... loading ...
(مہمان کالم)
یاسریاکس
صدر طیب اردوان نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ بحیرہ اسود میں 2100میٹر کی گہرائی سے 320ارب کیوبک میٹرز گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ بیرات البیراق جو کہ صدر اردوان کے داماد بھی ہیں، نے گیس کے ذخائر کی دریافت کو ترکی کیلئے ایک اہم خبر قرار دیا جو کہ خطے میں ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو گی۔ انہوں نے گیس کے مزید 2ذخائر کی دریافت کا بھی عندیہ دیا، جن کی تصدیق میں ابھی وقت لگے گا۔ اس لیے ذخائر کے مجموعی حجم اضافے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی جیسا ملک جو کہ اپنی ضرورت کی 98فیصد گیس درآمد کرتا ہے، اس ذخیرہ کی دریافت اس کے لیے بہت اہم ہے۔ ترکی کی گیس کی سالانہ کھپت 50ارب کیوبک میٹرز کے لگ بھگ ہے، جس کیلئے سالانہ 13 ارب ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ بحیرہ اسود کی گیس سے ترکی کا توانائی کا مسئلہ کچھ حد تک حل ہو جائیگا، تاہم اسے ’’گیم چینجر‘‘ خیال کرنا حقیقت پر مبنی ہرگز نہیں۔
گیس کے ذخائر کو چھوٹے، درمیانے، بڑے یا پھر عظیم الجثہ کے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بحیرہ اسود کے نئے ذخیرے کو ’بڑا‘ قرار دے سکتے ہیں، مگر دنیا کے دیگر عظیم الجثہ ذخائر سے موازنہ کر کے اس کے اصل سائز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ روس کے قدرتی گیس کے ذخائر کا حجم ایک اندازے کے مطابق 620 کھرب کیوبک میٹرز ہے، ایران کے ذخائر 440کھرب کیوبک میٹرز جبکہ قطر کے ذخائر کا اندازہ 320 کھرب کیوبک میٹرز لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ترکی کے نئے ذخائر قدرتی گیس کے روسی ذخائر کا تقریباً 0.5فیصد، ایران کے ذخائر کا تقریباً 0.7فیصد جبکہ قطر کے ذخائر کا تقریبا ایک فیصد ہیں۔
بحیرہ اسود کے قدرتی گیس کے ذخیرے کا حجم 320ارب کیوبک میٹرز ہونے کی اگر تصدیق ہو جاتی ہے، اس سے صرف چھ سال تک ترکی اپنی گیس کی ضرورت پوری کر سکے گا۔ مزید براں، اس گیس کو صارفین تک پہنچانے کے لیے کس قدر سرمایہ کاری کرنا پڑے گی، اس کا ابھی تک اندازہ نہیں لگایا گیا۔ دریافت قدرتی گیس کو صارف تک پہنچانے کا عمل کئی مرحلوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے ذخائر کی حقیقی مقدار کے تعین کے لیے کئی ٹیسٹ کرنا پڑتے ہیں؛ دوسرے مرحلے میں گیس نکالنے کے لیے کئی پلیٹ فارم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بحیرہ اسود اپنی تند و تیز لہروں کی وجہ سے کافی بدنام ہے۔ قدرتی گیس تلاش کرنیوالی ترکش نیشنل پٹرولیم کمپنی کے کئی پلیٹ فارم ان لہروںکی نذر ہو چکے ہیں۔ امید ہے کہ کمپنی نے اپنے تلخ تجربے سے کافی سبق سیکھے ہوں گے۔
گیس کے ذخیرہ کی 3500میٹر کی گہرائی بھی ایک چیلنج ہے کہ وہاں سے گیس نکالنے کے لیے ایک تیرنے والے پلیٹ فارم کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت رائل ڈچ شیل کا تیرتا ہوا پلیٹ فارم خلیج میکسیکو میں 2438 میٹر کی گہرائی سے گیس نکال رہا ہے، اس پلیٹ فارم کی تعمیر پر 3 ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئی تھی۔ ایک اور تیرتا ہوا پلیٹ فارم 2600میٹرز کی گہرائی سے گیس نکال رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں ایسا پلیٹ فارم جو کہ 3500میٹر کی گہرائی سے گیس نکال سکے، اسے ابھی تیار کرنا ہو گا۔ اگر 2 متوقع ذخائر سے بھی گیس دریافت ہو گئی، غالب امکان ہے کہ ان کی گہرائی 3500میٹرز سے زیادہ ہو گی۔ گیس فیلڈ جتنا گہرا ہو گا، گیس نکالنے کی لاگت اسی قدر بڑھ جائے گی۔ نئے دریافت شدہ ذخیرہ سے گیس نکالنے کی لاگت کا اندازہ 5 سے 6 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔ ترکی کے لیے اس وقت قومی بجٹ میں اتنی بڑی رقم مختص کرنا ممکن نہیں، لامحالہ اس منصوبے کے لیے عالمی فنانشل مارکیٹ سے قرضہ حاصل کرنا پڑے گا۔
ترکی نے ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کئی ملکوں کے ساتھ گیس کی خریداری کے معاہدے کر رکھے ہیں، ان میں تین ملک روس، الجزائر اور نائیجریا کے ساتھ معاہدوں کی میعاد اگلے سال ختم ہو جائے گی۔ ان ملکوں کے ساتھ گیس خریداری کے لیے بات چیت ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ترکی کو گیس کی سخت قلت کا سامنا تھا۔ بحیرہ اسود میں گیس کی دریافت کے بعد تینوں ملکوں کے ساتھ خریداری کے نئے معاہدے کے حوالے سے ترکی قدرے مضبوط پوزیشن میں بات کر سکے گا۔ نئی دریافت نے صدر اردوان کو ترکش عوام کے ساتھ یہ وعدہ پورا کرنے کا موقع دیا ہے کہ وہ جدید ترکی کے قیام کی ایک صدی مکمل ہونے سے قبل ہر ترک صارف کو گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ ترکی کا اگلا صدارتی انتخاب جو کہ شیڈول کے مطابق 2023ء میں ہو گا، اس سے قبل صدر اردوان گیس منصوبے کی تکمیل یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
دیکھا جائے تو قدرتی گیس کی دریافت سے ترکی کچھ حد تک اپنے وسائل سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا، تاہم اس دریافت کو ترکی کے گوناگوں سنگین معاشی مسائل کے حل کا نسخہ کیمیا ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔