... loading ...
میدان ِ جنگ میں بڑے زورکارن پڑاہواہے متحارب ایک دوسرے پر بڑی شد ومدسے حملہ آورہیں ہرکوئی دشمن کو زیر کرنے کے لیے بڑی جواں مردی سے لڑرہاتھا اس دوران ایک مسلمان سپاہی کو پہاڑ کی کھوہ میں ایک بوتل ملی جس میں کوئی سیال شے تھی اس نے بوتل کھولی تو اس کی بو نے بتلادیا کہ وہ شراب ہے ،اس صحابی کوؓ نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ غٹا غٹ پی گیا پھر ام الخبائث نے جب اثر اثر دکھایا تو وہ الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگا،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سپہ سالار کو خبر ہوئی تو انہوں نے انتہائی غضب ناک ہوکر حکم دیا کہ اس کو زنجیروں میں جکڑ دو، میدان جنگ سے واپس بلالو بعدمیں فیصلہ کریں گے کہ اسے کیا سزا دی جائے۔
ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار جنگ ہورہی ہے، اس سے غلطی ہو گئی ہے حالات کا تقاضاہے آپ درگذرکریں، دلیر آدمی ہے بہاد ر ہے، دشمن کی تعداد اور اسباب ہم سے کہیں زیادہ ہیں چھوڑ دیجئے۔ !
دوسرے نے کہا ویسے بھی جنگ ہورہی ہے، ہمیں بندے بندے کی ضرورت ہے وہ کسی کو مارے گا یاخودمر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے ۔؟ چندایک نے سپہ سالارکو وقت کی نزاکت کااحساس دلایا سب کی باتیں اور مشورے سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر تنائو کم ہوگیاپھربڑی متانت لیکن پرعزم لہجے میں کہارسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے، خداکی قسم !میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا،مجھے خوف لاحق ہے ابو محجن ثقفیؓ کی وجہ سے میرے رب کی رحمتیں منہ موڑ جائیں گی، فتح شکست میں نہ بدل جائے میرا فیصلہ اٹل ہے جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو۔ دو تین سپاہی اٹھے انہوں نے بادل ِ نخواستہ ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کو بازوئوںسے پکڑا اور جاکرحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے خیمے میں رسیوں سے جکڑ دیا۔ کچھ دیر بعد جب شراب کا نشہ اترا تو اسیر نے دیکھا منظرنامہ بدل چکاہے وہ میدان ِ جنگ کی بجائے قیدی بنا رسیوںمیں جکڑاہواہے اسے اپنی غلطی کااحساس ہوا وہ دل ہی دل میں اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور اپنی خطاکی معافی مانگنے لگا پھر اس نے آواز دی کوئی ہے؟ کوئی جواب نہ پاکر اس نے پے درپے آوازیں دیناشروع کردیں ،اب ابو محجن ثقفی رونے لگ گیا۔ رونے اورسسسکیوں کی آوازیں سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے پوچھا کیابات ہے تم رو کیوں رہے ہو؟
ابو محجن ثقفیؓ کہنے لگا بہن میں کتنا مجبورہوں لیکن کچھ نہیں کرسکتا مجھے میری ماں کی قسم مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا،
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ بولیں تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی
’’میری آنکھوں کے سامنے میدان جنگ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ،ابو محجن ثقفیؓ کہنے لگا ہائے میں نے یہ گناہ کیوں کیا؟ بہن میں نے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرلی ہے مجھ سے یہ برداشت نہیں ہورہا کہ میرے آنکھوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں سے لڑائی ہورہی ہو اور میں بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتارہوں۔
پھر میں کیا کروں؟ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے جواباً کہا
وہ تڑپ اٹھا کہنے لگا، ہائے میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، کوئی کھولنے والا نہیں سب مسلمان میدان جنگ پر چلے گئے آپ کے سوا میری کوئی مدد کرنے والا نہیں للہ بہن رحم کھائیں، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کر زنجیریں پہن لوں گا مجھے رہا کر دو، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے ۔ روتے روتے ابو محجن ثقفی نے خاتون کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ اسی اثناء میں برابر والے خیمے سے رونے کی آوازیں آنے لگیں کسی بچے نے چیختے ہوئے کہا میرے بابا شہیدہوگئے کفارنے بڑا شدیدحملہ کیا ہے ۔ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی فریاد، آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی بیوی کا دل بھر آیا، اس نے زنجیروں کو کھول دیا۔ابو محجن ثقفی بڑے عزم سے اٹھ کھڑا ہوا اس نے اپنی زرہ نہیں پہنی، بکتر بند بھی نہیں پہنا، سراورمنہ ایک کپڑے میں چھپایا اور ننگے جسم کافروں کی اس صف پر ٹوٹ پڑاوہ دشمنوںکی صفوںمیں تن تنہا ایسے لڑرہاتھا جیسے بجلی کوندرہی ہو ،اس نے منظر نامہ ہی بدل کررکھ دیا، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک بلند جگہ پر کھڑے میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے،کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہیں، لیکن ایک تنہا آدمی آیا کافروں کی صف الٹ گیا، اور وہ جس طرف بھی گرتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے،
جس طرف کا رخ کرتا ہے کافر کٹے جاتے ہیں درجنوں کے ہاتھ پائوں تن سے جدا ہوگئے وہ جدھرجاتا دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ جاتی وہ تتربترہوناشروع ہوگئے ،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سوچنے لگے یہ کو ئی غیبی مدد ہے یا کوئی فرشتہ آسمان سے اتر آیاہے ۔انہوں نے سجدے میں سر رکھ دیا وہ بڑبڑارہے تھے ،اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے دشمن کی صفوں کو الٹ کررکھ دیا اسی کی کوشش سے اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی ورگرنہ میں بہت پریشان ہورہاتھا۔ وہ ابھی سجدے میں ہی تھے کہ کسی نے انہیں کندھے سے جھنجوڑ کر خوشخبری سنائی کہ کافر شکست کھاکر بھاگ گئے اور ان کے ساتھیوںکی لاشیں بے گوروکفن میدان ِ جنگ میں بڑی عبرت کا نشان بن رہی ہیں زخمی چلارہے ہیں۔ سپہ سالار نے سجدے سے سراٹھایا پھر بڑی بے تابی سے پوچھا وہ کون تھا جس نے جنگ کا نقشہ ہی بدل ڈالا؟
ہم نے اسے بہت تلاش کیا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا خوشخبری دینے والا بولا فتح سے سرشار کئی مسلمان سپاہی سپہ سالار کے گردجمع ہوگئے ہرکوئی اسے کے متعلق دریافت کررہاتھاسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس جنگ میں بیمار تھے، حرکت نہیں کر سکتے تھے، اسی لیے ٹیلے پہ بیٹھے فوجوں کو لڑا رہے تھے، اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے مجھے چھوڑ دو۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اسی کشمکش میں اپنے خیمے میں آگئے کہ وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ ا کہ کفارکے چھکے چھوٹ گئے درجنوں نے اسے ڈھونڈا، تلاش کیا نہیں ملا اسے زمین نگل گئی یا آسمان وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوگئے ،اس دوران ان کی اہلیہ بھی آن پہنچیں انہوں نے پوچھامعرکہ کیسا رہا؟ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سب ماجرا کہہ سنایا
اہلیہ نے مسکراکر کہا جسے آپ ڈھونڈ رہے ہیں میں اسے جانتی ہوں۔ ان کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملتے جلتے تاثرات ابھر آئے تم اسے جانتی ہو؟ اہلیہ نے شوخی میں سر ہلادیا۔
کیسے ؟ تم کیسے اسے جانتی ہو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے استفسارکیا کون ہے وہ؟
وہ میرا بھائی ہے اہلیہ نے کہا۔۔۔ تمہارا بھائی ،سپہ سالار کے لہجے میں حیرت تھی ،تمہارے بھائیوںکو میں بخوبی جانتاہوں نہیں وہ تمہارا بھائی نہیں یقینا کوئی اور ہوگا۔
سعد جس کو تم ڈھونڈ رہے ہو اہلیہ بولیں ،اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں اس نے مجھے اپنی بہن بنالیاہے پھرہوانا میرا بھائی؟
سعد بن ابی وقاص پلٹ کر کہنے لگے تم کیا کہتی رہی ہو میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا۔۔۔۔؟
اہلیہ کہنے لگیں میں درست کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لے گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے اب وہ میرا بھائی ہے ٹھہریں میں اس کی زنجیریں کھول کر یہاں لاتی ہوں۔
نہیںمیں اس کے پاس اپنے پیروں سے چل کر جانا چاہتا ہوں ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہاجس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کیا اور ایک یقینی شکست کو اپنی رحمت سے فتح میں بدل دیا یہ کہتے ہوئے وہ ایک بار پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔