... loading ...
(مہمان کالم)
مصطفیٰ برغوثی
کووڈ کے خلاف اپنے عوام کو ویکسین لگانے کے اسرائیلی منصوبے پر بڑی تیزی سے عمل ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اپنے لوگوں کو ویکسین لگا دی ہے اور ایک مو?ثر ویکسین پروگرام کے طور پر دنیا بھر میں اس کی تعریف کا سلسلہ جاری ہے مگرکامیابی کی اس کہانی کا ا یک تاریک پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس کے زیر تسلط علاقوں میں بسنے والے پچاس لاکھ فلسطینی عوام کو ویکسین کی سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کا یہ پلان ہے کہ اگلے مہینے تک اپنے تمام شہریوں کو ویکسین لگا دی جائے گی تو دوسری طرف مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کو ویکسین نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں آج کل بڑے پیمانے پرکورونا پھیلا ہوا ہے۔ دونوں جگہوں پر 1 لاکھ 65ہزار 9سو انفیکشن کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ 1756 لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ روزانہ اوسطاً اٹھارہ سو کیسز سامنے آرہے ہیں۔
اسرائیل جہاں کووڈ کی اس نئی لہر کو روکنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے وہیں دوسری جانب اس کی بھرپو رکوشش ہے کہ جنوری تک اپنی پچیس فیصد اور مارچ تک اپنی پوری آبادی کو ویکسین لگا دے۔ اس تعداد میں چھ لاکھ یہودی آبادکار بھی شامل ہیں جو بین الاقوامی قانون کے مطابق مغربی کنارے میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں مگر ان کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ ہیں۔ ان سب لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی مگر اسی علاقے میں رہائش پذیر تیس لاکھ فلسطینیوں کو یہ ویکسین نہیں ملے گی۔ اسرائیل نے یہ حکم بھی جاری کر دیا ہے کہ جیلوں کی حفاظت پر مامور گارڈز کو بھی ویکسین لگائی جائے گی مگر جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کو نہیں لگائی جائے گی۔ اوسلو معاہدے کی رو سے اسرائیل اس امر کا پابند ہے کہ وہ کسی بھی وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ مل کرکام کرے گا، اس لیے یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو بھی ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے۔ تاہم اس کے برعکس اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے فلسطینی فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کے لیے ویکسین کی دس ہزار خوراکیں فراہم کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسرائیل اپنی ویکسین کی معلومات کبھی ا سکے ساتھ شیئر نہیں کرے گا فلسطینی اتھارٹی کو ویکسین سپلائی کے لیے غیر ملکی تنظیموں اور کمپنیوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے مگر جس رفتار سے اسرائیلی شہریوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے غزہ اور مغربی پٹی کے فلسطینی شہریوں کو اس سے کہیں سست رفتاری سے ویکسین فراہم ہو گی۔
عالمی تنظیم Covax نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو ویکسین فراہم کرے گی مگر یہ فروری سے پہلے دستیاب نہیں ہو سکتی۔ سپلائی کے بعد بھی اپریل تک صرف تین فیصد فلسطینی آبادی کو ہی یہ ویکسین لگائی جا سکتی ہے اور باقی آبادی کو سال بھر ویکسین لگانے کا سلسلہ جاری رکھنا پڑے گا۔ فلسطین اتھارٹی کی وزارت صحت نے اپنے طور پر آکسفورڈ آسٹرازینیکا اور روسی کمپنی ہوئی ویکسین سپوٹنک فائیو کی دو ملین خوارکوں کا انتظام بھی کر لیا ہے مگر ان کی جلد فراہمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ویسٹ بینک اور غزہ میں رہنے والے فلسطینی اپنی ہیلتھ کیئر کے خود ذمہ دار ہیں۔اس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی ویسٹ بینک کی انچارج ہے اور 2005ء میں اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد غزہ بھی ایک خود مختار علاقہ بن چکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اس علاقے پر اسرائیل اور اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا سرحدوں، کراسنگ اور فضائی حدود پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ویسٹ بینک کے 38فیصد رقبے پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے مگر ایک دیوار، چیک پوائنٹس اور اسرائیلی بستیوں نے اس علاقے کو تقسیم کر رکھا ہے۔
ویسٹ بینک کا ساٹھ فیصد علاقہ جو سی کیٹیگری کہلاتا ہے‘ فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہی نہیں ہے۔ اسی طرح غزہ میں کراسنگ، بارڈرز، فضائی اور بحری حدود اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔جنیوا کنونشن کی رو سے ایک قابض ملک‘ جو انکار کے باوجود اسرائیل ہے‘ کا یہ فرض ہے کہ وہ قومی اور مقامی اتھارٹی کی مدد سے مقبوضہ علاقے میں ہسپتالوں کے قیام، صحت عامہ اور حفظانِ صحت کو یقینی بنائے، خاص طور پر وبائی امراض کے پھیلائو کی روک تھام کے لیے تمام تر حفاظتی اور احتیاطی اقدامات کیے جائیں۔2018ء میں فلسطینی اتھارٹی میں ہیلتھ کیئر پر فی شہری 344ڈالرز خرچ کیے گئے تھے جبکہ ہر اسرائیلی شہری کی صحت عامہ پر 3324ڈالرز خرچ کیے گئے تھے۔ ہر روز اس بات کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ مغربی کنارے میں ہیلتھ کیئر سسٹم جواب نہ دے جائے اور اس سے بھی زیادہ خطرہ غزہ میں ہے جہاں کی آبادی اس سے بھی زیادہ گنجان ہے۔ یہاں بیس لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور ان کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔ اسرائیلی حکومت کا یہ فیصلہ کہ کووڈ کی ویکسین صرف اسرائیلی شہریوں کو فراہم کی جائے گی‘ نہ صرف غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ سب کیلئے تباہ کن نتائج کا بھی حامل ہے۔جب ہم نے اپنی میڈیکل کی ڈگری لی تھی تو تمام ڈاکٹروں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ اپنے طبی فرائض کی انجام دہی کے دوران ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھیں گے۔ کسی بھی مریض کو علاج کی سہولت کم یا زیادہ نہیں فراہم کی جانی چاہئے۔ اس طرح کی اپروچ سے میڈیکل کے شعبے کے وقار اور اہمیت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔