... loading ...
سندھ حکومت میں آئے دن کرپشن اور غبن کی خبریں آنے سے ایک طرف اداروں کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے، تو دوسری جانب عوام میں بھی بداعتمادی بڑھتی جا رہی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے عوامی مفاد کے منصوبوں میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکلرریلوے اور ٹرانسپورٹ کے منصوبے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔قومی ادارہ امراض قلب ، میں ایک برس میں 58 ارب 68 کروڑ کے فنڈ غبن ، اور جعلی پینشنرز کے نام پر سوا دو ارب کے فراڈ کی خبریں، سندھ حکومت کی گذ گورنس پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کی نیک نامی پر بھی اب دھبے دکھائی دے رہے ہیں۔ سرکلر ریلوے کی بحالی اب خواب ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ریلوے کراسنگ اور پیڈ اسٹرین برج کی تعمیر کاکام بھی شروع نہیں ہوسکا ، تمام اسٹیشنز بحالی کے منتظر ہیں جبکہ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ ریلوے اس منصوبے پر خسارے میں ہے، اس لیے دوسرا مرحلہ شروع کرنے پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ریلوے کے وفاقی وزیر کی تبدیلی اور عدم توجہی کے باعث ریلوے اسٹیشن کے رنگ وروغن کے لیے ٹینڈر جاری نہیں کیے جاسکے، ٹریک پر پلوں کی تعمیر کا آغاز نہ ہوسکا ہے۔ پاکستان ریلوے کراچی ڈویڑن نے عدالتی حکم پر دو ماہ قبل کراچی سرکلر ریلوے کی عارضی بحالی کردی تھی جس میں سرکلر ریلوے کو مین لائن پر ہی چلا دیا گیا تھا جب کہ اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید نے دوسرے مرحلے کا آغاز 18 دسمبر2020سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا ، اس ڈیڈ لائن کو ایک ماہ کا عرصہ گزر ، اب وفاقی وزیر شیخ رشید ریلوے سے فارغ ہوگئے ہیں، اور اعظم خان سواتی کو ریلوے کی وزارت سونپی گئی ہے۔ انھوں نے اس منصوبے کو ترک کرنے کا عندیہ دیا ہے، اعظم سواتی نے حالیہ دورے میں ریلوے افسران کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں سرکلر ریلوے کو خسارے کا سودا قرار دیا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے 1964 میں شروع کیا گیا تھا جو کراچی کے ڈرگ روڈ سٹیشن سے شروع ہوکر وسط شہر تک عوام کو سفر کی سہولت بہم پہنچاتا تھا۔ 1999 میں پاکستان ریلویز کے حکام نے اس کو مکمل طور پر بند کردیا تھا۔تین کروڑ آبادی کے اس شہر میں چند ہزار ٹوٹی پھوٹی بسیں عوام کو سفر کی سہولت پہنچانے میں ناکام ہیں۔شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث2005 میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کے منصوبے کا اعلان کیا گیا، مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔چند سال پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سرکلر ریلوے کی بندش کا نوٹس لیا اور حکومت کو اس کی بحالی کی ہدایت دی، مگر حکومت اس کو بحال کرنے میں ناکام رہی۔2020 کے آغاز میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کے سی آر کو تین ماہ میں بحال کرنے کا سختی سے حکم دیا۔ مگر یہ پھر بھی بحال نہ ہوسکا۔تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ دنوں جاری حکم کے بعد پاکستان ریلویز نے 16 نومبر کو جزوی طور پر سرکلر ریلوے بحال کی تھی۔ جس میں ایک دن میں چار ٹرینیں چلائی گئیں۔ ہر ٹرین کے ساتھ پانچ بوگیاں، ہر بوگی میں 100 مسافر سفر کرسکتے ہیں، کراچی سرکلر ریلوے روزانہ چار ہزار مسافروں کو لے کر جاسکتی ہے۔ جو کراچی کے عوام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس کا یک طرفہ کرایہ 50 روپے ہے،جو مسافر بسوں سے زیادہ ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے محکمہ ریلوے کے لیے سفید ہاتھی بن گیا۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکلر ریلوے پر 20 دنوں میں ایک کروڑ روپے کے اخراجات ہوئے اور آمدن 4 لاکھ روپے ہوئی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ بہت جلد سرکلر ریلوے کے منصوبے کو بند کردیا جائے گا۔نیب سندھ میں بھی متحرک ہے اور نیب کراچی نے سوا 2 ارب روپے خزانے سے نکالنے کا فراڈ پکڑنے کی خبریں جاری کی ہیں، اس وزارت کا قلم دان پچھلے 12 سالوں سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پاس ہے کہا جارہا ہے کہ یہ فراڈ سرکاری ملازمین کے فنڈ میں کیا گیا۔2012 سے 2017 تک جعلی پنشنرز کے جعلی اکائونٹ کھول کر یہ پیسہ نکالا گیا۔150 جعلی اکائونٹس میں 95 فیصد اکائونٹ مراد علی شاہ کے علاقے دادو میں کھولے گئے۔ پنشن لینے والے 80 لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ ایک کے اکائونٹ میں 7 کروڑ اور اس کے تین بیٹوں کے اکائونٹ میں 34 کروڑ ڈالے گئے۔ سندھ میں بے نامی اکاونٹ کے بہت سے کیس ہیں۔جن کی فتیش کرنے پر بیشتر اکائونٹس ہولڈر اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان فراڈ اور بد عنوانی میں ملوث اکثر افراد کا تعلق پیپلز پارٹی سے بتایا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک اکاونٹ میں ڈیڑھ کروڑ روپے مخدوم امین فہیم مرحوم کے بیٹے جلیل الزماں کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے پلی بار گین کر کے جان چھڑا لی تھی۔سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی حزب اختلاف میں اپنی قیادت میں تبدیلی لا رہی ہے اور اب حلیم عادل شیخ کو لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں، فردوس شمیم نقوی اب استعفی دے رہے ہیں، گزشتہ دنوں انھوں نے کراچی میں گیس کے بحران پر سخت تنقید کی تھی۔حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پارٹی پر اور وزراء پر تنقید کرنے والے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے بھی حقوق کراچی مہم کے دوسرے مرحلے کا آغاز کردیا ہے، انھوں نے وزیر اعظم کی جانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ چار ماہ پہلے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے 11 سو ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ لیکن اب تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔