... loading ...
جس طرح راز کی بات کسی پر افشاء ہونے کے بعد ،راز نہیں رہتی ،بعینہ اسی طرح اگر ایک خفیہ رپورٹ کی مندرجات کسی بھی ذریعے سے دنیا بھر پر افشاء ہوجائیں تو ایسی دستاویز کے خفیہ ہونے پر اصرار کرنا بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک ’’ابلاغی بے وقوفی‘‘ امریکی ویب سائٹ ایکسیوس کی جانب سے اُس وقت دیکھنے میں آئی ،جب ویب سائٹ کی انتظامیہ نے دعوی کیا کہ ’’ان کی باریک بین نگاہوں سے وائٹ ہاؤس انتظامیہ کی ایک ایسی خفیہ رپورٹ گزری ہے ، جس میں چین سے نمٹنے کے لیے بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنے کے لیے ممکنہ عالمی حکمت عملیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیاہے‘‘۔ ویب سائٹ منتظمین کے مطابق یہ خفیہ رپورٹ 10 صفحات پر مشتمل ہے ،جسے 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا اوراس دستاویز میں اُس امریکی پالیسی کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ جس پر عمل پیرا ہوکر بھارت کو اگلے تین برسوں میں چین کے خلاف سیاسی،معاشی ،دفاعی اور عسکری محاذ پر کس طرح سے کھڑا کرنا ہے۔یاد رہے کہ اَ ب تک خفیہ کہلائی جانے والی مبینہ دستاویز کے بارے میں ایکسیوس ویب سائٹ کا دعوی مکمل طور پر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ اگر امریکی دستاویز میں درج عالمی حکمت عملیوں پر درست معنوں عمل ہوا ہو تو پھر 2021 ہی وہ سال بنتا ہے ،جس میں بھارت کو چین کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہوجانا چاہئے۔
بظاہر ایکسیوس ایک مستند امریکی تھنک ٹینک کی قابلِ بھروسہ ویب سائٹ ہے،نیز جوخبر ویب سائٹ کے منتظمین نے پیش کی ہے ،اس طرح کی ملتی جلتی خبریں پہلے بھی عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں ۔اس لیے یہ خبر اتنی بھی خفیہ نہیں ہے ،جتنی کہ اس کی بار بار گردان کی جارہی ہے۔ لیکن یہ خبر دنیا بھر میں زیادہ ہلچل کا باعث کچھ اس لیے بھی بنی ہوئی ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی خبر کے ساتھ پہلی بار وائٹ ہاؤس کو براہ راست منسلک کیا گیا ہے اور اَب عالمی ذرائع ابلاغ میں پورے شد و مد کے ساتھ زیر بحث ہے کہ گزشتہ تین سال میں اس خفیہ امریکی دستاویز پر کتنا عمل ہوچکاہے؟یا بھارت چین کے خلاف کھڑا ہونے کی کس قدر طاقت ور حیثیت میں آچکا ہے؟۔لیکن ہمارے خیال میں اس طرح کے دیگر سوالات کے جوابا ت حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ کیوں نہ پہلے یہ معلوم کرلیا جائے کہ آخر وائٹ ہاؤس کی خفیہ قرار دی جانے والی دستاویز الیکٹرانک میڈیا عالمی پرنٹ میڈیا پر افشاء ہونے کے بجائے ایک چھوٹی سی غیر معروف ویب سائٹ کے ہاتھ کس طرح لگ گئی ؟۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس خفیہ رپورٹ پر کئی عالمی تجزیہ کاروں کو شدید تحفظات ہیں اور وہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ’’ چونکہ ایک ویب سائٹ سے منسلک افراد میں ’’اہم خبر ‘‘تلاش کرنے کی وہ صلاحیت نہیں ہوتی ، جو کہ ایک پیشہ ور صحافتی ادارے یا صحافی میں پائی جاتی ہے ۔ اس لیے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ خفیہ دستاویز ٹرمپ انتظامیہ نے خود ہی ویب سائٹ کو فراہم کردی ہو۔ تاکہ امریکا میں جاری داخلی بحران میں انتظامی بحران کا تڑکا لگا کر نئے امریکی صدر جو بائیڈن کے لیئے وائٹ ہاؤس میں مشکلات کھڑی کی جاسکیں ۔کیونکہ اس خفیہ دستاویز کے منظر عام پر آنے چین نے جس طرح کے جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا ہے یقینا اس سے جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ کی سفارتی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے‘‘ ۔
جبکہ بعض ماہرین سیاسیات یہ بھی سوالات کر رہے ہیں کہ چین کے خلاف وائٹ ہاؤس میں تیار ہونے والی ایک اہم ترین دستاویز کے عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے کے بعد مستقبل میں امریکا کو فائدہ ہوگا؟یا چین کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا ؟ یا پھر بھارت کو سفارتی محاذ پر شرمساری اور سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا؟۔دراصل ان تینوں سوالات کا ایک ہی جواب دیا جاسکتاہے کہ اس خبر کی بے وقت اشاعت نے چین کے دیرینہ موقف کی مکمل طور پر تائید کردی ہے کہ امریکا ، بھارت اور اپنے دیگر اتحادیوں کی مدد سے اُس کی ملکی بقا اور سلامتی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔لہٰذا ،اس خبر سے چین کو زبردست فائدہ ہی ہوا ہے جبکہ بھارت کے سفارتی حلقوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہے کیونکہ بھارتی قیادت کے منافقانہ موقف کے برعکس یہ خبر ثابت کرتی ہے کہ بھارت مکمل جانب داری کے ساتھ ہر محاذ پر چین کی مخالفت کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔پس ! جیسی خبر ،ویسا جواب کے مصداق چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’چین کے ہاتھوں سفارتی محاذپر پے درپے شکستوںکے باوجود بھی کچھ امریکی رہنما چاہتے ہیں کہ وہ اپنی وراثت خفیہ دستاویزات کے ذریعے چھوڑ کر جائیں۔ لیکن ان دستاویزات سے امریکا کے برے ارادے ہی واضح ہوکر سامنے آتے ہیں اور معلوم ہوتاہے کہ وہ ہمارے علاقے کے امن اور استحکام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آمرانہ حکمت عملی ہے، جسے ہم کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔جبکہ خفیہ دستایز میں پیش کی گئی حکمت عملی سے سرد جنگ والی ذہنیت اور اپنے مخالف ممالک کو فوجی تصادم پر اکسانے والی بدنیتی کی عکاسی ہوتی ہے۔مگر ہم امریکا اور اس کے تمام اتحادیوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کی یہ حکمت عملی اَب کی بار بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوگی کیونکہ چین اپنے علاقے میں ہر خطرے سے نمٹنے کے لیئے پوری طرح سے چوکس اور تیار ہے‘‘۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے واضح ،بے باک اور جارحانہ ردعمل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چین اپنی ریاستی سلامتی کے خلاف کھڑا ہونے والوں کے مقابل کس طرح کی مضبوط سفارتی حکمت عملی اوردفاعی تیاری رکھتاہے۔ ویسے یہ خفیہ رپورٹ بھلے کتنی بھی مصدقہ یا غیر مصدقہ کیوں نہ ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکا کی لاکھ خواہش اور کوشش کی باوجود بھی بھارت تین برسوں میں خفیہ دستاویز کے مندرجات کے مطابق حسب ِ منشا نتائج دینے سے قاصر رہا ہے۔ بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ جس بھارت نے خطے میں چین کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کھڑا ہونا تھا۔بدقسمتی سے آج کل وہ ہی بھارت وادی لداخ میں چین کے سامنے لم لیٹ یعنی عسکری محاذ پر پوری طرح سے ملیامیٹ ہو چکاہے۔ ہمارا تو خیا ل ہے کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے بھارتی قیادت کو دنیا بھر میں تماشا بنانے کے لیے جان بوجھ کر رپورٹ کو افشا کروایا ہے۔ تاکہ بھارت کو احساس شرمندگی میں مبتلا کیا جاسکے کہ انہوں نے چین کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے اُسے کتنی معاشی و عسکری مدد بہم پہنچائی لیکن بھارتی قیادت پھر بھی چین کے خلاف امریکی توقعات پر پورا اُترنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک امریکی وزارت خارجہ نے ایکسیوس ویب سائٹ کی جانب سے دی جانے والی خبر کی واشگاف الفاظ تردید نہیں کی ہے جبکہ بھارت بھی ابھی تک اس خبر کی تردید کرنے کے لیے مناسب سفارتی الفاظ کا ذخیر ہ مجتمع نہیں کرسکا ہے۔
بہرکیف اَب بھارت کے لیے چین کے ساتھ جاری تصفیہ طلب تنازعات کا کوئی پرامن اور دیرپا حل نکال پانا مزید مشکل بھی ہوسکتاہے۔ کیونکہ وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ کے منظر عام آنے کے بعد چین بھی یقینا بھارت کو امریکا ایما پر اپنے سامنے کھڑا ہونے کے ناقابل معافی جرم کی کوئی نہ کوئی سزا تو ضرور دینا ہی چاہے گا۔مستقبل قریب میں چین کی جانب سے بھارت کو دی جانے یہ سزا معاشی میدان میں ہوسکتی ہے اور عسکری میدان میں بھی ۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ چین نے اس سمت پیش رفت شروع بھی کردی ہے اور ایران کے اندر کثیر سرمایہ کاری کرکے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ سے بے دخل کرنا بھارت کے معاشی مفادات کو زک پہنچانے کی ایک کوشش ہی تو ہے جبکہ عسکری میدان میں چین پہلے ہی بھارت سے وادی گلوان کا ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے چکا ہے ۔ علاوہ ازیں بھوٹان ،نیپال اور سری لنکا کا اپنے سرحدی علاقوںمیں بھارت کو آنکھیں دکھانا ،چینی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتاتھا۔
یوں سمجھ لیجئے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بڑھتی ہوئی سیاسی و سفارتی تنہائی کے سارے تانے بانے چین ہی بُن رہا ہے۔ بلاشبہ تین سال قبل 2018 میں ضرور بھارت کے بارے میں یہ موہوم سا گمان رکھا جاسکتا تھا کہ اسے چین کے خلاف کھڑا کیا جاسکتاہے لیکن 2021 میں بھارت کے بیرونی و داخلی بحرانوں کو دیکھتے ہوئے اتنی سی اُمید بھی نہیں رکھی جاسکتی کہ بھارت آنے والے ایام میں چین جیسی نئی عالمی طاقت کے خلاف گھٹنوںکے بل بھی کھڑا ہونے کی ہمت کرسکتاہے۔ ویسے بھی چین کو بخوبی ادراک ہے کہ اُس کی عالمی بالادستی کے قیام کے لیے ازحد ضرور ی ہے کہ اُس کے پڑوس میں بھارت جیسا بڑا ملک ایک مستقل معاشی و عسکری خطرہ کی صورت میں باقی نہ رہے ۔ اس لیے ہمیں یقین کامل ہے کہ بھارت کے ٹکڑے چین کی ہاتھوں ہی ہوں گے ،جبکہ پاکستان تو اِ س نیک کام میں فقط دامے ،ورمے ،سخنے معاونت فراہم کرے گا۔ دراصل چین اپنے سپر پاور ہونے کا باقاعدہ اعلان اُس وقت ہی کرے گا ،جس وقت اس کے پڑوس میں بھارت کے حصے ،بخرے ہورہے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔