وجود

... loading ...

وجود

درپیش چیلنجز کا ادراک

بدھ 06 جنوری 2021 درپیش چیلنجز کا ادراک

عالمی طاقتیں جسے خطے کا تھانیدار بنانے کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہیں وہ بھارت دنیا میں دہشت گردی کا مرکزبن چکا ہے اسلاموفوبیا کا شکار دنیا نے بروقت ادارک نہ کیا تو جنونی ہندو عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائیں گے امن کو درپیش چیلنجز کا بروقت ادراک کیے بغیر دنیا کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ بھارت نے دیگر ممالک میں سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی شروع کر ارکھی ہے جب سے سی پیک جیسے معاشی منصوبے کا آغاز ہوا ہے بھارت کی بے چینی عود کرآئی ہے کوئلہ،تیل ،گیس ،سونا سمیت دیگر قیمتی معدنیات کا مرکز ہونے کی وجہ سے بلوچستان خاص طور پر نشانہ ہے کیونکہ گوادر کی سی پیک میں بہت اہمیت ہے اسی لیے بلوچستان میں تخریبی کاروائیاں کرائی جارہی ہیں مچھ میں کان کنوںبھارت کی بزدلانہ کاروائیوں میں سے ایک ہے امن کو درپیش چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے بروقت توڑ ناگزیر ہے محض زمہ دار قرار دینے اور ڈوزیئر پیش کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے بھارتی جنرل اپنی فوجی استعداد سے مایوس ہو چکے اِس لیے خطے کی طاقت بننے کے لیے شرپسندی کو ہتھیار بن کر حاکمیت کا خواہاں ہے جس سے امن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جس ملک میں درجنوں علیحدگی کی مسلح تحریکیں ہوں اقلیتیں بے چینی کا شکار اور مستقبل سے مایوس تاجر ،کسان اور مزدور خودکشیاں کرنے پر مجبور ، سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار نے ایک کروڑ آبادی پر مشتمل مقبوضہ کشمیر جیل بنا دی جائے ٹیلی فون،انٹر نیٹ ، ذرائع ابلاغ پر پابندیاں اورمعیشت کوتاریخی کسادبازاری کا سامنا ہو اُسے خطے کی طاقت تسلیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ بھارت کامستقبل سوالیہ نشان ہے غالب امکان ہے کہ جلدہی روس کی طرح بکھر جائے لیکن بھارتی حکومت کو ملکی حالات سے کوئی سروکار نہیں نہ ہی وہ معاشی ناہمواری سے مختلف طبقات کی محرومیاں دور کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے بلکہ خطے اور ملک کے اندر خوف و ہراس پھیلاکر اقتدار مستحکم کرنا عزیز ہے۔

چین سے بدترین ہزیمت سے لگے زخموں نے بھارتی قیادت کو حواس باختہ کر دیا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح شرمندگی مٹانے کے لیے کوشاں ہے زخمی سانپ کی طرح ہمسایوں پر حملہ آور ہے جس سے خطے پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اورترقیاتی منصوبوں کی بجائے اکثر ممالک اپنے وسائل دفاع پر صرف کر نے پر مجبور ہیں سارک جیسی تنظیم غیر فعال ہو چکی جس کی وجہ بھارت ہے اگر خطے کے ممالک نے معاشی نمو بہتر بنانی ہے توسب کو مل کر بھارت کی مکاریوں کاتوڑ کرنا ہوگا تبھی خود مختاری و سالمیت کے تحفظ کو درپیش چیلنجز ختم ہوں گے کیونکہ بھارت کو کسی بھی ہمسائے کی آزادانہ خارجہ پالیسی گوارہ نہیں بلکہ وہ سب کو ڈراکر اورزیلی ریاست بنا کر رکھنے پر یقین رکھتا ہے ۔

پاک بھارت کو آزادی حاصل ہوئے چوہتر برس ہونے کو ہیں لیکن مسلمانوں کی طرف سے آزاد ملک پاکستان بنانے کو بھارتی قیادت بھول نہیں سکی مگر تہائی صدی گزرنے کے باوجود حالات نے قائدِ اعظم محمد علی جناع کی فہم و فراست اور مستقبل بینی کی تائید ی مہر ثبت کردی ہے بیس کروڑ سے زائد بھارت میں بسنے والے مسلمانوںکی حالت سماجی و معاشی پابندیوں کی بنا پر ناگفتہ بہ ہے آسام میں مدارس پر پابندی لگا کر ثابت کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے جگہ نہیں مسلمانوں کی مذہبی شناخت ختم کرنے کے لیے مساجد پر حملے ہوتے ہیں تاکہ ہندئووں کی طرف سے جاری مذہب تبدیلی کی تحریک کو قبول کرتے ہوئے مسلمان دوبارہ ہندو بن جائیںیہ سلسلہ بھارت کے تمام علاقوں میں شروع ہے آبادی کے تناسب سے سو گنا زیادہ مسلمان جیلوں میں بند ہیں اور اب تو لوجہاد کے تدارک کے لیے بنائے گئے قانون کے تحت بھی پکڑ دھکڑ کی جانے لگی ہے اِن حالات میں دنیا کی خاموشی دراصل بھارتی میںجاری جرائم کی سرپرستی کے مترادف ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نسل کشی کا سامنا ہے یہ ایسا چیلنج ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے مہذب دنیا کو لبوں کے قفل کھولناچاہیئے وگرنہ خطے کو ایک اور مہاجرت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ بھارت کی حکمران سیاسی قیادت مجرمانہ کردار کی حامل ہے جلائو گرائو ۔ماردھاڑ اور خوف کی فضا بنا کر اقتدار میں آ نے پر یقین رکھتی ہے اسی طریقہ کارسے غیرمقبول جماعت بی جے پی نے مقبولیت حاصل کی بھارتی معاشرے میں ہونے والی شکست وریخت پر ذرائع ابلاغ بھی نہ صرف خاموش ہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی فضا بنانے کا زریعہ ہیں اسی لیے بھارتی معاشرے کے روزوشب پر نظر رکھنے والے نکتہ داں کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ یہ فضا پورے خطے کو نقصان سے دوچار کرسکتی ہے افغانستان میں سیاح کے روپ میں آنے والا دیپ ڈیسائے گزشتہ ماہ اٹھائیس دسمبر کو دارالحکومت کابل میں ایک کم سن لڑکی جس کی عمر محض پندرہ برس تھی سے جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا جنسی زیادتی کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں بلکہ بھارتی سفارتخانے بھی ریپ کیسوں میں ملوث رہے ہیں جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ جنسی زیادتی میں مردانہ جبلت کی بجائے ہندئووں کی مسلمانوں سے نفرت کا جذبہ کارفرما ہے کابل میں اربوں کی سرمایہ کاری افغانوں سے الفت نہیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بیس کیمپ کی وجہ سے ہے اگر افغانوں سے اُلفت میں صداقت ہوتی تودہلی ہزاروں ٹن خراب گندم کا تحفہ کابل ہر گز نہ بھیجتا یہ اِسی سوچ کا عکاس ہے کہ ہندو ہر طریقے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر یقین رکھتے ہیں خراب گندم کھلاکر افغانوں کی صحت کو نقصان پہنچانا مقصود تھا ایران سے ظاہری قربت اُسی وقت ختم کردی جب امریکا نے نا پسندیدگی ظاہر کی خطے میں ہندو وں میں جنونیت کاپروان چڑھنا ایسا چیلنج ہے جو امن کو تہہ بالا کر سکتا ہے۔
کرک میں ہندئووں کے مقدس مقام کو نظرِ آتش کرنے پر دہلی نے کِس طرح بڑھ چڑھ کر الزام ترشی کی لیکن بابری مسجد سے لیکر دیگر درجنوں مساجد کو نقصان پہنچانے پر آج تک شرمندگی نہیں بلکہ مندرکا سنگِ بنیاد رکھنے مودی خود پہنچ جاتے ہیں مقصد اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ مودی کو صرف ووٹر ہندو عزیز ہیں اگر پاکستان سے ہندوبھارت جائیں تو انھیں قتل کرنے میں عار تصور نہیں کی جاتی ہندئووں میں پرورش پاتی جنونیت و انتہا پسندی ایک حقیقت ہے اگر دنیا نے ہندوانتہا پسندی کا برقت سدِ باب نہ کیا تو خطے کے امن کو درپیش خطرات ناقابل ِ حل ہوجائیں گے چیلنجز کا ادراک کرنے میں ہی مہذب دنیا کی عافیت ہے وگرنہ اسی کروڑ جنونی ہندوآزاد چھوڑ دیے گئے تو پوری دنیا کا امن دائو پر لگ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر