... loading ...
(مہمان کالم)
میلنڈا وینر موئیر
پچھلے ہفتے میرے دوستوں کو پتہ چلا کہ وہ جلد کوویڈ کی ویکسین لگوانے کے اہل ہو جائیں گے تو مجھے کئی پریشان کن میسج موصول ہوئے۔ایک ٹیچر جو ہفتے میں صرف ایک دن کے لیے بچوں کو دیکھتی ہے‘ حیران تھی کہ کیا مجھے اس قدرانتظار کرنا چاہئے کہ جو ٹیچرز سنگین رسک پر ہیںانہیں کوویڈ کی خوراک پہلے مل جائے ؟ایک بیمار دوست جواکثر گھر پر ہی رہتی ہے کہہ رہی تھی کہ میرے والی ویکسین کی خوراک کسی زیادہ مستحق کو لگا دی جائے۔میں نے سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کی ایسی پوسٹس دیکھی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ وہ ویکسین لگانے کے اہل ہیںمگر انہیں وقت نہیں دیا گیا اور وہ مشتعل ہیں کہ وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو کسی رسک پر نہیں تھے مگر انہیں پہلے ہی ویکسین لگا دی گئی ہے۔
ویکسین کی محدود سپلائی کے باوجود جیسے جیسے مزید امریکی شہری ویکسین لگوانے کے اہل ہو تے جائیں گے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا جائے گا کہ کیا دستیاب ہونے کی صورت میں ویکسین لگوانی چاہئے یا نہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھرمیں ویکسین تک منصفانہ رسائی ممکن نہیں ہے مگر بہت سے طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کو جہاں سے بھی ویکسین میسر ہو لگوا لینی چاہئے۔یہ بات نہ سوچیں کہ آپ اسے لینے کے لیے کتنے اہل یا نااہل تھے۔
نیو یارک یونیورسٹی میں گراسمین ا سکول آف میڈیسن میں میڈیکل ایتھکس ڈویڑن کے ڈائریکٹرآرتھر کیپلان کہتے ہیں کہ اگر وہ آپ کو ویکسین لگانے کے لیے بلاتے ہیں تو آپ کو جانا چاہئے۔اگر آپ کو ویکسین لگانے کی آفر کی جائے تو اس کے لگوانے کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی بات یہ کہ اگر آپ کو ویکسین لگوانے کی آفر ہوتی ہے اور آپ نہیں لگواتے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے مریض ہی کو لگے گی جو بہت زیادہ رسک پر ہو۔ویل کارنل میڈیکل کالج کے سائیکالوجسٹ اور میڈیکل ایتھکس کے ماہر ڈیب جانی مکرجی کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ چل رہاہے کہ ویکسین ایلوکیشن کا یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ ایک اور میڈیکل ایتھکس ایکسپرٹ کائل فرگوسن کا کہنا ہے کہ ادارے کئی قسم کی ویکسین تقسیم کر رہے ہیںوہ اضافی خوراکیں کسی اور جگہ یا کسی مخصوص آبادی میں نہیں ٹرانسفر کر سکتے۔
اسی بات کو ایک اور طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ جس ویکسین کو لینے سے انکار کر تے ہیںوہ آ پ سے کم رسک والے مریض کو لگا دی جائے۔بدترین صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کسی مریض کی حالت بگڑنے سے پہلے پہلے ویکسین اسے نہیں لگائی جاتی تو عین ممکن ہے کہ اسے کوڑے کے ڈھیرپر پھینک دیا جائے اورضائع ہونے والی خوراکیں کسی کام نہیں آتیں۔ شمالی کیلی فورنیا کے ایک ہسپتال میںوہ فریزر پھٹ گیا جس میں ویکسین رکھی ہوئی تھی ‘ریاست کی طرف سے دی گئی گائڈلائنز کی منتظمین نے سنگین خلاف ورزی کی تھی۔کوئی مریض یہ ویکسین لگوانے کا اہل تھا یا نہیں اس بات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وہ ہر کسی کو ویکسین کی ڈوزلگوانے کی پیشکش کرتے رہے۔ اس لیے یہ خیال کہ کسی ویکسین کو مسترد کرنے سے یا اسے لگوانے کے لیے انتظار کرنے پرسوسائٹی کو کوئی فائدہ نہیںہوگا ڈاکٹر فرگوسن کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ سراسر جھوٹ ہے۔ کام کرتے ہوئے یہ بات بھی محض اخلاقی پاکیزگی کا دھوکا ہوتا ہے کہ جب لوگ کوئی کام کررہے ہوتے ہیں تو آپ اپنے ہاتھ اور دامن صاف دکھانا چاہتے ہیں۔
اگر آپ کوئی ویکسین اس وجہ سے لگوانے سے انکار کردیتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو کسی ہائی رسک پر نہیں سمجھتے تویہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوں۔لوگوں کے لیے یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی ہائی لیول رسک پر ہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ لوگ ہر طرح کی صورت حال میں اپنے رسک کی شدت کا درست تعین نہیں کر سکتے۔یہ رویے جنہیں رجائیت پسندانہ تعصبات کہا جا تا ہے اکثر لوگوں کو غلط طریقے سے تاثرات قائم کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ صحت عامہ کی ایسی مہمات ہمارے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے ہوتی ہیں۔دوسرے لفظوں میںیہ خیال کہ دوسروںکوویکسین کی آپ سے زیادہ ضرورت ہے محض رجائیت پسندانہ سوچ کی پیدا وار ہے۔بہر حال کوویڈ کو سائنسی انداز میں ابھی پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیااور اس کے مختلف ورڑن سامنے آنے کی وجہ سے یہی احساس تیزی سے پروان چڑھ رہاہے۔
جب آپ کوئی ویکسین لگوا لیتے ہیں تو اس سے فائدہ اٹھانے والے آپ ہی پہلے شخص نہیں ہوتے۔سائنسدانوں کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنی ویکسین کوویڈ کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔ابتدائی ڈیٹا سے پتہ چلا ہے کہ یہ کسی حد تک اس کے پھیلائو کو روک دیتی ہے۔جب آپ اس ویکسین کی خوراک لگوا لیتے ہیں تو آپ محض اپنا تحفظ ہی نہیں کر رہے بلکہ آپ اپنی کمیونٹی میں اس کے پھیلائو کی رفتار بھی سست کررہے ہیں اور اس طرح ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ ہلکا کرنے میںمدد دے رہے ہیں۔اگر آ پ ویکسین لگوا لیتے ہیں اور آپ کی فیملی یا دوستوں میں کسی کو کوویڈ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے تو آپ ان کی بہتر طریقے سے دیکھ بھال کر سکتے ہیں کیونکہ اب آپ بیمار نہیں ہوں گے۔جب آپ ویکسین لینے کے اہل ہو گئے ہیں اور آپ یہ ویکسین لگوا لیتے ہیں تب بھی لوگ آپ پر چلائیں گے کہ آپ سے زیادہ ان کے اپنے عزیزو اقارب اس ویکسین کے مستحق تھے۔آپ انہیں منطقی اور عقلی جوابات کے ذریعے مطمئن نہیں کر سکیں گے۔اگر اس معاملے کو مزید گہرائی میں اتر کر بھی دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جو لوگ ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر مشتعل نظر آتے ہیں دراصل وہ اس سسٹم کے مخالف ہوتے ہیں اور یقینا ایسا ہی ہے۔
ایسی صورت حال میں آپ کو صرف قربانی کا بکرا ہی بنایا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر فرگوسن کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ا س طرح کی صورت حال میں جو کام بہترین اندازمیں کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ سے یہ کہا جائے گا کہ آپ اس شخص کی دیکھ بھال کریں اور امید کرتے ہیں کہ آپ کے ہاتھوںمیںوہ شخص بچ بھی جائے گا۔اہم بات یہ ہوگی کہ ویکسین متعارف کرانے میں پیش آنے والے مسائل کو اس ناقص سسٹم میں رہتے ہوئے انفرادی مسائل کے ساتھ الجھایا نہ جائے۔ اگر آپ ایسا سمجھتے بھی ہیںکہ آپ کو ویکسین کی جو آفر کی گئی ہے وہ غیر اخلاقی ہے‘ اسے قبول کرنا آپ کے لیے غیر اخلاقی بات نہیں ہوگی۔آپ اس طرح ایک شکست خوردہ سسٹم کو درست نہیں کررہے ‘اگر کچھ ہو سکتاہے تو یہ کہ آپ ا س سسٹم کو مزید خراب کر رہے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔