... loading ...
امریکا ایسا وعظ ہے جو مذہبی آزادی ،برداشت ،رواداری اور جمہوریت کی تلقین کرتا ہے لیکن حالیہ صدارتی الیکشن کے بعد اِس کا حال بہت بُرا ہے یہ بدحالی اُس کے عالمی کردار کو محدود کر سکتی ہے بدحالی نئے منتخب صدرسے عالمی تنازعات میں الجھنے کی بجائے اندرونی حالت بہتر بنانے کی متقاضی ہے چھ جنوری کے واقعات نے وعظ کی بدحالی دنیا پر آشکار کردی ہے لیکن یہ بدحالی ایجادات اور ترقی سے دور ہونے والی نہیں بلکہ معاشرے میں سرایت کرنے والی نسلی منافرت کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
انتخابی مُہم کے دوران ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا تھا کہ شکست کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کریں گے اورجب حتمی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہواتو کہے پر عمل بھی کیامگر عدالتوں کے ذریعے نتائج رکوانے میں کامیابی نہ ملی ایسا لگتا ہے کہ شکست سے محسوس ہونے والی ذلت و رسوائی ابھی تک اُن کے ذہن پر سوار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر انتخابی نتائج رکوانے میں چاہے کامیاب نہیں ہو سکے اور اُن کی صدارتی مدت میں محض چھ دن باقی رہ گئے ہیں تو نو منتخب صدر جوبائیڈن کی 20 جنوری کو منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں ہی خلل ڈال دیں لیکن یہ رویہ صحت مندانہ جمہوری روایات کے مطابق نہیں کانگرس کی عمارت پر حملے کے بعد امریکیوں میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میںہے ایک جائزے کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ77 فیصد ری پبلکن اور76فیصد ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں جمہوریت کو خطرہ ہے جبکہ چھپن فیصد ووٹر ٹرمپ کو کیپٹل حملے کا ذمہ دار جبکہ بیالیس فیصد بری الزمہ قراردیتے ہیں یہ امریکی جمہوریت کی کمزوری ظاہرکرتی ہے اِس لیے جمہوریت ،رواداری اور برداشت کادرس دینے والے امریکا کے خود کچھ سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ٹرمپ غیر جمہوری طریقے سے نہیں بلکہ کروڑوں امریکیوں نے ملک کو درپیش مسائل کا تدارک سمجھ کرصدر منتخب کیا اگر ٹرمپ کا لب و لہجہ درست نہیں یامتعصب ہیں تو اُنھیں منتخب کرنے والے کروڑوں لوگ بھی موجودہ صورتحال کے زمہ دارہیں جنھیںشائستہ بنانے کی تلقین لازم ہے۔
چھ جنوری کو امریکی جمہوریت میں پنپنے والے غیر جمہوری رویوں کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا ایک طرف اگر اتحادیوں نے مزمت کی تو کچھ ممالک نے سُکھ کا سانس لیا کیونکہ انھیں امریکا میں طاقت پکڑنے والے غیر جمہوری رویوں پر تنقید کا موقع ملا ہے دنیا کی واحد سُپر طاقت کے دارالحکومت پرتاریخ میں دوسری دفعہ ہونے والی چڑھائی کے دوران قانون سازاِدارے کے اراکین کو چُھپ کر جانیں بچانا پڑیں لیکن اِس بارطانوی فوجی چڑھائی کرنے نہیں آئے بلکہ دارالحکومت کو روندنے کا کام خود امریکیوں نے کیا جس کے بعدیہ سوال پھن پھیلائے کھڑاہے کہ کیاآئندہ دنیا کی واحد سُپر طاقت کسی ملک کے انتخابی نتائج کی شفافیت کی بابت وعظ کر سکے گی؟ موجودہ حالات میں ایسا کہنا مشکل ہے کیونکہ جس ملک کے صدر کے انتخابی نتائج بارے امریکی مخمصے میں ہیں وہ کسی اور ملک کو منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کی تلقین کاحق نہیں رکھتا روس ،چین ،ایران جیسے ممالک کے پاس اب جواب دینے کے لیے کافی مواد ہو گیا ہے اِ س لیے کسی سے شخصی آزادی کا مطالبہ کرنا خاصہ دشوار ہوگا کیونکہ جو ملک اپنے قانون ساز اِدارے کانگرس کے اراکین کو آزادانہ کام کرنے کا ماحول دینے کی سکت سے محروم ہو وہ کسی اور سے کیونکر مطالبات کا خلاقی جواز رکھتا ہے۔
جمہوریت کے درس دینے والے امریکا نے تیسری دنیا میں ہمیشہ غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار کی تبدیلی کی حمایت اور پارلیمنٹ کی بجائے آمریت کی حوصلہ افزائی کی پاکستان میں بھی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر اقتدار چھننے والوں کی سرپرستی ہوتی رہی تاکہ سرپرستی کے عوض مطالبات منوائے جا سکیں ٹرمپ بھی شمالی کوریا کے آمر کم جونگ آن کی تعریف اور اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر تذلیل کرتے رہے علاوہ ازیں مذہبی آزادی کے علمبردار امریکا نے بھارت میں بدترین مذہبی تعصب اور کشیدگی سے آنکھیں بند رکھیں مگر ایسے ممالک کے بارے میں حقائق کے منافی رپورٹس جاری کیں جہاں مذہبی آزادی کی صورتحال کافی بہتر ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے اُسے مخالف بلاک سے شکایات کے سواکچھ کرنا نہیں آتا مگرجو کٹھ پتلی کے کردار پر رضا مند ہو اُس کی خامیاں نظرانداز کردیتا ہے ٹرمپ نے اقتدار کے دوران مذہبی آزادی کے منافی ایک سے زائد فیصلے کیے جن سے مسلم مخالف جذبات پروان چڑھے اور جمہوری قدروں کی مٹی پلید ہوئی ممکن ہے صورتحال میں عمر رسیدہ نئی قیادت بہتری لانے میں کامیاب ہو جائے مگر طویل عرصہ تک پیہم کوشش کرنا ہوگی عمررسیدہ قیادت کی طرح جمہوریت کو بھی بوڑھا اور ناکارہ سمجھ لیا گیااورسفید فام کی برتری اورنسلی پرستی کے جذبات کم نہ ہوئے تو اتحاد و یگانگت کی فضا پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں امریکا تشدد کی روک تھام کا قائل ہے لیکن خود اندرونی طور پر اُسے تاریخ کے بدترین انتشار ،تقسیم اورنسلی تشدد کا سامنا ہے معاشرے میں رواداری اور برداشت کا عنصر کم ہوتا جارہاہے امریکی اِداروں میں بھی گورے اور کالے کی نسلی تفریق بڑھ رہی ہے جسے ٹرمپ نے مہمیز دی اسی کا عکس چھ جنوری کودنیا نے دیکھا ابھی تو چار اموات بھی ہوئیں مگر اسلحے کی بہتات والے معاشرے میں انتشار وتفریق سے نقصانات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ کئی ریاستوں میں اسلحے کے لائسنس کا وجود تک نہیں کچھ علاقوں میں لوگ ڈرائیونگ لائسنس دکھا کر اسلحے کا پر مٹ حاصل کر سکتے ہیں دنیا بھر کے شہریوں کے پاس اگر پینسٹھ کروڑ ہتھیار ہیں تو اِن میں سے چالیس کروڑ کے لگ بھگ امریکیوں کے پاس ہے جو ددنیا بھر کے اسلحہ بردار شہریوں کا اِ کسٹھ فیصد بنتا ہے اِس لیے امریکی قیادت کو چاہیے کہ دنیا کو نصیحت کرنے کی بجائے ملک میں امن و آشتی کی فضا قائم کرنے کی طرف دھیان دے موجودہ صدارتی الیکشن کے نتائج نے صرف نسلی منافرت کو ہوا نہیں دی بلکہ ریاستوں میں بھی خلیج پیدا کر دی ہے دنیا کو وعظ کرنے والا امریکا خود کیسے درپیش حالات پر قابو پاتا ہے یہ جو بائیڈن کے ساتھ اِداروں کا امتحان ہے۔
ٹرمپ کو مدتِ صدارت کی تکمیل سے قبل دوسری بارمواخذے کی تحریک کا سامنا ہے ایوانِ نمائندگان کے تین ری پبلکن سینٹر کی حمایت سے223 مواخذے کی قراردار منظور کرلی ہے جبکہ مخالفت میں 205 ووٹ پڑے قراردار میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر مائیک پینس اور کابینہ ٹرمپ کو نااہل قراردیکر اُن کو آفس سے بے دخل کرے لیکن نائب صدر ایسے کسی اقدام پر تیار نہیں جس سے بیس جنوری کو حلف برداری کی تقریب اور اقتدار کی منتقلی کے بارے شکوک وشبہات پیداہونا فطری امر ہے چاہے کیپٹل ہل حملہ کومحکمہ انصاف بغاوت کہے اور فوج آئین کے دفاع کرنے کا عزم دُہرائے امریکی معاشرے کو لگے زخم آسانی سے مندمل ہونے والے نہیں جب تک نسلی و مذہبی منافرت کا خاتمہ نہیں ہوتااور جمہوریں قدریں مضبوط نہیں ہوتیں ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکائونٹ اور یو ٹیوب چینل بند کرنا کافی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔