... loading ...
دوستو، ان دنوں برقی اور ورقی میڈیا پر صرف ’’براڈشیٹ‘‘ کے ہی چرچے ہیں۔۔ لیکن ہم نے تو بچپن سے ہی براڈ شیٹ کی جگہ ’’بیڈشیٹ‘‘ سنی ہے۔۔ جس کی تعظیم اس حد تک کرائی جاتی تھی کہ مہمانوں کے آنے پر ’’پیٹی‘‘ پرانے زمانے کا ’’صندوق‘‘ سے نکال کر فوری بچھائی جاتی تھی۔۔ اور مہمانوں کے آنے اور گھر سے رخصت ہونے تک ہم بچوں کو بیڈ شیٹ سے دور رہنے کا سخت حکم جاری کیاجاتاتھا، مبادا کہیں بیڈ شیٹ میلی نہ ہوجائے،اور ۔۔بیڈشیٹ میلی ہونے کا مطلب ہے مہمانوں کے سامنے پورے خاندان کی ’’بزتی‘‘ خراب ہوجائے گی۔۔اب اسے آپ ہم بچوں کا مغالطہ سمجھ لیں کہ ہم بھی واقعی ایسا سمجھنے لگ گئے تھے کہ مہمانوں کی گھر میں موجودگی تک بیڈشیٹ سے دور ہی رہتے تھے۔۔یعنی بیڈ اور چارپائی کے نزدیک بھی نہیں جاتے تھے۔۔ سوچتے تھے کہ مہمان چلے جائیں تو پھر بیڈشیٹ پر لیٹیں گے، اسے اوڑھیں گے لیکن شومئی قسمت، مہمانوں کے جاتے ہی بیڈشیٹ فوری طور پر ہٹالی جاتی تھی اور اسے واپس لپیٹ کر’’پیٹی‘‘ میں رکھ دیاجاتا تھا۔۔
بیڈشیٹ یا براڈ شیٹ کے حوالے سے ہمیں جو مغالطہ تھا ہم نے آپ احباب کی خدمت میں پیش کردیا۔۔ ونس اپان اے ٹائم۔۔شاگردوں نے اپنے فیوریٹ استاد سے پوچھا۔۔مغالطہ(Paradox) سے کیا مراد ہے؟۔۔استاد نے کہا۔۔ اس کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔۔دو مرد میرے پاس آتے ہیں، ایک صاف ستھرا اور دوسرا بہت ہی گندا۔ میں ان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ نہا کر صاف ستھرے ہوجائیں ، اب آپ بتائیں کہ ان میں سے کون غسل کرے گا؟۔۔سارے شاگروں نے ایک آواز ہوکرکہا۔۔ جو بہت ہی گندا ہے۔۔استاد نے کہا۔۔ نہیں،بالکل نہیں۔بلکہ صاف آدمی ایسا کرے گا کیونکہ اسے نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو صفائی کی قدر و قیمت معلوم ہی نہیں۔اب بتائیں کہ کون نہائے گا؟۔۔شاگردوں نے اس بار پینترا بدلا،مل کر بولے۔۔صاف آدمی۔۔استاد نے کہا۔۔نہیں،بلکہ گندا نہائے گا کیونکہ اسے صفائی کی ضرورت ہے۔ پس اب بتائیں کہ کون نہائے گا؟اس بار سب نے کورس میں کہا۔۔گندا۔۔استاد نے پھر گردن دائیں سے بائیں ہلائی اور کہا۔۔ نہیں، بلکہ دونوں نہائیں گے کیونکہ صاف آدمی کو نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو نہانے کی ضرورت ہے۔اب بتائیں کہ کون نہائے گا؟۔۔سارے شاگردوں نے کہا۔۔دونوں۔۔استاد بولے۔۔ نہیں
کوئی نہیں،کیونکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں جبکہ صاف کو نہانے کی حاجت نہیں۔اب بتائیں کون نہائے گا؟شاگرد وں کو ’’تپ‘‘ چڑھنا شروع ہوگئی تھی، غصے سے دانت پیستے ہوئے بولے۔۔کوئی نہیں ۔۔شاگردوں نے پھر ایک دوسرے کی شکلیں دیکھیں اور کہنے لگے۔۔سرجی، آپ ہر بار الگ ہی جواب دیتے ہیں اور ہر جواب درست معلوم ہوتا ہے، ہمیں یہ بتائیں کہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ درست بات کیا ہے؟؟استاد نے کہا (Paradox) مغالطہ یہی تو ہے۔بچو! آج کل اہم یہ نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اہم یہ ہے کہ میڈیا کس چیز کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔۔!امید ہے میڈیا کے چکروں کی سمجھ آ گئی ہو گی۔۔اگر آپ کو سمجھ آ گئی ہے تو دوسروں کو بھی سمجھا دیں۔۔
اخبار پڑھو تو خبریں بھی عجیب عجیب سی لگتی ہیں۔۔شوہرنے اپنی بیوی سے کہا۔۔ کیا تم نے اخبار پڑھا ؟ ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ 15 فیصد خواتین دماغی امراض کی دوائیں استعمال کرتی ہیں۔۔بیوی نے حیران ہوکے پوچھا تو پھر اس میں کون سی خاص بات ہے۔۔شوہرنے کہا،یہ ایک خطرناک خبر ہے، بیوی نے پوچھا وہ کیسے؟، شوہر بولا۔۔ اس کا مطلب ہے، باقی پچاسی فیصد خواتین بغیردواؤں کے گھوم رہی ہیں۔۔بازار میں شاپنگ کے دوران بیوی نے شوہر سے پوچھا، چار کلو مٹر لے لوں۔۔شوہر نے کہا،ہاں لے لو۔۔بیوی نے کہا، تمہاری رائے نہیں پوچھ رہی، میرا مطلب تھا، چھیل لوگے اتنے، یا پھر کم لوں۔۔؟؟ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، ظالم بیوی کا شوہر مظلوم جب کہ مظلوم بیوی کا شوہر ظالم ہوتا ہے۔۔لیکن ہمارا کہنا ہے کہ شوہر چاہے کسی بھی رنگ و نسل کا ہو، کسی بھی ذات کا ہو بیچارہ مظلوم ہی ہوتا ہے، جس طرح سیاست دانوں کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت کہاں پائے جاتے ہیں اسی طرح شوہروں کے متعلق بھی نہیں کہاجاسکتا کہ وہ کس وقت کدھر ہوں گے، لیکن بیوہ عورتوں کو سوفیصد یقین ہوتا ہے کہ ان کے شوہر اس وقت کہاں ہوں گے۔
بیڈشیٹ کو پرانے زمانے میں ’’چادر‘‘ کہاجاتا تھا۔۔ چارپائی اور صوفوں پر ’’بیڈشیٹ‘‘ کی جگہ چادر ہی ڈالی جاتی تھیں، لیکن اب چادریں صرف مزارات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔۔ یا پھر چادر اب اس کہاوت تک محدود ہوگئی۔۔چادر دیکھ کر پیر پھیلائیں۔۔ کہتے ہیں، اکبر بادشاہ نے سردیوں میں غریب عوام کے لیے لحاف بنوانے کا شاہی حکم جاری کیا تاکہ وہ لحاف غریبوں میں تقسیم کیے جاسکیں، بیربل کو نگراں بنایاگیا، ہزاروں کی تعداد میں لحاف تیارکرلیے گئے، اکبر نے لحاف کی ’’ٹرائی‘‘ لی۔۔ اکبربادشاہ کا قد چونکہ لمباتھا اس لیے جب اس نے لحاف اوڑھاتو اس کے پیر باہر نکلنے لگے۔۔اس نے بیربل سے کہا، لحاف چھوٹے بنے ہیں،میرے پیر باہر نکل رہے ہیں۔۔بیربل نے برجستہ کہا۔۔ جتنی چادر دیکھیں اتنے پیر پھیلائیں۔۔ تب سے یہ کہاوت زیرگردش ہے اور مڈل کلاسیوں کے زیراستعمال رہتی ہے۔۔بات ہورہی تھی، بیڈشیٹ کی۔۔بیڈشیٹ ہمیں اس لیے یاد آئی تھی کہ ان دنوں میڈیا میں براڈ شیٹ کے چرچے ہیں۔۔ ویسے چرچے تو مفتی قوی اور حریم شاہ کی وڈیولیکس کے بھی ہیں۔۔
باباجی فرماتے ہیں، ہر بندہ تنہائی میں مفتی قوی اور محفل میں طارق جمیل ہوتا ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ عجیب لوگ ہیں ہم بھی حکومت سے ڈرتے ہیں نہ قانون سے اور نہ ہی کورونا سے۔۔کہتے ہیں کہ بچپن کی عادتیں جوانی میں بھی ساتھ ہی رہتی ہیں، جو بچپن میں تھوک سے سلیٹ صاف کیا کرتے تھے اب اپنے موبائل فون کی اسکرین اور عینک کے شیشے تھوک سے صاف کرتے ہیں۔۔۔ سردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔۔باباجی کہتے ہیں۔۔سردی سے تن بدن کانپتا ہے لوگ یہ سمجھتے ہیں بیوی کے خوف سے کانپ رہا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آج کل یہ چلن عام ہوگیا ہے کہ ۔۔آپ کی بات کو توجہ آپ کی حیثیت دیکھ کر ملتی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔