... loading ...
وفا شعار رؤف طاہر رخصت ہوگئے! اے مرے خدا تو حافظے سے وہ سب محو کردے، جو میرے اور اس کے درمیان کہا سنا گیا۔ جس میں ہم نے اپنے قیمتی اور لذیذ ماہ وسال بِتائے۔ میرا رؤف طاہر وہ نہیں جو مستعار الفاظ میں دھڑے بندی کی تعزیت کا طالب ہو۔ وہ اس سے بے نیاز اپنے رب کے حضورسرخرو پہنچا!جہاں اُس سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ وہ جمہوریت کی طرف داری میں کہاں کھڑا تھا؟ اللہ کا دربار اس سے بے نیاز ہے۔ مگر نحوست بھری زندگی سے کنارہ کش ہونے والے برادرِ عزیر سے”متعصبانہ تعزیتیں“ کنارہ کرنے کو تیار نہیں۔ تُف اس دھڑے بندی پر اور افسوس ایسے تعزیتی حاشیوں پر، جن کے لکھنے والوں کو دوست کی موت بھی گروہی نفسیات سے بلند نہیں کرتیں۔
رؤف طاہر باہر کی دنیا سے پہچانے گئے، مگر وہ اپنی دنیا کے آدمی تھے۔ من کی دنیا، جہاں رب کائنات شہ رگ سے قریب ہوتے ہیں، جہاں زندگی باہر کے اثرات سے میلی نہیں ہوتی۔جہاں جذبات کجرو راستوں پر ہم آہنگِ تقدس رہتے ہیں۔
من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
دنیائے من کے ایسے آدمی اب نایاب ہوئے،رؤف بھائی کی تعزیت کے حاشیہ آراؤں سمیت جو بچے ہیں، وہ مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں، اُن کا ماجرا بقول شاعر
تمام صوفی وسالک سبھی شیوخ وامام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کُلاہ میں ہیں
کائنات کی تکمیل انسان سے ہوتی ہے، یہ کُل حسن و جمال کا نقطہئ عروج ہے۔ ہمارا رؤف اسی نقطے کی حسین تشریح تھا۔ وہ آہوں، کراہوں کو جذب کرکے مشکبو ہاتھوں سے رنج والم کی شکیبائی کرتا۔ اُس کے میٹھے نغمے صرف دوستوں کے کانوں میں رس نہ گھولتے وہ دھڑے اور دھڑلے میں بھی مہین کھنچی لکیروں کو نظرانداز کرتے ہوئے عناد کے کانوں کو بھی محبت کی بانسری کی دلنواز تانیں سناتا، پھر بھی! پھر بھی! جب بغض بعض نہ آتا۔ رؤف طاہر کے لیے لکھنے والے شف شف کیوں کر رہے ہیں؟کوئی بلند آہنگ کیوں نہیں ہوتا، پرویز رشید کانام کیوں نہیں لیتا؟حرصِ کرم ایسا بھی کیا کہ آئندہ کی کوئی ہڈی آدمی کو للچائے رکھے!
یہ سوال تو اپنی جگہ رہے گا کہ صحافی کی حد سیاسی طرفداری میں کہاں ختم ہوجاتی ہے؟ دھڑے بندی کی سیاست کا صحافت سے کتنا علاقہ ہے؟ سچائی کی کوئی گروہی تعبیر کتنی قابلِ تسلیم ہے؟ مگر طرفداری کے محور میں بھی آدمی کو مشخّص کرنے کے بعد اُس دائرے میں بھی انصاف نہ ہو توایسی لکنت زدہ زبانوں پر قفل کیوں نہیں لگتے؟رؤف طاہر کو ڈی جی پی آر کے اعلان کے باوجود کنارے بٹھا دیا گیا،تو کون آڑے تھا؟ کیا پرویز رشید نہیں؟ خواجہ سعد رفیق نے اچھا کیا کہ وہ مسلم لیگ نون کے واحد رہنما کے طور پر نمازِجنازہ میں شریک ہوئے۔ یہ اُن کے حق میں لکھے گئے کالموں کے مقابل کچھ حیا کا اظہار تھا۔ مگر کیا ریلوے کے شعبہئ تعلقاتِ عامہ میں رؤف طاہر مطمئن رکھے گئے؟ وہ صابر تھے، شاکی نہ تھے تو کیا شکایتیں بھی جواز نہ رکھتی تھیں۔ محفلوں میں رؤف بھائی کے قہقے سب سنتے تھے، افسوس اُن کانوں پر جنہیں سپاٹ سی خموشی نہیں سنائی دیتی تھی۔ جب حیات سم آلود لذتوں، غم آلود عشرتوں میں بے طالبِ حشم اور بے آرزوئے جاہ تکمیل پر اِصرار کرے، جہاں وفاداری مول تول میں تُلنے لگے، جہاں تعلق کی ثقافت پر سکے پہرے دار ی اور پرویز رشید ڈنڈا برداری کرے،وہاں بے نیازی چمنِ حیات میں تبسم کے پھول بھی بہ چشم نم کھِلاتی ہیں۔ مگر ٹوٹتے تارے سب کو نظر آتے ہیں آنکھ کے آنسو کون دیکھتا ہے؟
تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی
کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹ گیا
رؤف بھائی تعلق میں وقت کا ایثار اور خود زیاں کار بننے کے لیے ہمہ تن تیار رہتا۔ خود پر رحم کھانے اور رزق پر تردد کے لمحات میں مدیرِ نوائے وقت سے تنبیہ ہوئی کہ مجید نظامی کو سی این اے کی محفل میں اُن کی شرکت خوش نہیں آتی۔ برادرم رؤف طاہر نے دفتر میں کہا کہ دہائیوں پر پھیلی رفاقتوں کی مشکبو یادوں سے کون رشتہ توڑ سکتا ہے۔ پھر دفتر سے سیدھے ایوانِ اقبال جاپہنچے،جہاں لاہور کے دانشور دوستوں کی ہفتہ وار نشست جمعہ کو منعقد ہوتی۔ یہ لاہور کی اُس ثقافت میں رؤف بھائی کا چلن تھا، جہاں ادنیٰ مفادات کی خاطر تعلقات تو کجا، نظریات تک بدلنے کا چلن دکھائی دیتا تھا۔
بغداد کے صوفی نے کہا تھا، دنیا دل کے دروازے پر ہے، اندر آنے کی اِسے اجازت نہیں۔ رؤف بھائی زندگی میں اسی مسلک کے سالک تھے۔ عالم کے پروردگار نے جب روح پیدا کی، مکانِ انسان میں اُسے مکین کیا، تو اپنی تدبیر سے اِسے تمناؤں کی ایک پوشاک بھی دی۔ حرص و ہوس اُسی پوشاک کے پیوند ہیں۔ کیا برادرم رؤف طاہر اُس پوشاک کے بے حقیقت ہونے کا راز نہ پاگئے تھے؟ گاہے یہ خیال دل میں رہ رہ کر اُٹھتا جب اُنہیں رواجی پیچیدگیوں اور اُلجھنوں (Complex) سے آزاد دیکھتے۔ یاللعجب جرابیں الگ الگ، اور پھر بے نیازی بھی!!! ہمارے عہد کے درویش بھی اب زندگی کی بے کنار لذتوں کو سمیٹتے ہوئے اس کی توجیہ مذہب سے کر گزرتے ہیں۔ اس عہدِ ِنامسعود میں ہمارے رؤف بھائی! مسرت کو اشیاء کے تصرف میں دینے کے بجائے اس کی اصل حقیقت سے روشناس تھے۔ سچی مسرت اشیاء پر تصرف کے مرض میں مبتلا کرنے کے بجائے درحقیقت اُس سے بے نیاز کردیتی ہے۔ ہائے علامہ اقبالؒ نے کیا فرمایا:
کشادہ دست ِکرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
کتنے لوگ ہیں جو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ رکھنے والی دنیا کو جاہ وحشم سے بے نیاز ہو کردیکھتے ہیں۔ یہ کیا کہ ایک شخص کی موت کو بھی نوازشریف سے گہرے تعلقات کی پرتوں میں لپیٹ کر دیکھا جائے! یہ کون سی تعزیت ہے؟ اُن کی زندگی میں جو نوازشریف تھا وہ اُن کے خیالات نے تراشا تھا، چنانچہ وہ ہمیشہ جاتی امراء کے نوازشریف میں اپنے اندر موجود نوازشریف کو ڈھونڈتا رہا۔ جدہ کے سرور پیلس میں وہ اُن کے قریب رہا، مگر اُن کے دل کے سرور پیلس میں مقیم نوازشریف کیسا تھا؟ وہ لندن میں موجود نوازشریف سے کتنا ملتا جلتا تھا، اِس کا اندازا اُن کے اُس تاسف میں ہوتا تھا جس کا تذکرہ وہ بھیڑ میں کم کم کرتا تھا۔ گاہے وہ اچانک الگ دکھائی دینے والے نواز شریف کی توجیہ اپنے من کے نوازشریف سے کرتا، پھر کھود کرید میں وہ مختلف نکلتا تو خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا۔ اِس طرزِ عمل کو بھی دھڑے بندی میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ رؤف بھائی نے اپنی آخری سانس تک نوازشریف سے اپنی وفاداری استوار رکھی، مگر اس خاندان کے کیا کہنے؟ جنہیں زر خرید سازگار ہیں، جو پرویز رشیدوں سے اب پہچانا جاتا ہے۔ اپنی مرکز اور صوبے کی حکومتوں میں جب رؤ ف بھائی کے گھر ڈکیتیاں ہوئیں تو ان حکومتوں نے چپ کی پراسرار چادر اوڑھے رکھی۔ وہ شخص جو جدہ میں نوکری کرنے گیا تو اپنی قناعت پسند بیوی کے ہاتھ کی آخری دوچوڑیاں بھی گنوا چکا تھا۔ جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ مادہ پرست دنیا کی تلاطم خیز موجوں میں ڈوبتی زندگی کو منجدھار سے نکالنے کی مشقت کا نتیجہ تھا۔ اس مشقت میں زندگی کے گُل، خار اور دن، رات میں ڈھل جاتے ہیں۔ ایسا مشقتی زندگی کی گاڑی کو ہانک لیتا ہے۔اپنی وفاداری کی قیمت اغراض کی تکمیل سے پوری نہیں کرتا۔ یہ کام لے پالکوں، موٹے پیٹوں کے لشکروں اور راتب خوروں کا ہے۔ جو شریف خاندان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چچورتے ہیں۔ پھر جمہوریت کی تقدیس کے گیت گاتے ہیں۔رؤف بھائی تو اس سے بے نیاز رہے، اُنہوں نے نوازشریف سے اپنے رشتے کو نبھایا تو اس کی کوئی قیمت نہیں رکھی۔ ایسے قیمتی لوگوں کی تاجر سیاست دانوں کو کیا ضرورت! ایک تعزیتی ٹوئٹ کافی ہے، باقی سب اضافی ہے۔ رؤ ف بھائی جب دنیا میں اس کے لیے نہیں جیے تو اب جہاں ہے وہاں اس رشتے نے کون سی یاوری کرنی ہے؟
رؤف بھائی نے دنیا میں دل نہیں لگایا، اُسی دل پر حملے کے وقت ہمارے رؤف بھائی پر کیا گزری ہوگی، معلوم نہیں۔ مگر اُن سے دل کا تعلق رکھنے والوں کے دل کی دھڑکنیں اب بھی قابو میں نہیں۔ میرے خدایا! کوئی اور نہیں مگر تُو،تو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے،اُن کے بھی جن کے لیے وہ لڑتا تھا اور جن کے دلوں میں خاک اڑتی تھی۔ غالب نے خدائی اسکیم میں انسانوں کو خاک میں پنہاں ہوتے ہوئے لالہ وگل میں نمایاں ہوتے دیکھا تھا۔ ہمارے رؤف بھائی بھی جب لحد میں اُترے ہوں گے تو کہیں کوئی کلی چٹکی ہوگی، کوئی غنچہ مہکا ہوگا، کوئی شگوفہ پھوٹا ہوگا،کسی درخت پر کسی پھول نے انگڑائی لی ہوگی۔ اے من کی دنیا کے مسافر تیری آخری آرام گاہ پر اللہ کی رحمت ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔