وجود

... loading ...

وجود

پراکسی جنگوں کی اہمیت اور دنیا کا مستقبل

جمعه 15 جنوری 2021 پراکسی جنگوں کی اہمیت اور دنیا کا مستقبل

آج کل دنیا میں فیفتھ جنریشن وارفیئر کا خاصا غلغلہ ہے اس پانچویں نسل کے طرز جنگ نے عالم انسانیت کی تاریخ کا بنیادی جنگی نظریہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ جنگ اب بین الالقوامی سرحدوں پر روایتی فوجوں کے ساتھ نہیں لڑی جاتی بلکہ اس میں میڈیا، معاشی بلیک میلنگ، پراپیگنڈا اور پراکسی وارفیئر سب اپنی اپنی جگہ اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن پراکسی تنظیمیں یا گروپ اس میں انتہائی اہم کردار کے حامل ہیں دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پراکسی وار درحقیقت ہر اس ملک کا ہراول دستہ یا عسکری فرنٹ لائن ہوتی ہے جس نے کسی دوسرے ملک پر جنگ مسلط کرکے اسے انتشار کا شکار کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ وقت میں ان پراکسی جنگوں کا پھیلائو شمالی افریقہ ،مشرق وسطی سے لیکر افغانستان تک دراز ہے ۔

جدید تاریخ میں پراکسی وار کا سب سے بڑا اور کامیاب تجربہ سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد تھا جس نے سوویت یونین کو تحلیل ہونے پر مجبور کردیا تھا جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ افغان مجاہدین کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھے بلکہ مختلف گروپوں میں تقسیم افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے تھے اور پاکستان، عالم عرب سے لیکر تمام یورپ اورامریکا تک خود تو براہ راست اس جنگ میں شریک نہیں تھے لیکن مجاہدین کی پشت پر یہ تمام قوتیںاپنے اپنے وسائل کے ساتھ کھڑی تھیں۔اس جنگ کا جو نتیجہ نکلا وہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن جو بات اس میں سب سے زیادہ اہم تھی اس سے مغرب نے جونتیجہ اخذ کیا وہ پراکسی طرز جنگ کی اہمیت تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستان سمیت کسی مسلم ملک نے اس طرز جنگ کی اہمیت کو جان لینے کے باوجود اس سے صرف نظر کیا۔امریکا ،یورپ اور اسرائیل نے اس طرزجنگ سے جو سبق حاصل کیا وہ یہ تھا کہ باقاعدہ روایتی فوج کے ذریعے مقاصد حاصل کرنا ایک مہنگا سودا ہے جس کی کامیابی کی کوئی ضمانت بھی نہیں۔ امریکا کو اس سلسلے میں کوریا اور ویت نام کی جنگ کا سبق یاد تھا ویت نامی گوریلوں نے جنہیں اس وقت ویت کانگ کہا جاتا تھا امریکا کے لیے سائیگان میں امریکی سفارتخانہ بھی غیر محفوظ بنا دیا تھااس جنگ میں ویت کانگ کی پشت پناہی چین اور سوویت یونین کررہے تھے ۔

گزشتہ صدی میں نوئے کی دہائی کی ابتدا میں جس وقت سوویت یونین افغان جنگ کی وجہ سے منتشر ہوا تو اس نے ایک طرح سے امریکا سمیت پوری مغربی دنیا کے کان کھڑے کردیئے تھے ۔ اس کے بعد کا مرحلہ ان مسلم پراکسی گروپوں کی کمر توڑنا تھا جن کے بل بوتے پر سوویت یونین کو شکست دی گئی تھی اس میں سب سے پہلے افغانستان کے جہادی گروپوں کی آپس کی جنگیں تھیں۔ اس کے لیے مسلم دنیا میں ایسی فضا پیدا کرنا مقصود تھا جس کی وجہ سے مسلم حکومتوں کو ان مجاہدین کی وجہ سے اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ امریکا اور یورپ کی صہیونی دجالی فکر اس معاملے میں ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی تھی اور بغیر کوئی ہتھیار استعمال کیے مسلم ملکوں کی فوجوں اور سیکورٹی فورسز کو استعمال کرکے ان جہادی تنظیموں کو ختم کرنا چاہتی تھی جو ماضی قریب میں سوویت یونین کی تباہی کا سبب بنے تھے۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والی جہادی تحریکوں میں دنیا کے تقریبا ہرخطے اور نسل کے مسلمانوں نے حصہ لیا تھا جس میں بڑا حصہ عالم عرب سے تعلق رکھتا تھااس لیے سب سے پہلے بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا نعرہ گھڑا گیااس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ تکفیری اصلاح کو بنیاد بناکر ان مسلم ملکوں کو بھی نشانے پر لے لیا گیا جو مستقبل میں اسرائیل اور عالمی صہیونی دجالیت کے خلاف صف آرا ہوسکتے تھے ان کے خلاف بین الالقوامی صہیونی دجالی مالیاتی اداروں کو بھی استعمال کیا گیا ۔ اس کی تازہ مثال سوڈان کی ہے جب تک سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان نہیں کیا اس وقت تک اس پر سے بین الالقوامی پابندیاں ختم نہیں کی گئیں لیکن جیسے ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اسے دہشت گردوں کی عالمی لسٹ سے نکال دیا گیا۔ اس صورتحال سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ دہشت گردی یا انتہا پسندی کا نہیںبلکہ عالمی دجالی صہیونیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا ہے۔

عالم عرب میں سب سے پہلے مصر اس کے بعد اردن کی حکومتوں کو اپنے ہاں سے گئے ہوئے مجاہدین کے خلاف کریک ڈائون شروع کروایا گیاان حکومتوں کو یہ خوف دلایا گیا کہ افغان جہاد سے واپس آنے والے جہادی اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں اسلامی حکومتیں قائم کردیں گے اس جنگی کیفیت نے جہادی تنظیموں کے اندر بھی ردعمل پیدا کردیا یو ں گزشتہ صدی میں نوئے کی دہائی کے دوران مسلم حکومتیں اور یہ جہادی تنظیمیں آپس میں دست گریباں ہوگئیںاور مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا بن گیا۔اس طرح مسلم ملکوں کی وہ پراکسی تنظیمیں جو اپنے اپنے ملک کی پہلی دفاعی لائن ثابت ہوسکتی تھیں انہیں اپنوں کے ہاتھوں ہی ختم کرانے کی کوششیں تیز ہوگئیں اور یہ کھیل نوئے کی دہائی سے نئی صدی میں زوروں پر رہا۔

نئی صدی کی ابتدانائن الیون کے ڈرامے کیساتھ شروع کی گئی سوویت یونین کی تحلیل کے ٹھیک دس برس بعد جب روس قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھااور چین اپنی معاشی حالت کو بین الالقوامی سطح پر لانے کے لئے سرتوڑ کوششوں میں تھا امریکہ اور اس کے صہیونی دجالی عسکری اتحاد نیٹو نے افغانستان کا رخ کیااور شمالی اتحاد کے غنڈوں کو ساتھ ملا کر ارادہ کیا کہ افغان طالبان کی پراکسی قوت جو اب حکومت کی شکل اختیار کر چکی تھی اسے قندھار میں ہی دفن کرکے روس اور امریکا کے سامنے عسکری دیوار بنادی جائے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرکے اسرائیل اور بھارت کے راستے کی آخری دیوار بھی گرا دی جائے۔ اسی مقصد کے لیے بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے لیے اسے افغانستان میں رسائی دی گئی تاکہ بھارت افغان سرزمین پر اپنی پراکسی تیار کرکے پاکستان کے اندر آگ اور خون کا بازار گرم کرسکے اور اس نے بڑی حد تک ایسا کیا بھی۔ دوسری جانب مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے عرب ملکوں میں راستہ بڑی حد تک ہموار ہوچکا تھا۔افغانستان کے بعد عالمی صہیونیت نے امریکا اور نیٹو کو استعمال کرکے عراق پر قبضہ جمایا تاکہ مشرق وسطی میں موجود بچی کچی جہادی تنظیموں (مسلم پراکسی) کو عراق میں اکٹھا کیا جاسکے اورپڑوسی اور مقامی حکومتوں کی مدد سے انہیں ہمیشہ کے لیے کچل دیا جائے۔

اس تمام دورانئے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بھرپور فائدہ اٹھایا اور مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے موسوم کرکے دنیا کو اپنے موقف کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کی تحریک آزادی حماس کو دہشت گرد تنظیم گردان کر اس کے خلاف پابندیاں لگوا دی گئیںیہ سب کچھ اقوام متحدہ جیسے صہیونی دجالی ادارے کی ناک تلے ہو رہا تھا۔اسی اثنا میں عراق میں عراقی مجاہدین نے سر اٹھالیا تو دوسری جانب افغان طالبان نے افغانستان پر امریکی حملے کے پانچ برس بعد پہاڑوں سے نیچے اترنا شروع کردیا اب دونوں جگہوں پر امریکا اور اس کے صہیونی دجالی عسکری اتحاد نیٹو کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے عراقی مجاہدین نے زیادہ ترمیدانی علاقہ ہونے کے باوجود سر توڑ کوششوں کے بعد امریکا اور اس کے مغربی حواریوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تو دوسری جانب افغان طالبان نے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کردی۔افغانستان اور عراق کی جغرافیائی صورتحال چونکہ بہت مختلف ہے اس لیے عراق سے جان چھڑانے کے لیے بغداد میں ایران نواز عناصر کو حکومت سونپ دی گئی تاکہ یہاں کے مسلمان امریکہ کو بھول کر آپس کی مسلکی جنگ میں الجھ جائیں ایران نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بغداد سے لیکر شام تک رسائی حاصل کرکے وہاں اپنی پراکسی تنظیموں کو سرگرم کر دیاکیا یہ سب کچھ امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے بغیر ممکن تھا۔۔۔؟ افغانستان میں چونکہ یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتی تھی اس لیے کابل کی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دینے کے باوجود اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی امریکا اور نیٹو پر رہی جبکہ یہ دجالی عسکری اتحاد خود اپنے قلعہ نما فوجی اڈوں تک محدود ہوگیاافغان نیشنل آرمی کے نام پر کرایے کے فوجی بھرتی کیے گئے دوسری جانب امریکا اور یورپ میں تشکیل پانے والے نجی عسکری اداروں کو مغربی پراکسی کے تحت افغانستان اور عراق میں اتار دیا گیا امریکی بلیک واٹر اور دیگر کے نام اس حوالے سے گونجتے رہے ہیں۔ لیکن افغانستان کی حد تک یہ سارے اہتمام بیکار ثابت ہوئے اور آج امریکا دوحہ میں افغان طالبان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اب دنیا پر جو حالات مسلط کردیئے گئے ہیں ان میں وہی ملک زیادہ کامیاب ہوسکیں گے جن کی اپنی عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ ان کی پراکسی تنظیمیں بھی مضبوط ہوں گئی۔دنیا میں جہاں تمام شعبے انقلابات کی زد میں آچکے ہیں وہاں روایتی جنگوں کا تصور بھی اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔اس سلسلے میں نیا سبق یہ ہے کہ امریکا اور عسکری اتحاد نیٹو کے ساتھ مل کر پراکسی کا مقابلہ نہیں کرسکا تو پیچھ کیا رہ جاتا ہے۔ مسلم دنیا اور خطے کے اہم ترین ملک پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کے لیے اس میں سوچنے سمجھنے کا خاصا مواد موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر