... loading ...
(مہمان کالم)
ایمیلی شمل
حبیب ونگنو نے اپنے کشتی میں بنے ہوٹل سے جھیل کے پانی کا جائزہ لیا اور یاد کرنے لگا جب اس نے 1981ء میں کشمیر کے دورے کے دوران اپنی کشتی سے باہر نکلنے میں مک جیگر کی مدد کی تھی۔ مک جیگر نے اپنے اگلے دو ہفتے اسی کی کشتی کی اوپر والی منزل میں گزارے تھے۔Rolling Stones کے معروف سنگر نے ہمالیہ کے اس پار چاندنی رات میں ہونے والے ڈانس میں کشمیریوں کے سامنے اپنے گٹار کا جادو جگایا تھا۔ آج ناگن جھیل میں ویرانی ناچ رہی ہے اور وہ کسی قبر کی طرح خاموش ہے۔ کوئی سیاح ہے نہ آمدنی اور نہ ہی امید۔ حبیب ونگنو نے بتایا کہ ’’کشمیر میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی ہر جیب میں جاتی ہے۔ سب کا گزارہ اسی آمدنی سے ہوتا ہے۔ اور اس وقت وہاں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ ہمالیہ کے دامن میں واقع کشمیر ایک خوبصورت علاقہ ہے جو پچھلے کافی عرصے سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اب یہاں زندگی معطل ہے۔ سکول بند ہیں۔ پہلے لاک ڈائون ہوا۔ پھر ختم ہو گیا اور اب پھر لاک ڈائون نافذ کر دیا گیا ہے۔ کشمیر‘ جو کبھی مغربی اور مقامی سیاحوں کا مرکز ہوا کرتا تھا‘ میں پچھلے ایک سال سے سب کچھ بند ہے۔ کورونا سے چند ماہ قبل بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے مزید کئی سکیورٹی فورسز یہاں لایا تھا اور پھر کورونا نے یہاں کی زندگی مفلوج کر دی۔
سڑکیں فوجیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فوجی مورچے جو ختم کر دیے گئے تھے‘ دوبارہ بن گئے ہیں۔ شاہراہوں پر فوجی مسافر گاڑیوں کو روک کر تلاشی لیتے ہیں۔ ان مناظرکو دیکھ کر 1990ء کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جب بھارت نے مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے لاکھوں فوجی یہاں متعین کر رکھے تھے۔ کشمیر بھارت سے ملحق واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے جو کئی عشروں سے بدامنی کی شکار ہے۔ مقامی لوگ اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیر پر دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے درمیان اسی مسئلے کی وجہ سے دو جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اب کشمیر پر بھار ت کا قبضہ ہے اور اسے بھارتی قانون کے مطابق ’’متنازع علاقہ‘‘ کہنا بھی سنگین جرم ہے۔
حبیب ونگنو کی فیملی انتہائی کشیدگی کے زمانے میں بھی جھیل میں کشتی رانی کرتی رہی۔ ان کشتیوں میں بھار ت کی معروف شخصیات، نوجوان مہم جو اور بالی ووڈ کے فلمی ستارے بھی وقت گزارتے رہے ہیں۔ اب کشمیریوں کی ساتویں نسل اس کاروبار سے وابستہ ہے اور دیگر کشمیری لوگوں کی طرح ان کشتی رانوں کا انحصار بھی سیاحت پر ہے جو اب ایک خطرے سے دوچار ہو چکا ہے۔ دیگر ہائوس بوٹس کا حال اس سے بھی برا ہے۔ یہ کشتیاں برطانوی دور سے کشمیری جھیلوں میں چل رہی ہیں مگر اب کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ان کی حالت کافی خستہ ہو چکی ہے اور ان کی مرمت پر بھاری اخراجات اٹھیں گے۔ ان کشتیوں میں سوار لوگ اون کی شالیں اوڑھے رکھتے ہیں جو کندھوں سے پنڈلیوں تک لٹکتی ہیں۔ وہ زعفران اور بادام کی بنی چائے پیتے ہیں۔
کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ گزشتہ تیس سال سے جاری کشیدگی میں اس وقت صورت حال بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگست 2019ء میں اس ریجن کو خود مختاری اور ریاستی درجے سے محروم کر دیا تھا۔ اس اقدام سے کشمیری اپنی زمین اور ملازمتوں کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ نریندر مودی نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ا س خطے میں بھاری سرمایہ کاری لے کر آئیں گے مگر اس کے بجائے مزید پانچ لاکھ فوجی یہاں آئے اور کشمیر میں مکمل لاک ڈائون نافذ کر دیا گیا۔ اب تک کوئی سرمایہ کاری یہاں نہیں آئی اور لوگ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ کشمیر کے متمول سیاسی لیڈر آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بھارت انضمام چاہتا ہے۔ اس لیے کشمیری قیادت گرفتار ہے اور جیلوں میں بند ہے۔سری نگر کے رہنے والے محمد میر کہتے ہیں کہ ’’تم بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ یہ کر سکتے ہو تو کسی کے ساتھ بھی ایسا سلوک کر سکتے ہو‘‘۔ کشمیری شہری‘ جو اپنے دل کی بھڑاس آن لائن نکالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان پر دہشت گردی کے الزامات لگ جاتے ہیں۔ بہت سے حراست میں ہیں۔ پیرا ملٹری فورسز اچانک نمودار ہوتی ہیں۔ ایک دن وہ شاہ ہمدان کی خانقاہ پر پہنچ گئیں جو کشمیر میں دینِ اسلام لائے تھے۔ رات کے وقت فوجی چھٹی صدی عیسوی کی گوپادری ہل پر واقع مندر کی حفاظت پر مامور تھے۔ مقامی مسجد سے آنے والی موذن کی اذان پوری وادی میں گونجتی ہے۔ ماضی میں جب کشمیری مجاہدین اور بھارتی فوجیوں میں مسلح جنگ ہوتی تھی تو اس دوران بھی دنیا بھر کے سیاح کشمیر کا رخ کرتے ہوئے نہیں گھبراتے تھے مگر جب سے مزید بھارتی فوج یہاں آئی ہے شاید ہی کوئی سیاح کشمیر آیا ہو۔
سیاحوں کی آمد نہ ہونے سے غلام حسین میر کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ اب وہ اپنے جیولری بکس اور جار اپنے اوور سیز گاہکوں کو آن لائن بیچ لیتا ہے مگر بھارتی حکومت نے جب انٹرنیٹ، ٹی وی اور فون سروس بھی بند کر دی تو لوگوں کی مشکلات بڑھ گئیں۔ جب یہ سروسز بحال ہوئیں تو بھی انٹرنیٹ کی سپیڈ بہت سست تھی تاکہ لوگ سمارٹ فونز پر وڈیوز نہ چلا سکیں؛ چنانچہ محمد میر کے کئی آرڈرز ضائع ہو گئے۔ اب اس کے آرڈرز کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلنے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈل جھیل میں سیاحت کی حامی ہے جسے مقامی لوگ سری نگر کا جھومر کہتے ہیں۔ غریب فیملیز تو کشتیوں میں گھر بنا کر جھیل میں ہی رہتی ہیں اور انہوں نے لکڑی کے تختے جوڑ کر زمینی راستے بنائے ہوئے ہیں۔ اردگرد کے علاقوں کو جنگ زدہ قصبوں کے ناموں سے منسوب کر رکھا ہے۔ جیسے قندھار اور غزہ کی پٹی وغیرہ۔ لوگوں کا عمومی پیشہ ٹیکسی چلانا، کشتیوں کی مرمت اور سیاحوں کو تیرتے باغوں کی پیدا کردہ مقامی اشیا بیچنا ہے۔ اب چند مخصوص ملازمتوں کے علاوہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔
56 سالہ غلام محمد کا کہنا ہے کہ چونکہ یہاں کی زندگی پابندیوں کا شکار ہے اس لیے سیاحت ہی شہر کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ کسی سرگرمی کے نہ ہونے سے شہر جنگل کا سماں پیش کر رہا ہے۔ چند مقامی سیاحوں کے علاوہ ونگنو کے پاس ایک سال سے اور کوئی سیاح مہمان نہیں ہے۔ اگر چھ مہینے یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو وہ یہ پیشہ اپنی آٹھویں نسل یعنی اپنے بیٹوں ابراہیم اور اکرم کو منتقل نہیں کر سکے گا۔ ’’ہم تو کئی نسلوں سے اس پیشے میں اپنی جان ماری کر رہے ہیں اور ایک نیک نامی کمائی ہے۔ مگر اب تو کھیل ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ کے سوا کشمیریوں کا کوئی دوست نہیں ہے‘‘۔
اب چونکہ اس کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے اس لیے ونگنو بیکار بیٹھا گیسٹ بک کے صفحات پلٹتا رہتا ہے۔ ایک صفحے پر سنگر مک جیگر نے لکھا تھا ’’خدا کرے کہ تم ہمیشہ چمکتی دمکتی روشنیوں میں رہو‘‘۔ ناگن جھیل میں جھانکتے ہوئے ونگنو بولا کہ ’’یہاں تو کوئی روشنی نہیں ہے مجھے تو آگے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔