... loading ...
’’نام تو سنا ہی ہوگا۔۔‘‘ اگر یہ جملہ کسی ایک شخصیت پر پوری طرح سے صادق آسکتا ہے تو بلاشبہ اُس شخص کا نام سیٹھ عابد ہی ہوسکتاہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی ملک بھر میں کوئی شخص ایسانہیں مل سکے گا ،جس نے کبھی سیٹھ عابد کا نام نہ سنا ہو ،یا جسے سیٹھ عابد کی ذات سے منسوب کوئی افسانوی قصہ ازبر نہ ہو ۔ سیٹھ عابد نے ساری زندگی ایک جیتے جاگتے دیومالائی کردار کی طرح گزاری ،کسی کے نزدیک وہ ہیرو تھا توکسی کے نزدیک ایک ولن ۔کسی نے اُسے سونے کا اسمگلر جانا، تو کسی نے سونے کا بیوپاری۔کوئی اُسے محب وطن سمجھتا تھا تو کوئی اُسے اپنا محسن۔کسی نے ساری زندگی سیٹھ عابد سے حسد کیا تو کسی نے رشک ہی رشک۔یوں سمجھ لیجئے کہ محبت و نفرت ،شہرت و گمنامی ، نیک نامی اور بدنامی کے جتنے پھیکے اور شوخ رنگ دستیاب ہوسکتے تھے ، سیٹھ عابدکی پرکشش تصویر میں وہ سب کے سب بدرجہ اتم پائے جاتے تھے ۔
شخصی شہرت کی آخری حد اور معراج تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیٹھ عابد کا نام اکثر وبیشتر ضرب المثل کے طور پر بھی لیا جاتاہے ، یعنی جب بھی کوئی شخص اپنی دولت کی نمائش کرنے کے لیے شیخی بگھارنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے طنزاً کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ تم کتنے بڑے سیٹھ عابد ہو‘‘۔ افسوس صد افسوس کہ رواں ہفتے دست اجل نے اپنے سفاک قلم سے اُسی بڑے سیٹھ، سیٹھ عابد کی داستانِ حیات کی آخری سطر بھی رقم طراز کردی اور یوں تمام عمر زمانے بھر کو حیرت استعجاب میں مبتلا رکھنے والا شخص، ایک رات کراچی میں انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔سیٹھ عابد کی زندگی کی طرح اُن کی اچانک موت بھی سب کے لیے حیرانی و پریشانی کا باعث تھی ۔ سیٹھ عابد کے انتقال پرملال پر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی جانب سے ٹوئٹ کیے جانے والے تعزیتی کلمات سے اندازہ لگانا کافی سہل ہوگا کہ اُن کی موت دردِ دل رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہے۔
دراصل سیٹھ عابد سونے سے بنے ہوئے ایک ایسے آدمی تھے ،جن کی طبیعت اور فطرت میں ذرہ برابر بھی کھوٹ شامل نہیں تھا ۔منافقت اور ریاکاری اُن میں نام کو بھی نہ تھی ۔وہ جیسے تھے ،ویسے ہی نظر آنا چاہتے تھے ۔سیٹھ عابد کاپیشہ ہی نہیں بلکہ اُن کی نیکیاں بھی پراسراریت کے دبیز پردوں میں چھپی ہوتی تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے وطن ِ عزیز پاکستان میں بننے والے ہر بڑے عوامی و فلاحی منصوبے کی بنیاد میں وافر حصہ اُن کی کمائی کا بھی ضرور شامل ہوتا تھا لیکن خبر کم ،کم لوگوں کو ہی ہوتی تھی۔ شوکت خانم کینسر اسپتال میں اُن کی جانب سے کیے جانے والی مالی اعانت کا اعتراف تو خود عمران خان اپنے تعزیتی ٹوئٹ میں کرہی چکے ہیں ۔ لیکن کراچی میں عباسی شہید اسپتال ،جناح پوسٹ گریجویٹ اسپتال اور گونگے ،بہرے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے حمزہ فاؤنڈیشن جیسے اَن گنت انسان دوست اداروں کا قیام بھی سیٹھ عابد کی فیاضانہ طبیعت کے ہی مرہون ِ منت ممکن ہوسکا۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ انہوں نے بے پناہ دولت ،طاقت ور حیثیت ،عالمگیر شہرت اورزبردست اثرو رسوخ ہونے کے باوجود بھی کبھی براہ راست یا بلاواسطہ عملی سیاست میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔کہا جاتاہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ اُن کے ستارے ملتے ہی نہ تھے،مثال کے طور پر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سیٹھ عابدکو گرفتار کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی قائم کیا اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ’’موسٹ وانٹڈ ‘‘آپریشن بھی لانچ کیا ۔مگر لاکھ کوشش کے باوجود بھی انہیں کوئی بھی حکومت زیردام لانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔تا آنکہ 1977 میں سیٹھ عابد نے اپنی مرضی سے صدر ضیاء الحق کی حکومت کے سامنے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب اُن کا نام پہلی بار پاکستان کے جوہری پروگرام کے ساتھ گونجنے لگا ۔زبان زدِ عام ہے کہ ایٹم بم بنانے کے خواب کو عملی تعبیر میں بدلنے میں سیٹھ عابد کی بین الاقوامی ’’ہنرمندی‘‘ کا بھی بہت بڑا اور ناقابل فراموش کردار رہاہے۔
واضح رہے کہ سیٹھ عابد کے ساتھ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے بغض و عناد نے بھی اُنہیں پاکستان میں ایک ہیروکے درجے پر فائز ہونے میں خوب مدد بہم پہنچائی ۔بھارت میں موسٹ وانٹڈ ہونے کے بعد وہ پاکستان میں موسٹ فیورٹ بن گئے اور پاکستانی ان کا تذکرہ اپنی نجی محفلوں میں ایک فلمی ہیرو کی طرح کرنے لگے۔ ایک ایسا ہیرو جو تاریک دنیا کا باسی ہوتے ہوئے بھی اُن کے ملک کے دشمنوں کو دنیابھر میں رسوا اور شرم سار کررہاہے۔ ویسے اس طرح کی سینہ گزٹ کہانیاں، کافی حد تک ،مبنی بر حقیقت بھی تھیں۔کیونکہ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیٹھ عابد دنیا بھر میں سونے کے کاروبار میں بھارت کی اجارہ داری ختم کرنے کا بنیادی سبب تھے ۔ خود بھارتی میڈیا بھی کئی بار اس بات کا برملا اعتراف کرچکا ہے کہ سیٹھ عابد نے سونے کی اسمگلنگ کو بامِ عروج تک پہنچا کر کے اُن کے تجارتی مفادات کو شدید ترین نقصان پہنچایا ہے۔علاوہ ازیں خود سیٹھ عابد بھی اپنے سونے کے بیوپار کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ ’’میں سونے کا اسمگلر نہیں ہوں ، میں توبس ! اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کے لیے سستا سونے فراہم کرنے کی ایک کوشش کرتاہوں ‘‘۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ جب سے سیٹھ عابد نے اپنا پیشہ ترک کیا ہے ،تب سے ہی گویا ملک میں سونے کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں ۔ کیونکہ سونے کو امیروں کی تجوری سے نکال کر غریب کی دہلیز تک پہنچانے کو بدنام زمانہ ہنر فقط انہیں کے پاس تھا‘‘۔
سیٹھ عابد سے منسوب اتنی ساری کہانیوں اور افسانوں میں کس قدر سچ یا کتنا جھوٹ موجود ہوگا ۔کوئی نہیں جانتا اور شاید اَب کوئی جان بھی نہ سکے کیونکہ جس نے اَن سارے راز وں سے پردہ اُٹھا نا تھا، اَب و ہ خود ہی منوں مٹی تلے محوخرام ہے۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ سیٹھ عابد کل بھی ہماری پراسرار گفتگو کا ایک اہم جز تھا اور یقینا آئندہ بھی رہے گا۔دراصل سیٹھ عابد سے منسوب جھوٹی سچی ساری کہانیاں اتنی دلچسپ ،محیرالعول اور وطن کی محبت میں شرابور سی لگتی ہیں کہ ان قصوں کو جب بھی کوئی سنائے گا، سننے والے کو لطف ضرور آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔