... loading ...
دوستو، فٹنس، جوانی اور خوشی کا راز روپے پیسے اور لگژری لائف ا سٹائل میں نہیں ہے بلکہ ہیلن تھامس نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق انسان کے دماغ سے ہوتا ہے۔برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر آپ درست مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں تو آپ مذکورہ بالا تمام چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ہیلن تھامسن نے اس حوالے سے ’پلیسیبو‘ (Placebo)کی مثال دی جو ایسی بے اثر گولی ہوتی ہے جسے سائنسدان کسی دوا کے تجربے میں رضاکاروں کے ایک گروپ کو دیتے ہیں۔ یہ دوا حالانکہ بے اثر ہوتی ہے اس کے باوجود اکثر اوقات تجربات میں جن لوگوں کو یہ گولیاں دی جاتی ہیں ان میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آ جاتی ہے اور اس تبدیلی کا تعلق صرف ان لوگوں کے دماغ سے ہوتا ہے۔ انہیں توقع ہوتی ہے کہ اس گولی سے ان کے جسم میں یہ فرق آئے گا چنانچہ کسی حد تک ان کی توقع پوری ہو جاتی ہے۔ ہیلن تھامسن کا کہناتھا کہ ’’دماغ ایسی پراسرار چیز ہے کہ اگر آپ ان لوگوں کو بتا بھی دیں کہ یہ گولی بے اثر ہے، اس کے باوجود ان پر اس گولی کا کسی نہ کسی حد تک اثر ضرور ہوتا ہے۔چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری صحت، فٹنس، جوانی اور خوشی وغیرہ کا تعلق بہت حد تک ہمارے دماغ سے ہوتا ہے۔اگر آپ کا موڈ آف ہے تو آپ ایک تجربہ کرکے دیکھیں ۔ ایک پنسل لیں اور اسے اپنے دانتوں میں 10سیکنڈ کے لیے اس طرح پکڑیں کہ ہونٹ پنسل کو نہ چھونے پائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ صرف ان 10سیکنڈز میں آپ کا موڈ قدرے خوشگوار ہو جائے گا۔ اگر آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر چند بار یہ عمل دہرائیں تو خود بخود آپ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جائے گی۔‘‘ہیلن تھامسن کا کہنا تھا کہ ’’فٹنس کے لیے اس حوالے سے مختلف چیزوں کا علم ناگزیر ہے۔ امریکا میں ایک تحقیق کی گئی جس میں ہوٹل کے 84صفائی کرنے والے ورکرز کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو بتایا گیا کہ کون سا کام کرنے سے ان کے جسم میں کتنی کیلوریز جلیں گی اور وہ کتنے فٹ ہوں گے۔اس کے علاوہ ان دونوں گروپوں کے لوگوں میں خوراک یا سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ایک مہینے بعد جب ان کا دوبارہ وزن کیا گیا تو پتا چلا کہ جن لوگوں کو معلومات دی گئی تھیں ان کے وزن میں اوسطاً 1کلوگرام کمی ہو گئی تھی اور ان کا فٹنس لیول بہت بڑھ گیا تھا۔ اس کے برعکس دوسرے گروپ کے لوگوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فٹنس اور صحت مندی کاتعلق بہت حد تک ہمارے دماغ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم اپنے دماغ کو دکھائیں اور درست مائنڈ سیٹ رکھیں تو فٹنس، صحت مندی اور خوشی کا حصول بہت آسان ہو جائے گا۔
باباجی فرماتے ہیں،انسان کی جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے وہ امیر ہوتا جاتا ہے،بالوں میں چاندی،دانتوں میں سونا،پتہ اور گردے میں قیمتی پتھراورکبھی نہ ختم ہونے والی گیس کا مالک بن جاتا ہے۔۔ کورونا کی دوسری لہر ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں دولت اور کورونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں کے درمیان ایک گہرے تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ اس تحقیق میں امریکی تحقیق کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ امیر ہے وہ فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلے جیسی پابندیوں کا اتنا ہی زیادہ خیال رکھتا ہے۔ اس تحقیقاتی سروے میں ماہرین نے ایک ہزار شہریوں سے کورونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں بارے سوالات پوچھے اور ان کا ان کی آمدنی سے موازنہ کرکے نتائج مرتب کیے۔یہ سروے بالٹی مور کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین کی طرف سے کیا گیا جس کے نتائج میں معلوم ہوا کہ سالانہ 10ہزار پائونڈ یا اس سے کم آمدنی والے افراد کی نسبت امیر افراد کے کورونا وائرس سے متعلق پابندیوں پر عمل کرنے کا امکان 54فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ سروے میں شامل امیر لوگوں میں فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلے رکھنے سمیت دیگر پابندیوں پر عمل کرنے کی شرح غریبوں کی نسبت کہیں زیادہ پائی گئی۔
کسی بیمار کی عیادت کے لیے جائیں تو امریکی کہتے ہیں۔۔گیٹ ویل سون۔۔عربی کہتے ہیں۔۔ اللہ شفا دینے والا ہے۔۔برطانویوں کا کہنا ہوتا ہے۔۔ آپ کی جلد صحت یابی کے خواہشمند ہیں۔۔ جب کہ ہماری قوم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتی ہے تو کہتے ہے۔۔ہمارے محلے میں بھی ایک بندہ اسی بیماری سے مرا تھا۔۔کہتے ہیں کہ ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔۔خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوہے دانی تھی۔۔خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پچھلے حصے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آ گئی ہے۔۔کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا۔۔مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ۔۔جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔مایوس چوہے نے جا کر بکرے کو یہ بات بتائی توبکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔اسی رات چوہے دانی میں کھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔۔اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی نے اس کو نکالا اور سانپ نے اسے ڈس لیا۔۔ طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا،حکیم نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا۔۔خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کے لیے اگلے دن مرغ کو ذبح کیا گیا۔۔کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی،جنازہ اور موت ضیافت میں بکرا پروسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔۔چوہادورجاچکاتھا۔۔بہت دور۔۔واقعہ کی دُم:اگلی بار کوئی آپ کو اپنے مسئلے بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیں۔۔ہم سب خطرے میں ہیں۔۔سماج کا ایک عضو، ایک طبقہ، ایک شہری خطرے میں ہے تو پورا ملک خطرے میں ہے۔۔ذات، فرقہ اور طبقے کے دائرے سے باہر نکلیں۔۔خود تک محدود مت رہیے۔۔ دوسروں کا احساس کیجئے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔’’مشکلیں تمہارا راستہ روکنے کے لیے نہیں بلکہ تمہیں تمہاری طاقت سے آشنا کرنے کے لیے آتی ہیں‘‘۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔