہے ہیں جائزہ لینے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ سب سے پہلے امریکا کے فلسفے کی قائل نہیں بلکہ مفادات کے تناظر میں جہاں مناسب سمجھے گی مداخلت کرسکتی ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں مثال کے طور پرجو انتظامیہ میں سیکرٹری آف ا سٹیٹ یعنی وزیرِ خارجہ جیسا اہم عہدہ اینٹونی بلنکن جیسے شخص کو سونپا گیا ہے جن کا امریکی افواج کے دومئی 2011کو ایبٹ آباد آپریشن میں اہم کردار ہے جس میں مدد کرنے پر جب پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر شکیل کی غداری کے الزام میں گرفتاری عمل میں آئی تو اینٹونی بلنکن نے رہاکرانے کی سرتوڑ کوشش کی یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی اِداروں نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں نئے وزیرِ خارجہ کو پاکستان سے پہلے ہی شکوے شکایات ہیں بیس سے زائد اہم عہدوں پر فائز بھارتی نژاد افراد کی موجودگی میں آسانی سے جو انتظامیہ سے گرمجوشی پر مبنی تعلقات اُستوار ہونا خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔
سیاہ فام لائیڈ آسٹن کو وزیرِ دفاع کی زمہ داری تفویض کی گئی ہے اُنھیں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعدعوامی عہدے کے لیے مروجہ روایات سے استثنیٰ دیکر ڈیفنس سیکرٹری بنایا گیا جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بات چیت سے مسائل سُلجھانے کی بجائے طاقت کے اظہار پر یقین رکھتے ہیں سلالہ چیک پوسٹ پر جب امریکی فوج نے حملے کے دوران کئی پاکستانی فوجی شہید کر دیے تو یہی لائیڈ آسٹن افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر تھے نیز افغانستان میںامریکی فوج اکثر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتی رہی اِس لیے یہ تو کسی صورت ممکن نہیں کی لائیڈ آسٹن کے ذہن سے بطور کمانڈر پیداہونے والی تلخیاں محو ہو چکی ہوں ذیادہ امکان یہی ہے کہ وہ پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیں گے اِس لیے پاکستان کو خوش فہمیوں سے نکل کر تمام ممکنہ آپشن پر غور کرنے اور مناسب تیاری کرنی چاہیے کیونکہ سلالہ حملے پر چاہے ہیلری کلنٹن نے معذرت کی تھی مگر لائیڈ آسٹن نے ندامت ظاہر کرنے کے حوالے سے آج تک ایک لفظ نہیں بولااب وہ کیونکر پاکستان پر ریشہ خطمی ہوسکتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں اہم کردار اداکرنے والی خاتون بھی اہم عہدے پر فائز ہوچکی ہے پھربھی پاکستان کا سب کچھ ٹھیک تصور کرنا حقیقت کے خلاف ہوگا۔
ترکی کا روس کے قریب ہونا امریکا کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو نیٹو ممبر ہونے کے باوجود روس سے مہلک میزائل سسٹم ایس 400 خریدچکااوراب امریکی پابندیوں کے نرغے میں ہے پاکستان بھی ترکی سے بحریہ کے لیے جہازتیار کرارہا ہے روس اور ترکی سے خراب امریکی مراسم کے باوجود پاکستان نہ صرف دونوں ممالک سے متواتر مشترکہ فوجی مشقیں کرتا ہے بلکہ مذکورہ ممالک کو امریکی دفاعی پابندیوں کا متبادل سمجھنے لگا ہے اِس لیے یہ تصور کر لینا کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کو بھارت پر ترجیح دے گی غلط ہوگا کیونکہ چین ،روس اور ترکی جیسے ممالک سے قربت رکھنے کی پاداش میں پاکستان اُسے حلیف کی بجائے حریف نظر آئے گا چاہے چین سے امریکاکے تعلقات بہتر بنانے کی پیشکش کر ے یا پاکستان نیک تمنائوں کا اظہار کر ے امریکا کی طرف سے جواب میں نیک تمنائوں کا خون انہونی نہ ہو گی یادرہے نئی نتظامیہ ٹرمپ کی طرح منہ پھٹ نہیں بلکہ اظہارِ خیال میں محتاط ہے اور لازمی نہیں کہ جو کہے اُس پر عمل بھی کرے عین ممکن ہے دایاں دکھا کر بائیں سے وارکردے۔
نئی امریکی انتظامیہ نے دوبرس سے تعینات نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جنھیں یقین ہے طالبان اور پاکستان ایک پیج پر ہیں وہ افغانستان،عراق کے ساتھ اقوامِ متحدہ میں امریکی سفارتکار جیسے اہم عہدوں پرکام کر چکے ہیں نیز افغان حکومت کے علاوہ قبائلی بودوباش اُن سے پوشیدہ نہیںاِس لیے پاکستان کو اپنے پتے کھیلتے ہوئے انتہائی احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا زراسی سُستی یا بے احتیاطی نئی انتظامیہ سے دور کر سکتی ہے موجودہ دور میں کسی بڑی طاقت سے کٹ کر رہنا دانشمندی نہیں بلکہ مراسم بڑھا کر معاشی، دفاعی اور تجارتی سہولتیں حاصل کی جا سکتی ہیں مگر حکمت و تدبر سے ہی مفادات کا حصول ممکن ہے ۔
پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ علی زیدی ماحولیات کے مشیر جبکہ سلمان احمد خارجہ پالیسی ٹیم کا حصہ ہیں یہ پاکستانی نژادامریکی ہیں علاوہ ازیں عائشہ شاہ اور سمیرا فاضلی کا جو بائیڈن انتظامیہ کا حصہ بننے سے نئی قیادت کو کشمیر کی دگرگوں صورتحال سے درست آگاہی ملنے کا امکان ہے جس سے ممکن ہے کشمیریوں کی جہنم بنی زندگی میں کچھ بہتری آجائے کیونکہ جو کی انتخابی مُہم میں شامل اہم بھارتی نژاد سونل شاہ اور امیت جانی کو شامل نہیں کیا گیا عام خیال یہ ہے کہ انھیں بی جے پی اور آرایس ایس سے تعلقات کی بنا پر نئی انتظامیہ کا حصہ نہیں بنایا گیا اگر پاکستان حسین حقانی طرز کے فیصلوں کی بجائے مربوط سفارتی مُہم پر کام کرے تو پاکستان امریکی انتظامیہ میں جگہ بنا سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔