... loading ...
جیسے جیسے شعور عام ہورہا ہے پاکستان میں برسوں سے رائج مطلق العنانیت، موروثیت اور فرسودہ نظام اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے اور حکومت کامیابی کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اگرچہ اس کی رفتار بظاہر سست نظر آتی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نہ صرف امریکی ڈکٹیشن کے شکنجے سے آزاد ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے نکلتا جارہا ہے خواہ وہ عرب ریاستیں ہوں یا FATF کا شکنجہ، پاکستان کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جوکہ بہت سے سیاستدانوں کے لیے ناقابل ہضم ہے ایسی صورتحال میں اقتدار سے دوری ان بیچاروں کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی کے حریف اب کھل کر دوست و اتحادی بن کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب داخلی و خارجی سطح پر سیکیورٹی خدشات شدید تر ہیں، کسی نہ کسی بہانے ریاست کے پرسکون ماحول کو خراب کرنے اور نظم و ضبط کو بگاڑ کر عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں لگے ہیں، کہنے کو تو یہ اتحاد حکومت مخالف ہے مگر شدت کے ساتھ نشانے پر تو فوج و آئی ایس آئی کو رکھا ہوا ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ بعض افراد نے بھی اسے کامیاب بنانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو مختلف نظریات کے حامل ایک پیج پر اکٹھے ہوگئے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ فوج کیوں نشانے پر ہے؟ کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے ہیلری کلنٹن نے انٹرویو دیتے ہوے ڈیپ اسٹیٹ کی مداخلت کا ذکر کرتے ہوے وضاحت کے لیے آئی ایس آئی کا نام لیا، اس کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ستمبر میں بیان دیا کہ امریکا ہر جگہ انسانی حقوق کا تحفظ کریگا۔
اس کے فوراً بعد APC ہوئی اور PDM وجود میں آئی، جیسا کہ ماہر امریکی خارجی و فوجی مداخلت بنجامن ڈینیسن نے کہا کہ جمہوریت کا چورن، امداد اور مخصوص میڈیا پروگرام امریکی ٹروجن ہارس ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ مشرف حکومت کے خاتمے کے لیے کیا گیا، اچانک اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مہنگائی پیدا ہوگئی اور دوسری طرف نام نہاد عدلیہ بحالی تحریک کو لیکر میڈیا پر طوفان بپا کیا گیا جس کی عوامی جڑیں تو کوئی نہیں تھی البتہ بیرونی پریشر ضرور بن گیا تھا بعینہ 2019 میں ایک زرعی ملک میں آٹے و چینی کا بحران پیدا ہوا اور مخصوص میڈیا پرسننز نے اسے عمران خان کی ناکامی سے زیادہ ن لیگ و PPP کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کیا۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ مخصوص میڈیا پرسننز الیکٹرانک و سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے بطور ٹروجن ہارس کام کررہے ہیں، اِی یُو ڈس انفولیب نے بھارتی مذموم نیٹورک کو بے نقاب کیا تو اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا جبکہ ایک آدھ محبت کی شادی Love Marriage کو زبردستی تبدیلی مذہب Forced Conversion کے طور پر پیش کیا گیا، بھارت کی مسلم دشمنی پر مبنی منظم ریاستی پالیسی پر آنکھیں بند ہیں لیکن اقلیت کے خلاف افراد کی کاروائی جوکہ بظاہر پیڈ معلوم ہوتی ہیں انہیں پوری ریاست کی کاروائی بناکر دکھاتے ہیں جو اس لیے بھی مشکوک ہے کہ ایک تو یہ بھارت کی اقلیت کُش پالیسی کو بیلینس کرنے کے مترادف ہے تو دوسری طرف کچھ دن پہلے ہی دو چار واقعات کو بنیاد بناکر امریکا نے پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔ آئے دن آزادء اظہار پہ پابندی کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے لیکن یہ شاید بھول رہے ہیں کہ اشتعال انگیزی و دانستہ افواہ پھیلانا یا پروپیگنڈہ مہم آزادء اظہار نہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ انفارمیشن وار کا دور ہے ایسے میں پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ آزادء اظہار کے نام پر بگاڑ پیدا کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے، جس کے ذریعے سے کوئی بھی من چاہے مقاصد حاصل کرلے اور طاقتور لوگ یا بیرونی ہاتھ اپنی مرضی کا نیریٹو بنالیں، سقراط کا قول ہے کہ ”اچھے دماغ کے لوگ خیالات پہ تنقید کرتے ہیں جبکہ کمزور دماغ کے لوگ افراد پہ تنقید کرتے ہیں” موجودہ صورتحال کے تناظر میں سقراط کا یہ قول مبنی بر صداقت ہے کہ نام نہاد دانشوروں نے اچھائی برائی کی لڑائی کو پارٹی کی لڑائی بنادیا، کمال چالاکی سے احتساب کو سیاسی لڑائی کا نام دے دیا اور نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ برائی کو برائی سمجھنے کی بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ میری پارٹی تیری پارٹی، زوال کی ایسی پستی بھی ہوگی کہ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بات کیا ہے یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کون کر رہا ہے۔
معروف تجزیہ نگار حسن نثار کے مطابق پاکستان میں ”طاقت کے ذریعے سیاست کی جاتی ہے سیاست کے زریعے دولت و حاکمیت حاصل ہوتی ہے” اور اس دولت کے ذریعے پاکستان میں آسانی سے من چاہے نیریٹو بنوالیے جاتے ہیں جیسا کہ جمہوریت پسند صحافیوں و دانشوروں کے بیانیے سے جھلکتا ہے کہ سیاست و حاکمیت صرف چند خاندانوں کا حق ہے جس طرح قدیم آریا سماج میں حاکمیت صرف ایک طبقے کا حق تھا یہی صورتحال پاکستان میں نافذ کررکھی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم و قوم کے حق میں دعا ہی کی تھی جس پر نام نہاد جرنلسٹ، زبردستی کے دانشور، موروثی سیاستدان کلبلا اٹھے تھے اور بہت سے صحافیوں نے تو ایک نیا نظریہ پیش کردیا تھا کہ علماء کا سیاست و حکومت میں کیا کام وہ محدود رہیں جبکہ آصفہ بھٹو کی تقریب رونمائی پر یہی لوگ ڈھول پیٹتے رہے اور لوگوں کی ذہن سازی کرتے رہے کہ لڑکی بہت بڑی لیڈر ہے، کسی نے کہا اس میں دم ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ PDM کو خاطرخواہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں چونکہ میڈیا جانبدار و نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے سو انہوں نے مبالغہ آرائی کا سہارا لیکر اسے بڑا بت بناکر دکھایا ہے، ان کے جلسوں کو پاکستان کے لیے زلزلہ ثابت کرکے دکھایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑے جلسے مذہبی جماعتیں منعقد کرتی ہیں، سیاسی جلسے تو چند امراء ٹھیکیدار و افسرشاہی کے مرہون منت ہوتے ہیں دلچسپ یہ کہ مخصوص لوگ ہوتے ہیں جن کو ہر جگہ پہنچادیا جاتا ہے، روایتاً وہ اسے دکھا کر بیرونی ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن شاید انہیں ابھی احساس نہیں ہوا کہ ان بیرونی ہاتھوں کا سورج 2020 کے سورج سے پہلے غروب ہوچکا۔ جس طرح میڈیا و سوشل میڈیا صرف سیاستستان کا گڑھ بنادیا گیا ہے اور ہر معاملے میں صرف سیاستدانوں کو ہی دانشور کے طور پر گفتگو کے لیے بلایا جاتا ہے اور ان کا معیار گفتگو و اہلیت میری پارٹی میرا لیڈر تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے میں ریاست کو اب حقیقی دانشوروں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں پھیلی افراتفری کا خاتمہ ہو اور ریاست اقتصادی استحکام و ترقیاتی منصوبہ بندی کے ساتھ شعوری کے ٹریک پر چڑھ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔