... loading ...
معاشی مسائل کے حل کی موجودہ حکومت کی کاوشیں اپنی جگہ مگر اِس حقیقت سے نظریں چُرانا ممکن نہیں کہ بڑے مسائل نہ صرف بددستور برقرار ہیں بلکہ اُن کی گھمبیرتا میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ابھی گزشتہ دنوں ہی وزیرِ اعظم نے ماہانہ رپورٹ میں برآمدی شعبے کے اچھے نتائج اور بنگلہ دیش و بھارت کو پچھاڑنے پر اپنی لائق و فائق ٹیم کو مبارکباد دی مگرتلخ حقائق یہ ہیں کہ ملک میں عام آدمی کی زندگی مہنگائی اور بے روزگاری سے اجیرن ہوچکی ہے اخرجات میں کمی اچھی اطلاعات ہیں لیکن ادائیگیوں کے توازن میں بہتری نہیں آسکی اور سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت بھی کشکول لے کر عالمی اِداروں اور ساہوکار ممالک سے قرض لینے کے جتن میں مصروف ہے اِن حالات میں عام آدمی کی بے چینی کم نہیں ہو سکتی چاہے جتنے مرضی نعرے لگائے جائیں یا اچھی صورتحال کی عکاسی کی جائے جب تک مہنگائی و بے روزگاری کم نہیں کی جاتی کی اور فلاحی منصوبوں کا اجرا نہیں کیا جاتا حکومت اچھی کارکردگی کاتاثر بنانے میں ناکام رہے گی معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے حکومت کو بحرحل باتوں کی حد تک محدود رہنے کی بجائے عملی طور پر بھی کچھ کرنا ہو گا تب ہی بات بنے گی۔
گزشتہ پانچ ماہ کے 156 ارب کو شامل کرلیں تو گردشی قرضے دوہزار تین سوچھ ارب کاہندسہ چھونے لگے ہیں جسے کسی صورت سابق حکمرانوں کی حماقتوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں آئے اڑھائی برس ہونے کو ہیں اب کسی اور کو الزام دیں تو لوگ جھٹ سے موجودہ حکومت کی کارگزاری کی بابت سوال کرنے لگتے ہیں سابق دور میں یہ قرضے گیارہ سوارب تک محدود تھے یوں موجودہ حکومت کی طرف سے گردشی قرضوں میں کمی لانے کے دعوئوں کی صداقت پر یقین نہیں کیا جاسکتا پاکستان میں تو ویسے ہی کسی شعبے کے درست اعدادو شمار میسر نہیں اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی اطلاعات پر اکتفا کر نا پڑتا ہے لیکن اِس امر کو جھٹلانا ممکن نہیں رہا کہ ملک پر واجب الادا قرضوں کے انبار میں اضافے کے ساتھ گردشی قرضے کا بوجھ بساط کی آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں جن میں اگر حکومت کمی نہیں لاتی اور بددستود اضافہ ہوتا رہتا ہے تو حکمرانوں کی کارکردگی کے بارے تشویش کا جنم لینا قدرتی امر ہے گزشتہ اکتوبرمیں تابش گوہرکوتوانائی کے شعبے کا معاونِ خصوصی مقرر گیا وہ صرف تین ماہ بعد ہی مستعفی ہو چکے ہیں جن کے بارے باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ وہ سستی توانائی کی فراہمی بارے حکومتی پالیسیوں سے متفق نہیں تھے لیکن اُن کے جانے سے توانائی کمپنیوں سے مزاکرات کا عمل منقطع ہوگیاہے۔
گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع اور وسائل کے باوجود ہر حکومت کا حماقتوں کی روایت پر کاربند رہنا ہے اسی بنا پر صرف اڑھائی سال کی مدت میں دو گنا سے زائد اضافہ ہوچکاہے محتاط اندازے کے مطابق ہر مہینے تقریباََ پانچ ارب کامزیدا ضافہ ہورہا ہے حالانکہ بجلی کے نرخوں میں موجودہ حکومت ایک سے زائد بار اضافہ کر چکی ہے برآمدات میں ہونے والا حالیہ اضافہ مہنگی بجلی سے ذیادہ دیر برقراررکھنا مشکل بلکہ صنعتی پیداوار مفلوج ہوسکتی ہے مگر حکومت نے نقصانات کم کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ دی حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ لائن لاسز میں اضافہ ہورہا ہے اور باربارنرخ بڑھانے سے بجلی چوری کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے ظاہر ہے محض اظہارِ تشویش سے نہ تو لائن لاسز کم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی چوری اور گردشی قرضہ ختم ہو سکتا ہے جب تک عملی طور پر کوشش نہ کی جائے ۔روز بروز خراب ہوتی صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اصلاح اِ حوال کی عملی طور پر کوئی کوشش ہی نہیں کی اگر کوشش کی ہوتی تو حالات اِس حد تک نہ بگڑتے بجلی کی سپلائی متاثر نہ ہونے کی داد لینے کی بجائے قرضوں کے بنتے پہاڑ کا تدارک کرنا صلاحیت شمار ہوگا وگرنہ مستقبل میں قومی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ہفتہ کی شب پورے ملک کو بڑے بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا وجہ گدو اور مظفر گڑھ ترنظام میں فریکوینسی اچانک پچاس سے زیروپر آنے سے بڑے بجلی گھروں کا ٹرپ ہونا بتائی گئی جس سے متعدد علاقے اندھیرے میں ڈوب گئے جس سے افواہوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوابجلی کی بندش سے ثابت ہوگیا ہے کہ ملک کے ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں خرابی ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
آئی پی پیز سے سے مہنگے بجلی کے معاہدے کیے گئے جس میں ابہام نہیں لیکن معاہدوں میں شامل عوامی مفاد کے منافی شقوں کو حکومت نے ہی ختم کرانا ہے گزشتہ ماہ آئی پی پیز اور حکومت کے مابین گردشی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے بات چیت شروع ہوئی اور یہ نوید سنائی گئی کہ ادائیگیوں کے حوالے سے حکومت زیادہ سے زیادہ بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں سے رعایت لینا چاہتی ہے یہ بھی کہا گیا کہ مفاہمتی یاداشت کی جزیات طے ہوچکی ہیں لیکن تابش گوہر کے استعفے سے مزید تاخیر خارج از امکان نہیںکیونکہ بات چیت کے دوران جن نکات پر فریقین کے مابین رضا مندی ہوئی معاونِ خصوصی کی رخصتگی کے بعدحکومت لاعلم ہے یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
حکمرانوں کے پیشِ نظر کئی اہم معاملات ہوتے ہیں لیکن عوامی مفاد سے ہم آہنگ فیصلے نہ کرنے سے خرابی جنم لیتی ہے مثال کے طور پر گرمیوں میں دو سے اڑھائی ڈالر ملنے والی ایل این جی خرید کر سستی بجلی پیدا کرنے پر دھیان دینے سے تو کچھ خرچ نہیں ہوتا مگر عوام کی جیب سے اربوں روپیہ نکلوانے کے لیے احمقانہ سُستی کا مظاہرہ کیا گیا اور سستی ایل این جی چھوڑ کر ایک لاکھ پچانوے ہزار فرنس آئل کی خریداری پر ملک کا قیمتی زرِ مبادلہ اُڑا دیا گیا ایسے میں جب وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مجھے پاور سیکٹر کے مسائل رات کو سونے نہیں دیتے یقین کرنے کو دل نہیں مانتا کیونکہ ندیم بابر اور عمر ایوب سے یہ سوال کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ سستی کی بجائے مہنگی بجلی کیوں پیدا کی جارہی ہے اور یہ کہ پشاور،کوئٹہ اور قبائلی علاقہ جات میں ٹرانسمیشن اور ترسیلی نقصان میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے؟ بل وصولی 90.25سے کم ہوکر88.77کیوں ہوگئی ہے؟نیپراکی رپورٹ میں ہے کہ ساڑھے چھ رو پے کی ایل این جی کی بجائے گیارہ روپے اسی پیسے فی یونٹ کے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کی جاتی ہے اگر تقریروں کی بجائے کچھ وقت سرکاری شعبوں میں مچی لوٹ مار کم کرنے کی طرف دھیان دیا جائے تو کئی حماقتیں نظر انداز ہو سکتی ہیں ل۔گردشی قرضے کے پہاڑ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اب بھی اِس خطرے کے تدارک پر دھیان نہ دیا گیا تو مستقبل میں صنعت و معیشت بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔